جانو جرمن خان کی انگریزی

سعد اللہ جان برق  منگل 24 نومبر 2020
barq@email.com

[email protected]

آپ کو ’’جانو جرمن خان‘‘یاد ہے؟یہ ہم آپ کی زبردست اور گجنی کے عامرخان سے بھی زیادہ مضبوط یادداشت پرنہیں کہہ رہے ہیں وہ تو ہمیں پتہ ہے کہ یادداشت سرے سے موجود ہی نہیں بلکہ ’’حافظہ‘‘نام کا پرزہ آپ میں ڈالا ہی نہیں گیا۔

لیکن ’’جانو جرمن خان‘‘ اگرچہ بہت پرانا کردار ہے لیکن یہ کردار اب بھی ہر ہر جگہ ہر ہر سطح اور ہر ہر اسٹیج پر موجود ہے بلکہ جس طرف دیکھیے۔ آپ کو ’’جانو جرمن خان‘‘ہی ملیں گے۔ جانو جرمن خان عبدالقادر جونیجو کے ایک ڈرامے کا کردار تھا جس نے علاقے میں خود کو انگریزی بابو کے طور پر مشہور کررکھاتھا بلکہ دنیا کی ہر زبان پرخود کو اتھارٹی مشہور کیاتھا۔پھر اس علاقے میں ایک اور جنٹلمین پیدا ہوگیا جو یورپی ممالک میں کئی سال رہ کر آیا تھا۔ علاقے کے لوگوں نے ان دونوں کے بیچ’’ملا کڑا‘‘کرانے کا بندوبست کیا۔ کہ کس کو زیادہ انگریزی آتی ہے۔

خلقت بھی بڑی تعداد میں جمع ہوئی جج صاحبان بھی بٹھائے گئے اور ملاکڑا شروع کردیا گیا۔پہلے وہ آدمی اسٹیج پر آیا جو واقعی انگریزی جانتا اور بولتا تھا۔اس نے تقریباً آدھا گھنٹہ انگریزی میں تقریر کی۔اس کے بعد ’’جانوجرمن خان‘‘کی باری آگئی۔جانوجرمن خان نے انتہائی حد تک انگریز بننے کی کوشش کی تھی۔کباڑ سے خریدے ہوئے کوٹ پتلون بوٹ سوٹ،بڑی سی ٹائی باندھی تھی اور جہازی سائز کا جہازی سائز کا پینٹ بھی پہنا ہوا تھا۔

انگریزی کا ایک لفظ بھی اسے نہیں آتاتھا لیکن پھر بھی وہ جیت گیا۔کیونکہ دوسرے آدمی نے اپنی انگریزی میں ’’گلاس‘‘ اور ’’بوٹ‘‘جیسے دیسی الفاظ استعمال کیے تھے۔جب کہ جانوجرمن خان نے خالص اور اصلی انگریزی بولی تھی کوئی دیسی لفظ استعمال نہیں کیا تھا۔

جانوجرمن خان جب اسٹیج پر آیا تو اس نے مسکراتے ہوئے پہلے حاضرین پر ایک ٹاپ کلاس انگریزی نظر ڈالی۔اور شروع ہوگیا  ون۔ ٹو،تھری۔ (تھوڑا ساپاز دے کر) فور فائیو سکس (حاضرین کی تالیوں کے لیے تھوڑا سا رک کر مسکراتے ہوئے پوز)تالیوں کی گونج ختم ہوئی تو پھر اس نے ایک ادا سے انگریزی کا آغاز کیا سیون ایٹ نائین۔  اینڈ ٹن۔اس طرح اس نے نہایت اعتماد سے اور مناسب مواقعے پر اسٹریس پاز دے کر سو تک کی گنتی انگریزی میں سنائی۔

تب جج صاحبان نے فیصلہ سنایا کہ دوسرے آدمی نے خالص انگریزی نہیں سنائی اور اس میں ’’گلاس‘‘ اور’’بوٹ‘‘جیسے دیسی الفاظ استعمال کیے ہیں جب کہ جانوجرمن خان نے خالص اور پکی انگریزی سنائی ہے کیونکہ اس کا ایک لفظ بھی حاضرین کی سمجھ میں نہیں آیاتھا۔اس لیے جانو جرمن خان یہ ’’ملا کڑا‘‘ جیت گیا۔

اگر آپ اپنے ارد گرد دیکھیں تو اب بھی چاروں طرف بے شمار جانو جرمن خان دکھائی دیں گے۔ جو بیانات کی صورت میں ’’انگریزی‘‘بولتے ہوئے سنائی دیں گے،کیونکہ ون،ٹو،تھری اور فور فائیو سکس۔ ہی بول رہے ہیں اس کے سوا اور کچھ نہیں بولتے۔ کیونکہ سارا کمال انگریزی میں نہیں ہے بلکہ ’’بولنے‘‘میں ہے بلکہ بولتے وقت کی اداکاری اور ڈائیلاگ ڈیلوری سے ہے بلکہ منہ بگاڑنے سے ہے۔جتنا کوئی منہ بگاڑ بگاڑ کر اور گلہ پھاڑ کربولے گا اس کی انگریزی اتنی ہی اچھی اور خالص سمجھی جائے گی۔مطلب یہ کہ ہنر بہرحال ہنر ہوتاہے۔

ایک ہی گندم اور چاول ہیں لیکن ہنرمند ان سے نہ جانے کیا کیا بنالیتے ہیں کیک، پیسٹریاں، بسکٹ، پراٹھے اور مٹھائیاں۔لیکن غیرہنرمند اگر روٹی بھی بنائیں تو ٹیڑھی میڑھی ہوگی اس طرح چاول اور اس کی مصنوعات کو لے لیجیے بلکہ مسور کی دال کا قصہ تو آپ نے سناہی ہوگا کہ بعض مقامات میں صرف مسور کی دال کے ماہرین ہی بڑی بڑی تنخواہیں پاتے ہیں۔

بلکہ بینگن کی بات تو ابھی تک چل رہی ہے وہی بینگن ہے لیکن ہنرمندوں نے اس سے کیا کیا نہیں بنایا بلکہ اب بھی بنارہے ہیں۔یہ شاعر صورت گر وافسانہ نویس اور ساتھ ہی گائیک اور قوال بلکہ پاپ سنگر بھی کر لیجیے۔ یہ جو الفاظ بولتے ہیں وہ کوئی نئے آسمانی الفاظ نہیں ہوتے ہیں یہی عام الفاظ ہوتے ہیں جو ہم تم روزانہ بولتے ہیں لیکن ہنرمند ان کو صرف’’ آگے پیچھے‘‘ کرکے دادا پاتے ہیں۔ موسیقی کے صرف سات سر ہیں سارے گا وغیرہ لیکن ہنرمند۔

کبھی سارے گاما کبھی پادھا کبھی نیسا

دمالحہ اجن کر اس نے سدا ہر گیت کو پسیا

پیسنے ہاں صرف پیسنے کی بات ہے۔پڑوسی ملک کا ایک بڑا پاپولر گانا تھا۔ایک دو تین۔اب یہ ہندسے کس کو نہیں آتے لیکن ان کا گانا بنانا استادی ہے۔ ایک اور اس سے بھی زیادہ بے معنی گانا تھا۔ون ٹو کا فور۔ فورٹو کا ون۔یہ کمال ہنرمندی کا ہے کہ سننے والے خود ہی ان میں معنی ڈال دیتے ہیں آپ نے اکثر دیکھا ہوگا کہ لوگ پاگل ملنگوں کی گالیوں سے بھی سٹے کے نمبر نکال لیتے ہیں، مٹی کے ڈھیر کو بھی ’’مزار شریف‘‘ بنا دیتے ہیں۔اس لیے تو کہتے ہیں کہ۔پیران نہ پرد۔ مریدان می پرانند۔ یعنی ’’پیر‘‘ نہیں اڑتے لیکن مرید اڑا دیتے ہیں بلکہ ہمیشہ اڑاتے رہتے ہیں۔

’’جانو جرمن خان‘‘جب جانو جرمن خان ہوجاتے ہیں تب وہ جو بھی بولتے ہیں وہ ٹھیک اور درست ہوتا ہے۔ لیکن آدمی جانو جرمن خان نہ ہو تو وہ ہیرے موتی بھی پروئے کنکر پتھر بن جاتے ہیں ذرا اس موتی کو دیکھیے۔فلسفہ اقبال کی روشنی میں ملک کو آگے لے کر جائیں گے؟ اب کس نے پتہ کیا ہے کہ فلسفہ اقبال کس چڑیا کانام ہے۔اس کی روشنی کیاہے کہاں کدھر ہے۔اور اس کو ’’لے کر‘‘کیسے چلتے ہیں یہ مشعل کی شکل میں ہے چراغ کی شکل میں یا ٹارچ کی شکل میں اور ’’آگے‘‘ ’’کہاں‘‘ لے کر جانا ہے۔ لیکن جانو جرمن خان کی انگریزی بولتے رہیے اور سنتے رہیے۔وہ کہے اور سنا کرے کوئی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔