’’پرو پاکستان‘‘ بنگلہ دیش، بھارت کو قبول نہیں

شمس الحق قذافی / شہزاد امجد  جمعرات 26 دسمبر 2013
قرارداد منظور کرنا درست اقدام نہیں، حالیہ پاکستان، بنگلہ دیش تناؤ پر ایکسپریس فورم کی روداد۔  فوٹو : فائل

قرارداد منظور کرنا درست اقدام نہیں، حالیہ پاکستان، بنگلہ دیش تناؤ پر ایکسپریس فورم کی روداد۔ فوٹو : فائل

متحدہ پاکستان کاایک بازو جو مشرقی پاکستان کہلاتا تھا بیالیس سال قبل بنگلہ دیش کے نام سے الگ ملک کے طور پر معرض وجود میں آیا۔

اس سانحہ میں کس طبقے یا شخصیت کا کتنا حصہ تھا ؟ اور کس سیاسی، فوجی یا بیوروکریٹک آمریت نے اپنا مکروہ کردارادا کیا؟ اس بارے میں بہت کچھ لکھا اور کہا جا چکا ہے۔ پاکستان میں اس سانحہ کی تحقیقات کے لیے جسٹس ریٹائرڈ حمودالرحمان کی سربراہی میں کمیشن بھی قائم کیا گیا تھا جس نے تمام متعلقہ شعبوں، طبقات اور کرداروں سے رابطہ کیا ۔ان سے ملاقاتیں کیں اور ان کے بارے میں تحقیقات کیں اور حقائق کی تہہ تک پہنچنے کے بعد اپنی رپورٹ اس وقت کی حکومت کو پیش کردی ۔جس کے بعض حصے تو سامنے آئے لیکن مکمل طور پر آج تک منظرعام پر نہ آسکی۔

گزشتہ دنوں سانحہ بنگلہ دیش یا سقوط ڈھاکہ کے ایک اہم کردار شیخ مجیب الرحمان کی صاحبزادی بیگم حسینہ واجد کی قیادت میں قائم بنگلہ دیش کی حکومت نے متحدہ پاکستان کے حامی اور 1971ء کی پاک بھارت جنگ میں پاک فوج کی امداد و اعانت کرنے والے بنگلہ دیشی شہریوں کے خلاف انتقامی کارروئی کرتے ہوئے انہیں عمر قید کی سزائیں دیں اورایک سابق بزرگ پارلیمنٹرین عبدالقادر مُلا کو پھانسی پر لٹکا دیا جس کے بعد سقوط ڈھاکہ کی خونچکاں داستاں ایک بار پھر موضوع گفتگو بن گئی۔ پاکستان نے اگرچہ اس واقعہ کے خلاف حکومت بنگلہ دیش سے باضابطہ احتجاج نہیں کیا، کہ ہماری وزارت خارجہ اسے بنگلہ دیش حکومت کا داخلی معاملہ گردانتی رہی ہے تاہم ملک کے سیاسی اور عوامی حلقوں میں البتہ اس پر شدید ردعمل سامنے آیا اس ردعمل کے نتیجے میں قومی اسمبلی میں بنگلہ دیش حکومت کے ظالمانہ اور بے رحمانہ اقدامات کے خلاف قرارداد بھی منظورکرلی گئی  جس پر بنگلہ دیشن کی حکومت نے شدید رد عمل ظاہر کیا۔

ڈھاکہ میں مقیم پاکستان سفارتکار کو وزارت داخلہ میں طلب کیاگیا اور ان سے اس قرارداد کے بارے میں صرف تحفظات نہیں بلکہ شدید غصے کا اظہار بھی کیا۔ اور پھر اس کے بعد گویا دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں کشیدگی اور تلخی کاعنصر درآیا ہے اور دونوں ممالک نے اپنے اپنے طورپر ایک دوسرے کے خلاف سفارتی سطح پر ناراضگی کا برملا اظہار کیا ہے۔ پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان پیدا ہونے والی اس حالیہ کشیدگی کے حوالے سے ’’ایکسپریس فورم ‘‘ کا اہتمام کیا گیا جس میں ملک کے معروف سیاستدانوں اور ماہرین نے اظہار خیال کیا اوراس کشیدگی کے پس منظرو پیش منظر پر گفتگو کی جس کی تفصیلات نذرِقارئین ہیں۔

لیاقت بلوچ (سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی پاکستان)

عبدالقادر مُلاکی پھانسی کے بعد بہت سے پہلو نمایاں ہوگئے ورنہ تعلقات کی کمزوری تو دونوں ممالک میں پہلے بھی تھی۔ مسئلہ یہ ہے کہ آج جنہیں سزائیں دی جارہی ہیں وہ اس پرکہ انہوں نے پاکستان کو متحد رکھنے کی جدوجہد اور بھارت کے خلاف مزاحمت کی۔ بنگلہ دیش کے ٹرائل کورٹس کی دنیا بھرکی تنظیموں نے مذمت کی ہے ۔ یہ بات تاریخ کا حصہ ہے کہ پاکستان دو لخت ہوا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان کی بیٹیوں کو وہاں سے اٹھاکر کلکتہ کی منڈیوں میں فروخت کیا گیا۔یہ مارشل لاء تھا اور انتخابی نتائج تسلیم نہیں کئے گئے، یہ فوجی آمریت کی غلطیاں تھیں یا پھر ذاتی یا پارٹی مفادات کی تلخی تھی، بھارت ایک مدت سے پاکستان کے وجود پر حملہ کرنا چاہتا تھا کیونکہ 65ء کی جنگ میں بھی مشرقی پاکستان بھارت کیلئے مشکل بنا تھا۔

آسام جو بنگلہ دیش کے ساتھ ہے وہ سمجھتا ہے کہ یہ خطہ مکمل طور پر بھارت کی دستبرد میں ہونا چاہیے۔ یہ بھی تاریخ کا کھلا باب ہے کہ مکتی باہنی بھارت نے تیار کی جس کے ذریعے مشرقی پاکستان کی آبادیوں ، یونیورسٹیوں اور فوجی چھاونیوں پر حملے کئے گئے۔انکے پیچھے بھارت کی فوجی طاقت تھی۔ بنگلہ دیش بن جانے کے بعد بھارتی وزیراعظم اندراگاندھی، پاکستانی وزیراعظم ذوالفقار بھٹو اور بنگلہ دیشی وزیراعظم شیخ مجیب کے درمیان معاہدہ طے پایا جس کے تحت یہ طے پایا تھا کہ تینوں ممالک میں اس واقعہ کی بنیاد پر جنگی جرائم کا ٹریبونل نہیں بنے گا۔ اثاثہ جات کی واپسی کا مطالبہ بنگلہ دیش نہیں کریگا۔ 90 ہزار فوجیوں کو بغیر مقدمہ چلائے پاکستان کے حوالے کردیا جائیگا اور پاکستان میں موجود بہاریوں کو اپنے ہاں قبول کیا جائیگا اور یہاں موجود پاکستانیوں کو واپس لے جایا جائیگا۔

اس معاہدے کے بعد بنگلہ دیش کو قبول کرلیا گیا اور وہاں کی جماعت اسلامی نے بھی بنگلہ دیش کو تسلیم کرتے ہوئے وہاں کا آئین بنانے میں حصہ لیا۔ وہاں جنرل ارشاد کی آمریت کے خلاف عوامی لیگ ، بی این پی اور جماعت اسلامی نے مل کر جمہوریت کی بحالی کیلئے تحریک چلائی اور حکومت کا حصہ رہے لیکن اچانک اتنے عرصے بعد انکے ٹرائل کا وہاں کی حکومت کو خیال کیوں آگیا۔ میں کہتا ہوں اصل مسئلہ یہ ہے کہ ایک تو پرو اسلام اور پرو پاکستان بنگلہ دیش بھارت کو قبول نہیں ہے اور یہ بھی کہ اگر بنگلہ دیش مستحکم ہوتا ہے تو بھارت کیلئے مسائل پیدا ہونگے۔ جماعت اسلامی کی طرح بی این پی کے بھی 80,70 لوگوں کے خلاف اس بات کے ٹرائل کئے گئے ہیں کہ وہ متحدہ پاکستان کی حمایت کررہے تھے۔آج ہم یہاں خود دہشت گردی سے متاثر ہیں۔

ہماری طرح بھارت بنگلہ دیش میں بھی دہشت گردی کی کارروائیاں کرا رہا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ قومی اسمبلی کی یہ قرارداد گاندھی، بھٹو اور مجیب معاہدے کے تناظر میں بالکل ٹھیک ہے لیکن حکومت پاکستان نے اس میں بھی تاخیرکی اسے پہلے ہی سارک اور دیگر فورمز پر اس معاملے کو لے جانا چاہیے تھا۔ یہ کشیدگی پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان تھی لیکن بھارت کے اپنے مفادات ہیں اور ہم بھارت کے ساتھ اپنے کور ایشوز کو اوراصولی بنیادوں کو بھول کر تعلقات کی بات کررہے ہیں۔

بنگلہ دیش میں موجودہ حکمران جماعت بالکل غیر مقبول ہے جبکہ وہاں اپوزیشن 67 فیصد ہے جو الیکشن کا بائیکاٹ کررہی ہے۔ وہاں ہونیوالی تازہ سیاسی صورتحال کے تناظر میں پاکستان کو بنگلہ دیش سے اصولوں کی بنیاد پر تعلقات بہتر بنانے چاہئیں اور پاکستان کو وہاں جمہوریت ، معاشی استحکام اور بھارتی تسلط سے آزادی دلانے کیلئے وہاں کی اکثریت کا ساتھ دینا چاہیے۔

البدر اور الشمس جماعت اسلامی نے نہیں بنائی تھیں بلکہ یہ پاک فوج نے قائم کی تھی اور آج جنہیں پاکستان کی حمایت کے الزام میں پھانسیاں دی جارہی ہیں ان میں سے کوئی ایک بھی البدر اور الشمس کا حصہ نہیں تھا۔ جس جرم میں انہیں سزا دی جارہی ہے وہ یہ ہے کہ انہوں نے پاکستان کے آئین کے اندر رہتے ہوئے بات کی تھی۔ ذوالفقار بھٹو نے بھی اس فوجی آپریشن کے بعد کہا تھا کہ اﷲ کا شکر ہے کہ پاکستان بچ گیا۔ جماعت اسلامی پاکستان اس بات پر قائم ہے کہ بنگلہ دیش میں اسلام ، جمہوریت اور معاشی استحکام ہونا چاہیے۔

احسان وائیں (مرکزی رہنماء عوامی نیشنل پارٹی)

اس مسئلے پر اگر بات کریں کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے مابین تعلقات کشیدہ کیوں ہوگئے تو میں کہتا ہوں کہ یہ تعلقات کبھی بہتر ہوئے ہی نہیں تھے۔قیام پاکستان کے وقت ہجرت کرتے ہوئے مشرقی پنجاب کے اکثر لوگ برباد ہوئے جن میں بھارت سے نفرتیں ابھی تک نہیں جا رہیں ۔ پاکستان اور بھارت کی حکومتیں جب چاہیں اپنا مفادات کیلئے ایک دوسرے کے خلاف زہر اگلنا شروع کردیتی ہیں۔ اصل میں یہ حکومتوں کا نہیں بلکہ عوام کا مسئلہ ہوتا ہے کیونکہ لوگ اپنے ساتھ ہونیوالی زیادتیوں کو نہیں بھولتے۔ مشرقی پاکستان ہم سے علیحدہ ہوا نہیں تھا بلکہ ہم نے خود اسے علیحدہ کیا تھا۔ اس وقت وہاں جو قتل عام ہوا اور خواتین کی عزتیں برباد ہوئیں۔ پروفیسرز کا قتل ہوا تو ابھی تک ان میں ہمارے خلاف نفرتیں موجود ہیں۔

ہمارے ہاں بنگلہ دیش کے قیام کے وقت کیونکہ جمہوریت نہیں تھی اسلئے ان سے ہمارے تعلقات بھی بہتر نہیں ہوسکے اور اب بھی ہماری حکومتوں کے موجودہ سیٹ اپ میں کشیدہ ہی رہیں گے۔ بنگال میں ہندو اکثریت میں تھے جو بنگالیوں کا معاشی استحصال کرتے تھے تو انہوں نے مذہب کے نام پر پاکستان کے قیام کی تحریک میں چلنے کا فیصلہ کیا لیکن قیام پاکستان کے بعد انہیں احساس ہوا کہ انکی زبان بھی ایک نہیں اور ملک بھی ایک نہیں جبکہ معاشی استحصال کا سلسلہ اسی طرح جاری ہے تو انہوں نے علیحدگی کا سوچا۔ بنگالیوں کی سیاست ہمیشہ سیکولر رہی اور ہماری طرح انہوں نے وہاں کے عوام کا مذہب کے نام پر استحصال نہیں کیا۔ مغربی پاکستان میں جاگیرداروں، سرمایہ داروں کی اور فوج کی مداخلت بے پناہ تھی، بیوروکریسی بھی ہماری تھی، ہم مالک بنے ہوئے تھے اور انہیں غلام سمجھتے تھے۔

پاکستان مشرقی پاکستان کے لوگوں نے بنایا۔ شیخ مجیب نے قائداعظم کے پیچھے 60,60 میل سائیکل پر چل کر قیام پاکستان کی جدوجہد کی تھی۔ ہم نے بنگالیوں کو کوئی حقوق نہیں دیئے۔ میں کہتا ہوں کوئی بھی قوم جس کے حقوق چھین لئے جائیں ، جن کے بچوں کو بھوکا مارا جائے اور سکول نہ جانے دیا جائے تو آزادی کی جدوجہد کرنا انکا حق ہے۔ بنگالیوں نے چونکہ پاکستان بنایا تھا اسلیئے وہ 71ء تک مسلسل ہمارے ساتھ چلتے رہے۔ الیکشن میں آمر ایوب خان نے بھی یہ طے کردیا تھا کہ یہ بنگالی ہمیں تنگ کرتے ہیں اسلیے انہیں علیحدہ کردیا جائے کیونکہ یہ جمہوریت مانگتے ہیں۔ انکے بعد یحییٰ خان آیا کہ الیکشن میں کسی جماعت کی اکثریت نہیں بنے گی اور فوج حکومت کرتی رہیگی لیکن ہوا اسکے الٹ اور شیخ مجیب نے وہاں اکثریت حاصل کرلی جس پر ہم نے پارلیمنٹ کا اجلاس نہیں بلایا۔

بھٹو نے 71ء میں یہ نعرہ لگا کر پنجاب میں کلین سویپ کیا تھا کہ بھارت کے ساتھ ایک ہزار سال تک لڑکر تمہارا حق لے کر دونگا۔ مجھے بنگلہ دیش کو علیحدہ کرنے کا افسوس ہے کہ انہیں علیحدہ کرنے کا یہ کوئی طریقہ نہیں تھا کہ قتل عام کرتے مگر ہم نے انکی اکثریت کا انکار کیا اور پارلیمنٹ کا اجلاس نہیں بلایا۔ جماعت اسلامی نے الشمس، البدر بناکر فوج کو سپورٹ کیا، اس وقت سوائے عوامی نیشنل پارٹی کے نوابزادہ نصراﷲ سمیت سب نے وہاں فوجی آپریشن کی حمایت کی تھی۔ 6 مارچ 71ء کو میں اور حبیب جالب نے 9افراد کے ہمراہ فوجی آپریشن کے خلاف جلوس نکالا کہ اس سے ملک ٹوٹ جائیگا ، اس پر ہمیں گرفتارکرلیا گیا ۔ 25 مارچ کو فوجی آپریشن شروع ہوا جس کے نتیجے میں ملک ٹوٹ گیا۔

بنگلہ دیش کی سپریم عدالت اگر اپنے ایک شہری عبدالقادر مُلاکو سزا دیتی ہے ( میں ذاتی طور پر سزائے موت کے خلاف ہوں) تو ہماری پارلیمنٹ کیوں دوسرے ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرتی ہے۔ پارلیمنٹ میں قرارداد پاس ہونا اس بات کو جواز فراہم کرتا ہے کہ بلوچستان میں بھارت یا کسی اور ملک کی سپورٹ سے جو جدوجہدکی جارہی ہے وہ ٹھیک ہے۔ یہ قرارداد بڑی حماقت پر مبنی ہے جو پاکستان نے کی۔ 33 سال ہم نے یہاں آمریت رکھی اور کوڑے لگائے، اگر یہاں آمریت نہ ہوتی تو شائد یہ ملک نہ ٹوٹتا۔

اب ہمیں اپنے ملک کے خطرناک حالات پر غور کرتے ہوئے جمہوریت کو یہاں راسخ کرنا چاہیے اور دوسرے ملکوں میں دخل اندازی نہیں کرنی چاہیے۔بنگلہ دیش میں جمہوریت ہے اور انہوں نے آبادی پر کنٹرول کیا، معاشی حالات بہتر کئے اور غربت کم کی، بنگلہ دیش اس وقت پاکستان سے بہتر ہے۔ حمود الرحمٰن کمیشن رپورٹ کے 25 صفحات ہم نے غائب کردیئے۔ وہ ہوتے تو سب کو پتہ چلتا کہ ہم نے انکی نسل بدلنے کیلئے وہاں جوان تک چھوڑ دیئے تھے، وہاں ریپ کروائے گئے۔ ہمیں سبق سیکھنا چاہیے لیکن قرارداد پاس کرکے یہ ثابت کردیا ہے کہ ہم نے بنگلہ دیش میں جو بھی کیا تھا وہ درست تھا۔

سید محمد مہدی (مرکزی رہنما مسلم لیگ(ن)

میں نے عبدالقادر مُلاکی پھانسی سے بہت پہلے اس مسئلے کو اپنے کالموں میں بیان کیا تھا، یہ بنگلہ دیش کا نہیں بلکہ پاکستان کا اپنا مسئلہ ہے۔ بدقسمتی سے ہندوستان اور بنگلہ دیش آج بھی 47ء میں زندہ ہیں ، ہمیں فوری توجہ دینی چاہیے۔ عبدالقادر مُلاکی شہادت کو ہم بیک ڈور ڈپلومیسی کے ذریعے روک سکتے تھے، ہماری پارلیمنٹ نے قرارداد پاس کرکے بہت اچھا کام کیا ہے۔ ہمارے ہاں پتہ نہیں کیوں یہ بات بنا دی گئی ہے کہ مغربی پاکستان والوں نے مشرقی پاکستان والوں پر بڑا ظلم کیا تھا حالانکہ ہمارے دوگورنر جنرل بنگالی تھے اور خواجہ ناظم الدین کی حکومت جب غلام محمد خان نے ختم کی تو بنگالی حسین شہید سہروردی نے ویلکم کیا تھا جبکہ وہ خود بھی پاکستان کے وزیراعظم رہے۔ایسا نہیں تھا کہ ہم نے کوئی ظلم ان پر روا رکھے ہوئے تھے۔

قدرتی بات بھی ہے کہ ہندوستان میں صوبہ اتر پردیش سے بڑی سیاسی لیڈرشپ آگے آئی اسی طرح امریکہ میں بحراوقیانوس کی بیلٹ سے بڑی لیڈرشپ سامنے آئی ہے۔ قیام پاکستان کے وقت پاک فوج میں صرف ایک فیصد بنگالی تھے لیکن سقوط ڈھاکہ کے وقت 34 ہزار پروفیشنل فائٹرز تھے، 300 بنگالی افسر پاک فوج میں کام کررہے تھے۔ جسٹس(ر) حمود الرحمٰن پاکستانی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس رہے اور انکا بیٹا آج بھی پاکستان کی سپریم کورٹ میں جج ہے۔ لوگوں کو یہ بھی بتانے کی ضرورت ہے کہ یکم سے 25 مارچ 71ء کو مشرقی پاکستان میں کیا ہوا تھا۔ 1970ء کے انتخابات میں 162سیٹیں مشرقی پاکستان کی جبکہ 138 سیٹیں مغربی پاکستان کی تھیں، ہمارے یہاں کے لیڈرز کو وہاں جلسہ نہیں کرنے دیا جارہا تھا۔

شیخ مجیب الرحمٰن کے چھ نکات میں کہیں بنگلہ دیش کا ذکر نہیں تھا۔ تحریک پاکستان میں مسلم لیگ بنگال نے 96 فیصد ووٹ حاصل کئے تھے۔پاکستان میں انتخابات سے قبل کبھی بھارت کے خلاف اشتعال پیدا کرکے انتخابات میں فائدہ نہیں حاصل کیا گیا لیکن انڈیا اور بنگلہ دیش کے آنے والے انتخابات میں وہ پاکستان کے خلاف باتیں کرکے ووٹ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔پاکستان میں اسلامی ممالک کی کانفرنس میں سب ممالک آئے تھے لیکن بنگالی وزیراعظم حسینہ واجد نے انکارکردیا تھا۔ جن لوگوں کے خلاف وہاں ٹرائل چل رہے ہیں ان میں غلام اعظم بھی ہیں جن کے خلاف 22 گواہوں میں سے 21 ہندو ہیں جبکہ ایک مسلم گواہ نے کہا تھا کہ مجھے یہ زبردستی لے کر آئے ہیں اسکے بعد سے اسے غائب کردیا گیا ہے۔

بنگلہ دیش میں صوبائی نہیں بلکہ صرف ایک ہی قومی پارلیمنٹ ہے۔ عبدالقادر مُلاایک دفعہ عوامی لیگ کے ساتھ مل کر حکومت کو حصہ رہے لیکن آج اچانک اتنے سال بعد کیا خرابیاں ہوگئیں۔ پاکستان کو اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ جی ایم سیدکے مطابق اے این پی کے خان عبدالولی خان نے بھی شیخ مجیب کے چھ نکات کا ساتھ دینے سے انکار کردیا تھا۔ میں کہتا ہوں کہ پاکستان کی ہندوستان سے دوستی بالکل ہونی چاہیے لیکن یہ صرف ہندوستان کی شرائط پر نہیں ہونی چاہیے۔ بنگلہ دیش میں پاکستان کی حمایت کرنے والوں کو سزائیں دینے کا مسئلہ صرف بنگلہ دیش یا پاکستان کا نہیں بلکہ پورے برصغیرکا ہے۔ یہ جماعت اسلامی کا ایشو نہیں بلکہ پرو پاکستانی لوگوں کا ایشو ہے۔

بریگیڈیئر (ر) فاروق حمید خان (دفاعی تجزیہ نگار)

بنگلہ دیش کا بننا ایک اجتماعی ناکامی ہے۔ اس کے باوجود اگر بھارت کی طرف سے مداخلت نہ ہوتی تو شاید بنگلہ دیش نہ بنتا۔ بنگلہ دیش اور پاکستان کے تعلقات میں حالیہ کشیدگی کی وجہ عبدالقادر مُلاکی پھانسی نہیں بلکہ یہ تو فوری وجہ بنی، اصل وجہ یہ ہے کہ جب بھی بنگلہ دیش میں عوامی لیگ کی حکومت آتی ہے، پاکستان کے ساتھ ان کے تعلقات کشیدہ ہوجاتے ہیں۔ بنگلہ دیش بننے کے پانچ سال بعد ہی وہاں کی فوج اس چیز کو سمجھ گئی تھی ان کے ساتھ دھوکہ ہوا اور انہوں نے بنگلہ بدھو شیخ مجیب الرحمٰن کو اقتدار سے علیٰحدہ کرکے حکومت پر قبضہ کرلیا تھا۔ بنگلہ دیش کے جنگی جرائم کے ٹربیونل نے تمام انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہوئے عبدالقادر مُلاکو عمر قید کی سزا دی جسے ایمنسٹی انٹر نیشنل سمیت انسانی حقوق کی تمام عالمی تنظیموں نے مذمت کی اور اسے شرمناک عمل قرار دیا۔

ٹربیون کے غیر قانونی فیصلے کے خلاف حکومت سپریم کورٹ میں گئی اور سپریم کورٹ نے ٹربیونل سے بھی آگے جاکر انہیں پھانسی کی سزا سنا دی یہ ایک انتہائی غیر منصفانہ فیصلہ تھا۔ پاکستان میں ان کی پھانسی کے خلاف جو قرار داد پیش کی گئی وہ پاکستان کے عوام کی آواز ہے کیونکہ وہ لوگ جنہوں نے 1971ء میں پاکستان کو متحد رکھنے کیلئے پاکستان کا ساتھ دیا اور حق کیلئے آواز اٹھائی ان کا ساتھ دینا چاہیئے۔ عوامی لیگ کے حالیہ اقدامات کی 4 اہم وجوہات ہیں جن پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔

پہلی وجہ یہ کہ بھارت چاہتا ہے کہ 1971ء کے بعد بنگلہ دیش کی جو نئی نسل آئی ہے اس کے ذہن میں پاکستان کے خلاف اتنی نفرت پیدا کردی جائے کہ وہ کبھی پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات کا سوچ بھی نہ سکیںاور عوامی لیگ بھارت کے اس ایجنڈے کو پورا کرنے کیلئے اس طرح کے حالات پیدا کررہی ہے کہ بنگلہ دیشی نوجوانوں میں پاکستان کے بارے میں مثبت سوچ ہی پیدا نہ ہو۔ ٹرائیل کی دوسری وجہ یہ ہے کہ اس ٹرائیل کے ذریعے اپنے عوام کو باور کرایا جائے کہ پاکستان ان کے خلاف ہے اور پاکستان کے خلاف پراپیگنڈہ کیلئے استعمال کیا جائے۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ بنگلہ دیش میں 5 جنوری کو انتخابات ہورہے ہیںاور وہ بھی بھارت کا طریقہ استعمال کررہے ہیں، بھارت میں جب بھی انتخابات ہوتے ہیں پاکستان کے خلاف جذبات کو ابھارا جاتا ہے اور اسی بنیاد پر الیکشن جیتا جاتا ہے۔

عوامی لیگ بھی پاکستان کے خلاف جذبات ابھار کر انتخابات میں کامیابی چاہتی ہے۔ چوتھی اور سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ عوامی لیگ بنگلہ دیش کے اسلامی کردار کو ختم کرنا چاہتی ہے۔ مذہبی جماعت کو بین کرکے حسینہ واجد چاہتی ہے کہ بنگلہ دیش کو بھارت کی طرح سیکولر ملک بنایا جائے۔ ان سب وجوہات کے نتیجہ یہ ہے کہ بنگلہ دیش غیر مستحکم ہوگیا ہے۔

وہاں کے معاشی، سماجی اور امن و امان کی صورتحال بھی خراب ہورہی ہے۔ 5 جنوری کو ہونے والے انتخابات ان حالات کی وجہ سیانعقاد سے پہلے ہی مشکوک ہوگئے ہیں۔ امریکی اور یورپی یونین کے مبصرین نے انتخابات کی مانیٹرنگ کیلئے آنے سے انکار کردیا ہے۔ بنگلہ دیشی حکام کے ان سے مذاکرات بھی ہوئے ہیں مگر انہوں نے پھر بھی انکار کیا ہے۔ اگر امریکی و یورپی مبصرین نہ آئے تو انتخابات منصفانہ نہیں ہو پائیں گے اور بہت خون خرابہ ہوگا۔ بنگلہ دیشی فوج بھی ابھی تک برداشت کررہی ہے مگر جب ریاست کو خطرہ ہوا تو فوج وہاں 5 سال پہلے والا ماڈل لاسکتی ہے۔

اس وقت بنگلہ دیش میں پاکستان کے خلاف پراپیگنڈے کی وجہ سے پاکستان کے جھنڈے جلائے گئے اور لیڈروں کے پتلے جلائے گئے اور پاکستان سے گئے سرمایہ دار بھی غیر محفوظ ہوگئے ہیں۔ 10 لاکھ سے زائد بہاری جو کہ پاکستانی ہیں وہ بھی وہاں غیر محفوظ ہوسکتے ہیں اور بہت سے بنگالی بھی اس وقت پاکستان میں ہیں ان کی حفاظت کی ذمہ داری پاکستان کی ہے تاہم اگر بنگلہ دیش میں پاکستانی غیر محفوظ ہوئے تو عوامی ردعمل میں بنگالی بھی یہاں محفوظ نہیں رہیں گے۔

پاکستانی بہاری جو 40 سال سے بنگلہ دیش میں کیمپوں میں رہ رہے ہیں اور آج بھی پاکستان آنا چاہتے ہیں ان کو پاکستان لاکر آباد کیا جائے۔ 24 مارچ 2013ء کو فرینڈز آف بنگلہ دیش کے نام سے کچھ لوگوں نے حسینہ واجد سے ایوارڈ لئے اوران لوگوں نے وہاں کہا کہ پاکستان کو 1971ء کے واقعات پر معافی مانگنی چاہیئے اور اپنی طرف سے معافی مانگی۔ جن لوگوں نے فرینڈز بنگلہ دیش کا ایوارڈ لیا ہے پاکستان میں انہیں اینیمی آف پاکستان کا ایوارڈ دینا چاہیئے۔ اس وقت حالات جیسے بھی ہوں اور بنگلہ دیش کا مستقبل اسلام کے ساتھ ہے حسینہ واجد اگر چاہتی ہے کہ بھارت کی خواہش پر وہ ملک کو سیکولر بنادے گی تو یہ اس کی بھول ہے۔ ہمارے دل پہلے بھی بنگلہ دیشی عوام کے ساتھ دھڑکتے تھے اور آج بھی ان کے ساتھ ہیں ہمیں وہاں کے عوام کی ہر طرح کی سپورٹ کرنی چاہیئے۔

الطاف احمد قریشی (سینئر رہنما پیپلزپارٹی)

اتنے سال گزرنے کے بعد لوگوں کی پکڑ دھکڑ شروع کی گئی حالانکہ وہی لوگ جن کو پکڑا جارہا ہے ان کو اس سے پہلے عہدے، وزارتیں دی گئیںبلکہ وزیراعظم بھی بنایا گیا۔موجودہ صورتحال میں عمومی طور پر دیکھا جائے تو عبدالقادر مُلا کو جو سزا ہوئی وہ بنگلہ دیش میں آئندہ ہونے والے انتخابات کی تیاریاں ہورہی ہیں مگر حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ جو جرائم ہوئے وہ ناقابل معافی ہیں۔ جب عبدالقادر مُلا کو پھانسی دی گئی تو پاکستان کو احتجاج نہیں کرنا چاہیئے تھا اور نہ اس عمل پر اظہار رائے کرنا چاہئے تھا کیونکہ قومی اسمبلی میں جب قرار داد پاس ہوئی تو اس سے حالات میں مزید کشیدگی آئی اس کو روکنا چاہیے۔ جب پاکستان میں انسانی قتل ہوتا ہے تو ہم کہتے ہیں کہ وہ غلط ہے تو جو لوگ وہاں پر اپنے حقوق کیلئے لڑ رہے تھے ان کا قتل ٹھیک ہے یہ درست نہیں ہے۔

1948ء کے بعد بنگالیوں نے اپنے حقوق کیلئے آواز اٹھانا شروع کردی تھی کیونکہ جب کسی علاقے کے لوگوں کے ساتھ زیادتی ہوگی اور وہاں کے وسائل کو دوسرے لوگ اپنے لئے استعمال کرنا شروع کردیں گے تو وہاں مزاحمت پیدا ہوگی۔

حقیقت میں اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ نظام جس میں ہم جکڑے ہوئے ہیں اس نظام میں اصول یہ ہے کہ اپنے مفادات کے حصول کیلئے جو بھی ہوسکے وہ کریں۔ ہم چاہتے تھے کہ بنگالیوں کے دلوں کی بجائے وہاں کی زمین پر قبضہ کیا جائے۔ اس نظام میں آج بھی انسانی اقدار بے معنی ہوچکی ہیں اور زمین کا ٹکڑا زیادہ اہم ہوگیا ہے۔

ان حالات میں اچھی قیادت وہ ہوتی ہے جو انہی خراب حالات سے راستہ نکالے اور حالات کو مثبت سمت میں لے کر جائے۔ اس وقت بنگلہ دیش میں جو ہورہا ہے وہ بھی ٹھیک نہیں ہے، یہ حالات بھی اسی نظام کی وجہ سے ہیں، یہ حالات ٹھیک اس وقت تک نہیں ہوں گے جب تک نظام نہ بدلا جائے۔ آج عبدالقادر مُلا کو پھانسی دی گئی ہے کل دوسرے لوگ حکومت میں آجائیں گے تو وہ ان لوگوں کو پھانسیاں دینا شروع کردیں گے جنہوں نے بنگلہ دیش بنانے کی کوششیں کی تھیں اور یہ سلسلہ چلتا رہے گا یہ مسائل اس طرح حل نہیں ہوں گے بلکہ حالات مزید خراب ہوں گے ان کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔