انجام کیاہوگا؟

مقتدا منصور  بدھ 25 دسمبر 2013
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

عقل وخرد اور دانش وتدبربعض خطوں کے قریب سے گذرجاتے ہیں اورمحض کھوکھلے جذباتی نعرے بازی ان کا مقدر ٹھہرتی ہے۔جن پر ان خطوں کے باسی اپنی زندگیاں بتا دیتے ہیں۔ایسے معاشروں میںعزت، غیرت اور وقار جیسی اصطلاحات کا ویسے تو بکثرت استعمال ہوتا ہے، مگر عملی زندگی میں ان اصطلاحات کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔جہاں حق پرستی اور حق گوئی کا سورج غروب ہوجاتا ہے،وہاں جھوٹ، مکر، فریب اور بددیانتی کی تاریک سیاہ رات اپنے ڈیرے ڈال دیتی ہے۔یہ خصلتیں قلب وذہن میں اس طرح پیوست ہوجاتی ہیں کہ اجتماعی شناخت کی شکل اختیار کرلیتی ہیں۔

ماہرین جینیات کہتے ہیں کہ انسان کے موروثی خواص جینیات(Genes) کے ذریعے نسل در نسل منتقل ہوتے ہیں اورصدیوں اپنا اثر دکھاتے ہیں۔ ازبکوں کے بارے میں شیخ سعدیؒ نے کہا تھا کہ ان کا رحم عام ایرانی کی سفاکی سے زیادہ سنگدلانہ ہوتا ہے۔ ہمارا یہ خطہ آریاؤں کی آمد کے بعد سے مسلسل حملہ آوروں کے پیروں کی دھول بنا رہا ہے۔اس لیے خوشامد اور چاپلوسی کی اجتماعی فطرت کا حصہ بن گئی ہے اورحکمرانی کے لیے جس عزم وحوصلہ، بصیرت و دوربینی کی ضرورت ہوتی ہے،وہ مفقود ہوچکی ہے۔حنیف رامے مرحوم نے اپنی کتاب ’’پنجاب کا مقدمہ‘‘ میں لکھا کہ راجہ رنجیت سنگھ کی موت کے بعد اس دھرتی کی ماؤں نے نر بچہ جننا چھوڑدیا۔66برس سے اس دھرتی پہ آباد بے سمت مسافر اس نر بچے کی تلاش میں سرگرداں ہیں جو انھیں منزل کی راہ سجھا سکے۔ مگر وہ نر بچہ ہے کہ پیدا ہونے کا نام نہیں لے رہا۔

ایک ایسا خطہ جو قدرت کی عنایتوں سے مالا مال ہو۔جہاں برف پوش پہاڑ ہوں،پہاڑوں سے نکلتے جھرنے ہوں۔سرسبز وشاداب میدانی علاقے ہوں، جن کے سینہ پہ ناگن کی طرح لہراتے،مچلتے دریا ہوں۔ تھر اور چولستان کے خوبصورت ریگزارہوں،جہاں مور مستیوں میں رقصاں ہوں۔جہاں کا عام آدمی محنتی، جفاکش اور خلوص ورضا کا پیکر ہو۔جہاں اتنی اجناس پیدا ہوتی ہوکہ اگر منصفانہ تقسیم کی جائے تو کوئی نفس بھوکا نہ سوئے۔جہاں موسموں کی رنگارنگی اور ہرموسم میں پھولوں، پھلوں اور سبزیوں کی بہارہو۔اگر ایسا کوئی ملک روبہ زوال ہو۔انتشاروبدامنی کا شکار ہو۔غربت و افلاس کا راج ہو۔بیروزگاری اور مہنگائی سرکھولے رقصاں ہوں اورعوام مختلف نوعیت کی ان گنت پریشانیوں میں مبتلاہوں تو یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ بگاڑ کی اصل وجہ نظم حکمرانی میں موجود خرابیاں اور خامیاں ہیں۔کیونکہ خرابیِ بسیار کی ذمے داری ننگے بھوکے،افلاس زدہ عوام پر عائد نہیں ہوتی۔ اگر غیر جانبداری کے ساتھ دیکھا جائے تو اس ملک کو اصل نقصان حکمران اشرافیہ اور پیٹ بھرے متمول طبقہ نے پہنچایا ہے۔بقول شاعر

جس دور میں لٹ جائے غریبوں کی کمائی
اس دور کے حاکم سے کوئی بھول ہوئی ہے

یہاں تو66برس سے حاکموں کی بھول کو بھگتے بھگتے عوام بے دم ہوچکے ہیں۔ان کے جسم میں دوڑنے والا خون خشک ہوچکا ہے،چمڑی ہڈیوں سے چپک گئی ہے۔مگرنہ کوئی آنکھ ان کا یہ حال دیکھنے کی بصیرت رکھتی ہے نہ کسی کے کانوں پہ جوں رینگ رہی ہے۔حکمر ان اشرافیہ کے جینز Genesمیں دراصل وہ،جرأت و ہمت اور عزم وبصیرت کے خلیات ہی نہیں ہیں،جو اچھی حکمرانی کے لیے درکار ہوتے ہیں۔ بقول حنیف رامے جب ان میں نر بچہ بننے کی پیدائشی صلاحیت ہی کا فقدان ہے،تو ان سے نر بچوںجیسی خصوصیات کی توقع کیسی؟ کسی نے کیا خوب کہا تھا کہ جہاں درخت نہیں ہوتے،وہاں جھاڑیاں درخت کہلاتی ہیں۔ہماری قسمت میں کانٹوں سے بھری یہ جھاڑیاں ہی لکھی ہیں،جو سوائے دامن تار تار کرنے کے کسی اور مصرف کی نہیں ہیں۔انھوں نے نفرتوں کے بیج بونے،قومی خزانے کو لوٹنے اور ورثے میں ملے اداروں کو تباہ کرنے کے علاوہ اور کیا ہی کیاہے،جس پر فخر کیا جاسکے؟

وطن عزیز کی 66برس کی تاریخ پر نظر دوڑائیں،تو جب تک انگریز کی تربیت یافتہ بیوروکریسی موجود تھی،اس نے اس ملک کودودہائیوں تک سنبھالے رکھا۔ لیکن جس دن سے مقامی تربیت یافتہ بیوروکریسی نے ذمے داریاں سنبھالی ہیں، ہر محکمہ اور ہر شعبہ تیزی سے روبہ زوال ہے۔جب تک بنگال کی مڈل کلاس سیاسی قیادت ہر جماعت میں موجود تھی، مغربی پاکستان کی سیاسی قیادت پھربھی کسی حد تک خود فضیلت کا ملمع چڑھائے رکھتی تھی۔ مگر جیسے ہی بنگلہ دیش بنا اور بنگالی یہاں سے گئے، وہ اپنی اصلیت میں آکر آپے سے باہر ہوگئی۔

بزرگوں کا قول ہے کہ جس طرح املی کا پودا درخت بن کر پھل دینے میں تیس برس لگاتا ہے،اسی طرح سیاست میں کیے گئے فیصلوں کے نتائج بھی تیس برس بعد ظاہر ہونا شروع ہوتے ہیں۔چنانچہ 1971ء اور اس کے بعد جتنے بھی پودے سیاسی میدان میں لگائے وہ اب تناور درخت بن کر اپنا پھل دے رہے ہیں۔ اب جو بو کر گندم کی تمنا،زہر کی آبیاری کرکے تریاق کی آرزو کرنا حماقت نہیں تو اورکیا ہے۔42برس قبل جغرافیہ تو سمٹا ہی تھا، معیشت بھی دم توڑتی چلی گئی اور آج بدترین صورتحال سے دوچار ہوچکی ہے۔جب کہ وہ بنگالی جنہیں پاکستان کی معیشت پر بوجھ سمجھا جاتا تھا،آج ہم سے بہتر معیشت کے مالک ہیں۔

وہ کون سا عیب ہے، جو اس معاشرے میں دانستہ پروان نہیں چڑھایا گیا۔مذہب کو سیاست میں کھینچ کرمتشدد فرقہ واریت کی راہ ہموار کی گئی۔ پھر لسانی اور قومیتی عصبیتوں کواس طرح فروغ دیاگیاکہ ہر فرد دوسرے کے خون کا پیاسا ہوا۔ 1953ء سے یہ کھیل جاری ہے اور نہ جانے کب تک جاری رہے،کیونکہ تاریخ سے سبق سیکھنے کی ہمارے یہاں کوئی روایت نہیں ہے۔آج وہ شہری جنہیں 66برسوں کے دوران ایک قوم بن جانا چاہیے تھا، مختلف نوعیت کی شناختوں میں تقسیم ہیں۔کہیں عقیدے کے نام پر، کہیں لسانی ونسلی بنیاد پر ۔ تشویشناک پہلو یہ ہے کہ اس قسم کی عصبیتیں پہلے صرف سرکاری محکموںمیں دیکھنے کو ملتی تھیں،مگر اب یہ زہر معاشرے کی رگ وپے میں سرائیت کرچکا ہے۔

35برس پہلے معروف گلوکار احمد رشدی مرحوم فلمی صنعت سے بددل ہوکر کراچی منتقل ہوئے اور عید گاہ مارکیٹ میں پلاسٹک شیٹوں کی دکان کھولی، تویہ استفسارکرنے پر کہ وہ کیا وجوہات ہیں کہ اتنا بڑا اور نامور گلوکار اپنے اہل خانہ کا پیٹ پالنے کے لیے دکان کھولنے پر مجبور ہوا ہے؟ انھوں نے جواباً فلمی صنعت کی بے حسی کے علاوہ لسانی بنیادوں پر ہونے والے امتیازی سلوک کی جو داستانیں سنائیں انھیں خوفِ فسادِ خلق سے ضبطِ تحریرمیں نہیں لایا جاسکتا۔ دوسر ا بڑا گلوکار مجیب عالم مرحوم اپنی زندگی کے آخری دس برس ہمارا پڑوسی رہا۔اس نے بھی جو واقعات بیان کیے وہ رشدی مرحوم کے بیان کردہ واقعات سے مماثل تھے۔اسی طرح جو کچھ معروف موسیقار نثار بزمی مرحوم کے ساتھ 1970ء کے عشرے میںبعض عناصر نے کیا، وہ بھی تاریخ کا حصہ ہے۔ آج فلمی صنعت کی تباہی پر سبھی ماتم کناں ہیں، مگرذرا ان اسباب پر بھی نظر ڈال لی جائے جو اس کی تباہی کا سبب بنے۔تشویشناک پہلو یہ ہے کہ اب وہی انداز صحافت کے شعبہ میں بھی اپنا رنگ جمارہے ہیں۔جب صحافت جیسا شعبہ اس قسم کی تنگ نظریوں کا شکارہوجائے،تو پھر کہنے کو کچھ نہیں رہ جاتا۔

جن حلقوں کے ذہنوں میں یہ خواہش اگر موجود ہے کہ وہ چھوٹے صوبوں کو نوآبادی بناکر ایک نئی استعماریت کو جنم دیدیں گے تو یہ ان کی بھول ہے۔ کیونکہ زمانہ اب بہت تبدیل ہوچکاہے۔ اب قوم تو دور کی بات کسی کمیونٹی کو دبا کرنہیں رکھا جاسکتا۔ اس لیے دانشمندی کا تقاضہ یہی ہے کہ اہل حل وعقد یہ سمجھیں کہ اس ملک کا مستقبل داؤ پر لگاہواہے اور یہ اسی صورت میں بچ سکتا ہے جب میرٹ پرمنصفانہ فیصلے کیے جائیں اور کسی کو اس کے جائز حق سے محروم نہ کیا جائے۔ اس ملک کو ماموں بھانجے کی دکان سمجھنے کے بجائے یہ بات ذہن نشین کرنا ہوگی کہ شفافیت اور میرٹ کا راستہ اختیار کیے بغیر کارِ ریاست اب ممکن نہیں ہے۔

لیکن سب سے اہم فیصلے ذرایع ابلاغ سے تعلق رکھنے والے فیصلہ سازوں کو کرنا ہوں گے۔ انھیں اپنی رعونت اور تکبر کے خول سے باہر نکل کر حقائق کو سمجھنے کی کوشش کرنا ہوگی۔ دوسروں کا احتساب کرنے والے ذرایع ابلاغ کو اب ’’دیگرے را نصیحت اور خود را فضیحت ‘‘ والی سراب سے باہر نکل کر سب سے پہلے اپنا احتساب کرناہوگا اوراز خود یہ جائزہ لینا ہوگا کہ کہیں خود اس میں تواقربا پروری، علاقہ پرستی اور صوبائیت کے جراثیم تقویت نہیں پا رہے؟اگر خود ذرایع ابلاغ میں میرٹ سے روگردانی ہورہی ہے تو پھر اسے کوئی حق نہیں کہ وہ دوسرے کی پگڑی اچھالتا پھرے۔ذرایع ابلاغ میں بیٹھے فیصلہ سازوںکو یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ چھوٹے صوبوں میں اس کے بارے میں ایک ایسالاوا پک رہاہے،جو کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔