دنیا ایک بار پھر کورونا کی لپیٹ میں

زبیر رحمٰن  پير 23 نومبر 2020
zb0322-2284142@gmail.com

[email protected]

پانچ کروڑ سے زیادہ افراد دنیا بھر میں کورونا وائرس سے متاثر ہو چکے ہیں۔ دوسری لہر میں اب تک 7.2 فیصد کا اضافہ ہوچکا ہے۔ اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ متاثر امریکا، میکسیکو، برطانیہ، برازیل، فرانس، جرمنی اور ہندوستان وغیرہ ہیں۔ پاکستان میں روزانہ کے متاثرین تین ہزار سے زیادہ ہوچکے ہیں۔

امریکا، برطانیہ اور روس میں ویکسین کی دریافت ہوئی ہے۔ اس وقت درست اعداد و شمار بتانا مشکل ہے اس لیے کہ تعداد میں تیزی سے روزانہ اضافہ ہو رہا ہے۔ موڈرینا کمپنی نے اعلان کیا ہے کہ یہ ویکسین 95 فیصد کارآمد ہے، یہ وائرس کو ختم کرے گی۔ فائزر اور جانسن اینڈ جانسن امریکی کمپنیوں نے بھی ویکسین بنالی ہے، یہ 94.5 فیصد کامیابی کا دعویٰ کیا ہے۔ایک کمپنی 22 ملین ویکسین فراہم کرسکتی ہے جب کہ دوسری 50 ملین ویکسین فراہم کرسکتی ہے۔ امریکی حکومت نے 1.1 ملین ویکسینز خریدنے کا اعلان کیا ہے۔ 1.1 ملین ویکسینزامریکا لینے کے بعد دوسرے ملکوں کو مل سکتی ہے۔

امریکا میں ایک روز میں ایک لاکھ لوگ متاثر ہوئے۔ روسی سائنسدان نے ایسی ویکسین دریافت کی ہے جو اینٹی باڈی پلازمہ 24 گھنٹے میں بنا سکتی ہے اور بھی کئی ملکوں کے سائنسدانوں نے ویکسین اور اینٹی باڈیز کی دوا دریافت کی ہے۔ شروع میں چین، اٹلی، اسپین اور ایران زیادہ متاثر ہوئے تھے جب کہ دوسری لہر میں ایسا نہیں ہے۔

وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے پی ٹی آئی کے جلسے روک دیے ۔ جب انتخابی مہم ختم ہوئی تو یہ اعلان کیا۔ جن ملکوں نے اسے اہمیت نہیں دی یا مذاق کے طور پر دکھا یا چھپایا وہیں زیادہ پھیلا۔ جیساکہ امریکا، اٹلی، اسپین، بھارت، میکسیکو، برازیل، برطانیہ اور فرانس وغیرہ۔ جہاں احتیاط کی گئی وہاں رک گیا۔ جیساکہ بھوٹان، نیپال، چین، کوریا، ویتنام، کمبوڈیا، برما، لاؤس، یونان اور کچھ افریقی ممالک۔ جن کے پاس وسائل کم ہیں انھوں نے احتیاط کی اور روک لیا۔ جن کے پاس بہت وسائل ہیں، ایٹم بم بھی ہیں مگر کورونا کو روک نہیں پائے۔

ویسے تو وائرس خطہ، رنگ و نسل، مذہب، طبقہ اور زبان سے بالاتر ہے، کسی پر بھی حملہ آور ہو سکتا ہے،مگر ساتھ ساتھ طبقاتی بھی ہے۔ وہ ایسے جیساکہ امریکا میں سیاہ فام لوگوں میں زیادہ پھیلا۔ اس لیے کہ وہ پسماندہ ہیں، غذا کی کمی ہے، بہتر ماحول میسر نہیں، تحفظات کا انتظام نہیں۔ چونکہ سیاہ فام سفید فاموں کے مقابلے میں غذائی قلت کا شکار ہیں، اس لیے کہ آمدنی اور وسائل کم ہیں۔ چونکہ بھرپور غذا حاصل کرنے سے قاصر ہیں اس لیے اینٹی باڈی یعنی قوت مدافعت کی کمی ہے۔ اس کے باعث اموات زیادہ ہوئیں۔ یہی صورتحال دنیا بھر میں ہے۔ پاکستان، ہندوستان، برازیل، میکسیکو اور برطانیہ وغیرہ میں ہے۔

مرنے والوں میں غریب، محنت کش اور پسماندہ لوگ قرنطینہ میں رہتے ہوئے غذائیت سے بھرپور کھانا نہیں کھا سکتے ہیں اس لیے ان میں قوت مزاحمت بہتر طور پر پیدا نہیں ہوتی ہے اور وہ وائرس کو شکست بھی نہیں دے سکتے ہیں۔ محنت کش اگر کورونا سے بچ جاتے ہیں تو پھر بھوک کے شکار ہوکر مر جاتے ہیں۔انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے مطابق رواں سال کی دوسری سہ ماہی میں ہی تیس کروڑ محنت کشوں کو اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھونا پڑا۔ اس سے قبل صرف سال کے پہلے تین ماہ میں تیرہ کروڑ لوگ اپنی نوکریوں سے فارغ کردیے گئے۔ اس طرح غریب ممالک کے تقریباً 1.8ارب غیر رسمی مزدوروں کو لاک ڈاؤن اور اس کے بعد پیدا ہوئی صورتحال کی وجہ سے غربت کا سامنا کرنا پڑے گا۔

عالمی بینک کے مطابق ترقی یافتہ ممالک کی معیشت اس سال کے اختتام تک 7 فیصد تک سکڑ جائے گی اور مجموعی طور پر عالمی معیشت 5.2 فیصد تک سکڑ سکتی ہے، جب کہ زیادہ تر ممالک کی معیشتیں کساد بازاری کی لپیٹ میں رہیں گی۔ معیشتوں کی اس قدر ابتر صورتحال کے سب سے زیادہ بھیانک اثرات بھی محنت کش طبقے پر ہی پڑیں گے جو پہلے ہی ابتر صورتحال سے دوچار ہے۔

دوسری طرف وبا کی شروعات پانچ مہینوں میں صرف امریکی ارب پتیوں کی کل دولت میں 6.37 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا ہے۔ جو دن بہ دن بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ آن لائن تعلیم یا مختلف اجناس کی آن لائن کھپت، کورونا وبا کے دوران بھی ان سرمایہ داروں نے ہر وہ حربہ استعمال کیا ہے جس سے ان کی دولت میں اضافہ ہوسکے۔ دولت میں اضافے کی یہ ہوس اس قدر شدت اختیار کرچکی ہے کہ آج ہمارا ایکوسسٹم بھی اس کی زد میں آچکا ہے۔

چین سے جس وبا کا آغاز ہوا وہ محض کوئی حادثہ نہ تھا بلکہ یہ فطرت میں پیدا کیے گئے بگاڑ ہی کا نتیجہ تھا جس کا خمیازہ آج پوری دنیا کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ پاکستان میں ایک ہفتہ میں 5 گنا کورونا کے متاثرین کا اضافہ ہوا ہے۔ عمران خان نے ہزارہ، حافظ آباد اور جی بی کے دورے کے بعد یعنی اپنا سیاسی دورہ مکمل کرکے اب جلسوں کے خاتمے کا اعلان کیا ہے۔ اب اگر حزب اختلاف جلسے کرنے جا رہی ہے تو وہ بھی جرم ہے۔ سوئٹزرلینڈ میں مزید 12 ہزار 839 افراد متاثر ہوئے۔ سوئیڈن کے حکام نے کورونا وائرس کے باعث سماجی تقریبات میں لوگوں کی تعداد کو 300 سے کم کرکے 8 کرنے کا اعلان کیا ہے۔

جنوبی کوریا میں 11 مزیدامریکی فوجیوں کا ٹیسٹ مثبت آیا۔ برطانوی وزیر صحت نے کہا کہ حکومت ویکسین کی دستیابی کے بعد اسے لوگوں تک پہنچانے کے لیے منصوبے پر کام کر رہی ہے۔بھارت کی سیاسی جماعت کانگریس کے مرکزی رہنما احمد پٹیل بھی وائرس کا شکار ہوگئے،یہ اعداد و شمار 19نومبر2020تک کے ہیں۔ بھارت میں متاثرین کی تعداد 80 لاکھ 45 ہزار تک جا پہنچی ہے جب کہ مزید447 اموات کے بعد مجموعی ہلاکتیں ایک لاکھ 30 ہزار 109 ہوگئیں۔ امریکا میں متاثرین کی تعداد ایک کروڑ تیرہ لاکھ سے تجاوز کرگئی۔ جب کہ 2لاکھ 51 ہزار افراد لقمہ اجل ہوچکے ہیں۔ برازیل میں متاثرین افراد کی تعدد 58 لاکھ 63 ہزار سے بڑھ گئی ہے۔ اب تک ایک لاکھ 65ہزار 800 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ آسٹریا میں لاک ڈاؤن کا دوسرا مرحلہ، سعودی عرب کے علاقے نجران میں دوبارہ پابندیاں لگائی گئی ہیں۔

دنیا بھر میں کورونا وائرس سے 13 لاکھ 32ہزار افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ کسی زمانے میں ٹی بی کے مرض کو لاعلاج قرار دیا جاتا رہا مگر اب اس کا باقاعدہ علاج ہوتا ہے۔ کینسر کا بھی علاج ہو رہا ہے مگر دھن والے کروا سکتے ہیں۔ اب بھی پولیو کی معذوریت سے بچانے کی دوا کے بجائے اسے نسل کو بڑھانے سے روکنے کی دوا بعض لاعلم حضرات قرار دیتے ہیں۔

کورونا کو بھی بہت سے لوگ اور حکمران اسے خطرناک نہیں سمجھتے اور مذاق اڑاتے ہیں۔ ہر دور میں ایسے لوگ ہوتے ہیں جو بیماریوں کے علاج کو فضول سمجھتے ہیں۔ ابوبکر الرازی جو فادر آف میڈیسن بھی کہلاتے ہیں جب چیچک کی دوا دریافت کی تو انھیں حکمرانوں نے جیل میں یہ کہہ کر قید کردیا کہ چیچک کی تو بڑھیا ہوتی ہے اس نے کہاں سے دوا نکال لی؟ بیماری ہو، وبا ہو، ماحولیات ہو یا جنگ، ہر سانحے میں پیداواری قوتیں، محنت کش اور شہری کی اموات زیادہ ہوتی ہیں۔ اس وقت احتیاط سب سے بڑا علاج ہے۔

یونان اور مشرق بعید کے ممالک بہتر احتیاط کرنے کی وجہ سے کورونا کم پھیلا ہے۔ یہ عمل قابل تقلید ہے۔ یونان کی حزب اختلاف کی تجویز اور حکومت کی جانب سے ایک حد تک عمل کرنے پر بہتر نتائج آئے ہیں۔ انھوں نے پہلے مرحلے میں کوئی لاک ڈاؤن نہیں کیا۔ مل، فیکٹریاں، کارخانے، دکانیں سب کھلی رہیں، مگر فیکٹریوں میں ایک شفٹ میں 35 افراد کو کام کرنے کی اجازت دی تھی۔ ہر شفٹ کے ساتھ ایک ڈاکٹرورلڈ ہیلتھ کے احکامات پر مکمل عمل کیا۔ اس سے بہتر نتیجہ نکلا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔