چین و کرغزستان کی توانائی منصوبوں میں شرکت

ایڈیٹوریل  بدھ 25 دسمبر 2013
یہ بجلی بذریعہ افغانستان پاکستان لائی جائے گی۔   فوٹو:رائٹرز/ فائل

یہ بجلی بذریعہ افغانستان پاکستان لائی جائے گی۔ فوٹو:رائٹرز/ فائل

دہشت گردی کے بعد ملک کا دوسرا بڑا مسئلہ توانائی کا بحران ہے، جس کے باعث ملکی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے، وطن عزیز میں کاروبار زندگی ٹھپ پڑا ہے، عوام لوڈشیڈنگ کا عذاب سہہ رہے ہیں اور صنعتوں کا پہیہ جام ہے۔ لاکھوں مزدور بے روزگار ہیں، گھروں کے چولہے ٹھنڈے پڑے ہیں، ایسا محسوس ہوتا ہے ہم معاشی میدان میں آگے جانے کے بجائے پیچھے کی جانب جا رہے ہیں۔ یہ ایک ایسی صورتحال ہے جس پر ہر فرد گہری تشویش میں مبتلا ہے۔ تاہم نو منتخب جمہوری حکومت ملک سے لوڈشیڈنگ کے خاتمے کے لیے اپنی سی بھرپورکوششیں کر رہی ہے۔ اس ضمن میں دو طمانیت سے بھرپور خبریں گزشتہ روز اخبارات کی زینت بنی ہیں۔ پہلی تو یہ ہے کہ چین نے کراچی میں 1100میگاواٹ کے دو ایٹمی بجلی گھر لگانے کے منصوبے کے لیے کم از کم ساڑھے چھ ارب ڈالر قرضے کی منظوری دیدی ہے۔ جب کہ دوسری کرغزستان اور تاجکستان سے 1300 میگاواٹ بجلی درآمدکرنے کے منصوبے کے آغاز کے بارے میں ہے۔

یہ بجلی بذریعہ افغانستان پاکستان لائی جائے گی۔ چین نے ہرکڑے وقت میں ہماری مدد کی ہے اور اب بھی وہ توانائی کا بحران حل کرنے میں بھرپور مالی وعملی تعاون کر رہا ہے۔ اسی تناظر میں چین کی پرخلوص کاوشیں جاری ہیں۔ چین کراچی میں ایٹمی بجلی گھر کے لیے پاکستان میں 6.5 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا۔ مجموعی طور پر دو ری ایکٹرز کا یہ منصوبہ 2019ء میں مکمل ہو گا۔ چین نے اس قرضے پر اڑھائی لاکھ ڈالر انشورنس پریمیم کی بھی چھوٹ دینے کا مستحسن فیصلہ بھی کیا ہے۔ بلاشبہ دونوں منصوبوں کی تکمیل سے پاکستان میں توانائی کا بحران حل کرنے میں بھرپور مدد ملے گی اور ہم آنے والے وقت میں ترقی پذیر سے ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل ہو سکیں گے۔ لیکن اس تناظر میں ایک اہم پہلوکی جانب توجہ مبذول کرانا ضروری ہے کہ ہمیں بجلی کی فوری ضرورت ہے جو سسٹم میں شامل ہو سکے۔ یہ دونوں منصوبے تو پانچ سال کی مدت میں تکمیل کو پہنچیں گے لہٰذا حکومت کو فوری طور پر شارٹ فال کی کمی کو حسن تدبیر سے حل کرنا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔