نامرد کرنا جنسی زیادتی کے ملزمان کی رضامندی سے مشروط

ثاقب ورک  جمعرات 26 نومبر 2020
نئے قانون میں 10 سے 25 برس قید کے علاوہ تاعمر قید اور موت کی سزائیں شامل ہیں

نئے قانون میں 10 سے 25 برس قید کے علاوہ تاعمر قید اور موت کی سزائیں شامل ہیں

 اسلام آباد: وفاقی حکومت نے اینٹی ریپ آرڈیننس 2020 کے مسودہ کو حتمی شکل دے دی۔

وفاقی کابینہ کی اصولی منظوری کے بعد وزیر قانون فروغ نسیم کی سربراہی میں کابینہ کمیٹی نے اینٹی ریپ آرڈیننس 2020 کے مسودہ حتمی منظوری دے دی۔ اس قانون میں 10 سے 25 برس قید کے علاوہ تاعمر قید اور موت کی سزائیں ہوں گی۔ کیمیکل کیسٹریشن کچھ کیسز میں مخصوص مدت کیلئے یا زندگی بھر کیلئے ہو سکے گی۔

وزارت قانون و انصاف نے انسداد جنسی زیادتی قانون کے خدوخال جاری کردیے جس کے مطابق جنسی زیادتی کے ملزمان کو نامرد کرنا ملزم کی رضامندی سے مشروط کر دیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم نے زیادتی کے مجرموں کو نامرد کرنے کے قانون کی منظوری دیدی

وفاقی وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم کی زیر صدارت کابینہ کمیٹی برائے قانون سازی کا اجلاس ہوا جس میں اینٹی ریپ آرڈیننس 2020 اور فوجداری قوانین ترمیمی آرڈیننس 2020 کی منظوری دے دی گئی۔ دونوں آرڈیننسز کو حتمی منظوری کے لیے جلد صدر مملکت عارف علوی کے پاس بھجوایا جائے گا۔ صدر مملکت کے دستخط کے بعد دونوں قوانین نافذالعمل ہوجائیں گے۔

وزارت قانون نے بتایا کہ ملزمان کو ان کی رضامندی سے کیمیائی طریقہ سے نامرد کیا جائے گا، انہیں نامرد کرنا انکی بہتری کی جانب ایک قدم ہوگا، زیادتی کے ملزمان کا ٹرائل خصوصی عدالتوں میں ہوگا، اور مقدمات کا فوری اندراج کمشنرز اور ڈپٹی کمشنرز کی ذمہ داری ہوگی۔

اعلامیہ کے مطابق زیادتی کے شکار افراد کے طبی معائنے کا طریقہ کار بھی تبدیل ہوگا اور متاثرہ افراد سے جرح صرف جج اور ملزم کا وکیل کر سکے گا، مقدمات کا ٹرائل ان کیمرا ہوگا، نادرا ذیادتی کرنے والے تمام ملزمان کا ڈیٹا مرتب کرے گا۔

یہ بھی پڑھیں: زیادتی کے مجرموں کی جنسی صلاحیت ختم کرنے کیلیے قانون لانے کا فیصلہ

وزارت قانون نے ضابطہ فوجداری میں لفظ زیادتی کی تعریف میں بھی ترمیم کا فیصلہ کرتے ہوئے بتایا کہ زیادتی کی تعریف میں اب ہر عمر کی خواتین اور 18 سال سے کم عمر مرد شامل ہونگے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔