پاکستان میں پہلی بار فالج کے مریض کے دماغ میں اسٹنٹ ڈالا جائے گا

طفیل احمد  منگل 24 نومبر 2020
دماغ میں اسٹنٹ ڈالنے کے بعد فالج کے مریضوں میں معذوری کا عمل ختم ہوجائے گا، سربراہ این آئی سی وی ڈی

دماغ میں اسٹنٹ ڈالنے کے بعد فالج کے مریضوں میں معذوری کا عمل ختم ہوجائے گا، سربراہ این آئی سی وی ڈی

کراچی: این آئی سی وی ڈی میں پہلی بار فالج کے مریضوں کے دماغ میں اسٹنٹ ڈالنے کی تیکنیک شروع کی جائے گی۔

قومی ادارہ برائے امراض قلب (این آئی سی وی ڈی) میں فالج کے مریضوں کے علاج کے لئے پہلی بار نئی تیکنیک کا اعلان کردیا گیا، فالج کے اٹیک کے 4 گھنٹے کے اندر متاثر ہونے والے مریض کے دماغ کی بند ہونے والی شریان کو کھولنے کے لئے انجیوپلاسٹی کی طرز پر اسٹنٹ ڈالا جائے گا، یہ طریقہ علاج پاکستان میں پہلی بار متعارف کرایا جائے گا۔

ایکسپریس ٹربیون کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے اسپتال کے سربراہ پروفیسر ندیم قمر نے بتایا کہ فالج کے مریضوں کو زندگی بھر معذوری سے محفوظ رکھنے کیلیے این آئی سی وی ڈی کی ماہرین فیکلٹی نے  اپنی خدمات پیش کردیں جب کہ دماغ  کی بند شریان کھولنے کے اس پیچیدہ اور حساس نوعیت کے پروسیجر میں صرف ایک گھنٹہ درکار ہوگا۔ انھوں نے بتایا کہ  دماغ میں اسٹنٹ ڈالنے کیلئے انجیوپلاسٹی کی طرز پرماہرین کی نگرانی میں انتہائی پیچیدہ طریقہ کار کیا جائے گا جس کے بعد فالج کے مریضوں  میں معذوری کا عمل  ختم ہوجائے گا۔

پروفیسر ندیم قمر نے بتایا کہ اس سے قبل فالج لاحق ہونے کے بعد مریض معذوری کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوجاتے ہیں تاہم قومی ادارہ برائے امراض قلب کے ماہرین نے فیصلہ کیا ہے کہ ایسے مریض جنہیں فالج کا اٹیک ہو اور وہ مریض 4 گھنٹے کے اندر اسپتال پہنچ جائے  تو ان کے دماغ کی بند شریان کوکھولنے کے لئے  اسٹنٹ ڈال دیاجائے گا جس کے بعد فالج کا مریض نارمل زندگی گزار سکے گا۔

پروفیسر ندیم قمر نے پاکستانی قوم کو خوشخبری دیتے ہوئے بتایا کہ اسپتال میں آئندہ سال سے دل کی پیوندکاری (ہارٹ ٹرانسپلانٹ) کرنے کی بھی تیاریاں شروع کردی گئیں ہیں، اس سلسلے میں بعد ازمرگ عطیہ اعضا کا قانون پہلے ہی سینیٹ سے منظور کیا جاچکا ہے، اس قانون کا نام  The Transplantation of Human Organ & Tissue Act 2010 ہے،  2007 میں سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں آردینینس جاری کیا گیا بعدازاں 2010 میں قومی اسمبلی اور سینٹ سے متفقہ طور پر منظور کیا گیا، اس قانون پر سابق صدر آصف علی زرداری کے دستخط موجود ہے، اس قانون کے تحت کوئی بھی انسان اپنا اعضا کسی دوسرے انسان کو عطیہ کرسکتا ہے۔ اس قانون کے تحت ایس آئی یوٹی میں 1985 میں گردوں کا پہلا ٹرانسپلانٹ بھی کیا گیا جو جاری ہے۔

سربراہ قومی ادارہ برائے امراض قلب  کا کہنا تھا کہ دل کی پیوندکاری بھی اسی قانون کے تحت کی جاسکے گی، تاہم اس کے لئے  ہم سب کوقومی  سطح پر آگاہی مہم شروع کرنا  ہوگی۔ برین ڈیتھ (یعنی دماغی موت) کی تصدیق کے 6 گھنٹے کے اندر دل نکال کردوسرے مریض میں لگانا ہوگا، ایسے افراد جوکسی بھی خوفناک حادثے کا شکار ہوکر ٹراما سینٹر لائے جاتے ہیں اوران کے بچنے کے امکانات نہیں ہوتے، ان مریضوں کے لواحقین کی اجازت سے دل نکال کردوسرے مریضوں کی زندگی بچائی جاسکیں گی، انھوں نے کہاکہ  قومی ادارہ برائے امراض میں آئندہ 6 ماہ بعددل کی پیوندکاری کا ابتدائی عمل شروع کردیا جائیگا۔

پروفیسر ندیم قمر نے کہا کہ پہلے مرحلے میں  ناکارہ دل کے مریضوں کو برج ٹو ٹرانسپلانٹ (Bridge to Transplant) یعنی دل میں ایک میکنیکل ڈیوائیس لگائی جائیگی اس دوران مریض کی انتہائی نگہداشت جاری رہے گی، دل کی پیوندکاری کے لیے پہلے مرحلے میں میکینکل ڈایوائیس لگائی جاتی ہے جس کو طبی زبان میں برج ٹو ٹراسپلانٹ کہتے ہیں، بعدازاں کچھ ماہ بعد اس کے دل کی پیونکاری کی جاتی ہے۔

قومی ادارہ برائے  امراض قلب کے سربراہ پروفیسر ندیم قمر نے بتایا کہ ہیومین آرگن ایند ٹشوٹرانسپلانٹ  ایکٹ 2010 کے تحت کوئی بھی انسان اپنے جسم کا کوئی بھی اعضا رضاکارانہ طورپر عطیہ کرسکتا ہے، دل کی پیوندکاری کے ساتھ ساتھ دوبارہ میکنیکل ہارٹ (مصنوعی دل) میکینکل ڈیوائیس لگانے کا کام بھی شروع کیا جارہا ہے،اسپتال میں میکنیکل ڈیوائیس لگانے کا کام 2018 میں شروع کیاگیا تھا، 5 مریضوں کویہ ڈیوائیس لگائی گئی تھی جس میں سے2 مریض صحت مندانہ زندگی گزاررہے ہیں۔

پروفیسر ندیم قمر کا کہنا تھا کہ فالج کے مریضوں کو اب پریشان ہونے کی ضرروت نہیں،  نئے سال 2021میں  فالج کے مریضوں کے دماغ کی بند شریان کو کھلونے کیلیے انجیوپلاسٹی کا عمل شروع کردیا جائیگا۔  انھوں نے کہا کہ اسپتال میں سالانہ 16 ہزار دل کے مریضوں کی انجیوپلاسٹی کی جاتی ہیں جن کی کامیابی کا تناسب 99 فیصد ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔