ہاتھی ہوتے ہیں ہم جیسے

مرزا ظفر بیگ  اتوار 29 نومبر 2020
قوی الجثہ جانور کے بارے میں نئے مطالعے کے دل چسپ انکشافات

قوی الجثہ جانور کے بارے میں نئے مطالعے کے دل چسپ انکشافات

ایک نئی اور تازہ تحقیق سے یہ انکشاف ہوا ہے کہ ہاتھی کے بارے میں ایک عام تاثر یہ ہے کہ  وہ اپنے سامنے کھڑے ہوئے انسان کی آواز اور اس کے اشاروں اور اس کی حرکتوں سے سمجھ جاتا ہے کہ اس کے سامنے اس کا دوست کھڑا ہے یا دشمن۔

ہاتھی میں قدرت نے قدرتی طور پر وہ خصوصیت پیدا کی ہے کہ وہ انسان کی آواز کو سنتے ہی نہ صرف اس انسان کے اندر پائی جانے والی  تمام اچھی خوبیوں اور خواص کو سمجھ لیتا ہے، بلکہ بڑی عمدگی اور مہارت کے ساتھ ان انسانوں کی جنس اور عمر میں بھی فرق کرلیتا ہے۔

ہاتھیوں کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ بہت پہلے ہی سے پیش آنے والے خطرات کی بو کو بھی سونگھ لیتے ہیں اور موقع ملتے ہی اس خطرے کی جگہ سے راہ فرار بھی اختیار کرلیتے ہیں۔ ایک اور اہم بات یہ بھی کہی جاتی ہے کہ ہاتھی کسی بھی طرح فیشن ایبل خواتین سے کم نہیں ہوتے، ان کے سامنے آئینہ رکھ دیا جائے تو یہ اس کے سامنے کھڑے ہوکر اپنے ’’حسن و جمال‘‘ کا جائزہ بھی لیتے ہیں اور آئینے میں خود کو دیکھ کر اپنے آپ کو پہچان بھی لیتے ہیں۔

ایک نئی سائنسی تحقیق سے یہ بھی پتا چلا ہے کہ ہاتھیوں میں انسانوں کی پہچان بھی ہوتی ہے، یہ اپنے سامنے کھڑے انسان کو دیکھ کر یا اس کی آواز سن کر اور اس کے اشاروں و کنایوں کو سمجھ کر عام طور سے انھیں یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ سامنے کھڑا ہوا شخص اس کے لیے دوست ثابت ہوسکتا ہے یا اس کی وجہ سے ان کے لیے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں اور کیا  وہ ان کا دشمن بن کر سامنے آسکتا ہے؟ چناں چہ اس اہم موقع پر وہ اس انسان سے بچنے کی حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے اس جگہ سے بھاگنے کی تیاری شروع کردیتے ہیں اور کسی سے بھی لڑے یا مقابلہ کیے بغیر اس جگہ سے نکل جانے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں۔

Proceedings of the National Academy of Sciences میں شائع ہونے والی ایک تازہ ترین اسٹیڈی کے محققین نے یہ جائزہ بھی لیا ہے کہ انسانی آواز کس حد تک نہ صرف افریقی ہاتھیوں کو انہیں سامنے موجود انسان کے جذبات و خیالات کو سمجھنے میں مدد فراہم کرتی ہے، بلکہ کیا آیا وہ انھیں دوست اور دشمن کی تمیز بھی سکھاتی ہے یا نہیں۔ اور کیا انسان کی آواز سن کر یہ ہاتھی اس کی جنس اور عمر کا اندازہ بھی لگاسکتے ہیں یا نہیں۔ برطانیہ اور کینیا کے محققین کی ایک ٹیم نے Amboseli National Park میں رہنے والے ہاتھیوں کے 47 مختلف فیملی گروپس کا ایک تحقیقی مطالعہ کیا تو انہیں یہ پتا چلا کہ انسان شیروں کے مقابلے میں ہاتھیوں کے لیے زیادہ خطرات کا سبب تھے، مگر وہ سبھی ہاتھی مختلف علاقوں میں رہتے تھے۔

پھر یہ بھی دیکھا گیا کہ ان کے خطرات کی نوعیت الگ الگ اور مختلف اقسام کی تھی۔ یہ انسان ہاتھیوں کے مختلف گروپس کے لیے الگ الگ لیولز کے خطرات کا سبب بن گئے تھے۔ اس حوالے سے اپنی تحقیق پر بات کرتے ہوئے اس تحقیقی مطالعے کے مصنفین نے لکھا ہے:

’’ماسائی قبیلے کے گلہ بان، گڈریے اور چرواہے کبھی کبھار صرف اس وقت ہاتھیوں کے ساتھ رابطے میں آتے تھے جب وہ اپنے جانوروں کو چراگاہوں میں چراتے ہوئے پانی کی تلاش میں دریا کے کنارے پہنچ جاتے تھے۔ ایسے میں بعض اوقات تو ہاتھی بچ نکلنے میں کام یاب ہوجاتے تھے، لیکن کبھی کبھار ماسائی قبیلے کے افراد کے پیچھے ہٹنے کے عمل کے دوران اس قبیلے کے لوگ مارے بھی جاتے تھے۔‘‘

اس کے برعکس Kamba قبیلے کے افراد جو زیادہ پر امن اور زرعی کلچر کے حامل ہوتے ہیں، یہ افراد نیشنل پارک کے اندر ہاتھیوں کے لیے کسی بھی قسم کے خطرے کا باعث نہیں بنتے تھے اور جب کبھی ان کے درمیان کسی تیار فصل پر دھاوے کے حوالے سے کوئی جھگڑا یا تنازعہ کھڑا ہوتا تھا، وہ بھی نیشنل پارک سے باہر تو اس جھگڑے میں زیادہ تر ہاتھیوں کی جگہ ہتھنیاں شامل ہوتی تھیں اور وہی اس میں حصہ بھی لیتی تھیں۔

ماضی میں کی جانے والی ایک مستند ریسرچ سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ اس سارے جھگڑے اور تنازعے کے دوران ہاتھیوں نے ماسائی قبیلے کے لوگوں کا ان کے لباس کی وجہ سے کافی احترام کیا یا وہ ان کے لباس کی وجہ سے ڈر بھی گئے تھے، کیوں کہ ماسائی قبیلے کے لوگ لال یا سرخ رنگ کا لباس پہنتے ہیں اور اس رنگ سے ہاتھی کافی ڈرتے تھے، اسی لیے وہ سرخ رنگ کے لباس کو دیکھتے ہی پیچھے ہٹ جاتے تھے۔

اس ساری ریسرچ سے ماہرین نے یہ نتیجہ بھی نکالا کہ ہاتھیوں نے ماسائی اور Kamba قبیلوں کے عورت و مرد اور نوجوان لڑکوں کے درمیان ان کی آواز کی ریکارڈنگ سننے کے بعد ان میں واضح فرق یا امتیاز بھی کرلیا تھا۔ مثال کے طور پر جب ہاتھیوں نے ماسائی بالغ مردوں کی پلے بیک آواز سنی تو وہ زیادہ دفاعی انداز میں آگئے تھے اور جب انہوں نے Kamba قبیلے کی آوازیں سنیں تو وہ بڑے محتاط انداز میں آگے بڑھتے رہے اور انہوں نے سونگھ سونگھ کر قدم آگے بڑھائے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے بالغ نر افراد پر بھرپور حملے کیے، جب کہ انہوں نے بالغ ماداؤں اور بچوں پر اپنا ہاتھ ہلکا رکھا اور زیادہ تر انھیں ڈراتے ہوئے پیچھے کی طرف بڑے احترام اور پیار کے ساتھ دھکیلتے رہے۔

ادھر ان سبھی ہاتھیوں نے بولنے والے یا بولنے والی کی جنس کا اندازہ بھی لگالیا تھا کہ وہ نر ہے یا مادہ ہے، جب کہ بولنے والے یا والی کی اصل آواز ان تک ریکارڈنگ کے بعد آلٹر ہوکر پہنچی تھی اور وہ خاصی تبدیل بھی ہوچکی تھی۔ اس کے باوجود ان ہاتھیوں نے بولنے والے یا والی کی جنس معلوم کرلی تھی۔

اسی ریسرچ یا تحقیق کے نتیجے میں ایک اور انکشاف بھی سامنے آیا، وہ یہ کہ ایک بڑی عمر کی شاہ مادر یا لیڈر ہتھنیاں اس کام میں بھی بڑی مہارت رکھتی ہیں کہ وہ خطرات کی مختلف سطحوں میں فرق یا تمیز کرلیتی ہیں اور ماسائی قبیلے کے نوجوان لڑکوں کی آوازوں کو بڑی خوبی اور مہارت کے ساتھ سمجھ لیتی ہیں۔ اس اسٹیڈی میں شامل تمام محققین نے دوران مطالعہ یہ بھی نوٹ کیا کہ پچھلی تمام اسٹیڈیز میں شامل شیروں کی پلے بیک گرج کا جب بعد والی ری سرچ سے موازنہ کیا گیا تو ان میں بڑی واضح دفاعی حکمت عملی سامنے آئی۔ مصنفین نے یہ بھی نوٹ کیا کہ جب ان ہاتھیوں کا انسان سے سامنا ہوا تو وہ ان پر حملہ کرنے کے بجائے دفاعی انداز اختیار کرتے ہوئے پیچھے ہٹ گئے۔

ہاتھیوں کے بارے میں یہ بات بھی مشہور ہے کہ وہ بڑی ہم درد طبیعت کے مالک ہوتے ہیں، اگر کبھی کسی انسان کو مشکل میں پھنسے ہوئے دیکھتے ہیں تو وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ انھیں اس کی مدد کیسے کرنی ہے اور وہ اس کی مدد کرنے کے لیے فوری تیار بھی ہوجاتے ہیں۔ ہاتھی اپنی جسامت اور سائز میں جتنے بڑے دکھائی دیتے ہیں۔

ان کے سینے میں اتنا ہی نرم اور محبت کرنے والا دل بھی ہوتا ہے۔ یہ اگر کبھی کسی انسان کے ساتھ پیار اور محبت کے بونڈ میں بندھ جاتے ہیں تو پھر ساری زندگی اس پیار کو نبھاتے ہیں۔ اکثر ہاتھیوں کے حوالے سے ایسی کہانیاں بھی سامنے آئی ہیں کہ انہوں نے انسان کو کبھی اپنے لحیم شحیم جثے سے مرعوب کرنے کی کوشش نہیں کی، بلکہ ہمیشہ انسان کی مدد کرکے اس کے لیے قربانی و ایثار کا عملی مظاہرہ کیا ہے۔

ہاتھیوں نے ہر زمانے میں اور خاص طور سے ہر مشکل وقت میں انسانوں کی حیران کن انداز سے مدد کی ہے اور بعض اوقات تو اپنے آپ کو خطرات میں بھی ڈال دیا۔ لیکن ان کے پیش نظر صرف انسانوں کی بہبود تھی۔ صرف انسانوں کی ہی نہیں بلکہ ہاتھی اپنے قبیلے یا غول کی بہبود اور بہتری کا بھی خیال رکھتے ہیں۔ انسان اور ہاتھی کی دوستی تو ازل سے چلی آرہی ہے اور شاید ابد تک رہے گی۔ جس طرح ہاتھی انسان سے پیار کرتے ہیں، بالکل اسی طرح انسان بھی ہاتھیوں پر ہر وقت اپنی جان نچھاور کرنے کو تیار رہتا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ معروف ماہر اور ہاتھیوں پر تحقیق کرنے والی ڈاکٹر Vicki Fishlock تو  افریقی ہاتھیوں کے ساتھ عشق میں مبتلا ہو گئی تھیں۔ ہاتھیوں سے محبت اور ان کی بہبود کا خیال رکھنا ان کی زندگی کا سب سے بڑا خواب تھا۔ شاید اسی لیے انہوں نے 2011  میں کینیا کے Amboseli National Parkمیں ہاتھیوں پر ایک تحقیقی مطالعے میں حصہ بھی لیا تھا اور اپنی اس شرکت سے ہاتھیوں کے لیے اہم ترین معلومات حاصل کی تھیں۔

ایک روز علی الصبح ڈاکٹر صاحبہ کو یہ خبر ملی کہ ایک ہاتھی کا بچہ پارک کے باہر کسی کنویں میں گر گیا ہے۔ پھر ایک مسئلہ یہ بھی کھڑا ہوگیا کہ کچھ ہی دیر میں ہاتھیوں کے رکھوالے بھی اپنے ہاتھیوں کو پانی پلانے وہاں آنے والے تھے۔

اس کے بعد یہ الجھن مزید بڑھ کر اور بھی پیچیدہ ہوسکتی تھی۔ دوسری جانب ایک مسئلہ یہ بھی تھا کہ اگر ہاتھیوں کے رکھوالے اس کنویں پر پہلے پہنچ جاتے تو انہیں دیکھ کر اس ہاتھی کے بچے کی ماں ڈر کر بھاگ جاتی، لیکن اگر ہاتھیوں کے رکھوالے ہاتھی کے بچے کی ماں کو پہلے ہی بھگادیتے تو پھر اس ہاتھی کے بچے کی جان بچنا مشکل ہوسکتی تھی، کیوں کہ وہ بے چارہ بے بی تو پہلے ہی بے حد پریشان اور سہما ہوا تھا۔ چناں چہ ڈاکٹر Fishlockنے اپنی ٹیم کے دو ارکان کو ساتھ لیا اور ایک جیپ میں سوار ہوکر تیزی سے اس کنویں کی طرف روانہ ہوگئی جہاں یہ افسوس ناک واقعہ پیش آیا تھا۔

ڈاکٹر Fishlock کو پوری امید تھی کہ ابھی تک ہاتھی کے بچے کی ماں کو اس جگہ سے دور ہنکایا نہیں گیا ہوگا۔ لیکن جس وقت ڈاکٹر Fishlock اس مقام پر پہنچیں، اس وقت وہاں کا منظر نامہ ان کی توقع سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہوچکا تھا۔ ڈاکٹر Fishlock اور ان کی ٹیم کے ارکان کی یہ دیکھ کر جان میں جان آئی کہ کہ ماں ہتھنی Zombe اس کنویں کے چاروں طرف لڑکھڑاتے قدموں سے گھوم رہی تھی۔ اس کا بچہ ابھی تک کنویں کے اندر مٹی کی ڈھلوان پر تھا اور مسلسل جدو جہد کررہا تھا، لیکن ماں ہتھنی Zombe بہت خوف زدہ بھی تھی اور شدید غصے میں بھی تھی۔

ہاتھی ہمارے اس کرۂ ارض پر سب سے زیادہ طاقت ور اور سب سے زیادی بھاری بھرکم ممالیہ ہے، یہ اپنی سونڈ سے 600 پاؤنڈز تک وزن اٹھا سکتا ہے۔ یہ طاقت ور اور بھاری بھرکم ممالیہ ہے، اسی لیے ماں ہتھنی Zombe کسی کو بھی اپنے اور اپنے جدوجہد کرتے ہوئے بچے کے قریب نہیں آنے دے رہی تھی۔ وہ کنواں اور اس کنویں پر موجود ہتھنی اور اس کے بچے اور متعدد لوگوں کی موجودگی نے ریسکیو کے مشن کو نا ممکن بنادیا تھا۔

ڈاکٹر Fishlock کو اندیشہ تھا کہ اگر انہوں نے جیپ سے اتر کر ہاتھی کے بچے کے قریب جانے کی کوشش کی تو ماں ہتھنی Zombe بپھر جائے گی اور ان کی اپنی زندگی کے ساتھ ان کے پورے عملے کی زندگیاں بھی خطرے میں پڑ جائیں گی۔ وہ کافی دیر تک پوری صورت حال پر غور کرتی رہیں اور آخر کار ان کی ریسکیو ٹیم نے جیپ آگے بڑھائی اور مختلف آوازیں نکالتے ہوئے ہتھنی کو ڈرایا جیسے وہ اس پر جیپ چڑھادیں گے، لیکن ماں ہتھنی Zombe اپنی جگہ سے نہ ہلی، بلکہ پہلے سے بھی زیادہ استقامت کے ساتھ جم کر اپنے بچے کے ساتھ کھڑی ہوگئی۔

یہ دیکھ کر ڈاکٹر Fishlock کسی وحشی کی طرح اس ہتھنی پر چیخی اور اسے ڈرانے والی آوازیں نکالیں۔ اس نے اپنی جیپ کے انجن کو فل ریس بھی دی جس سے انجن بری طرح غرانے لگا، یہ دیکھ کر ہتھنی مڑی اور پلٹ کر بھاگنے لگی۔ اب ڈاکٹر Fishlock کی ٹیم کے ارکان نے ہاتھی کے بچے کو سنبھالا، وہ ہتھنی کے زیادہ دور جانے سے پہلے یہ مسئلہ حل کرنا چاہتے تھے اور اپنی جانب سے بچے کو بچانے کی پوری کوشش کررہے تھے۔

ان کا ریسکیو پلان تین اقدامات پر مشتمل تھا:

٭پہلا قدم یہ تھا کہ وہ جیپ کے بمپر پر ایک رسی باندھ دیتے۔

٭دوسرا قدم یہ تھا کہ وہ ہاتھی کے بچے کے جسم پر رسی باندھ دیتے۔

٭ تیسرا قدم یہ تھا کہ وہ جیپ کو پوری رفتار سے ریورس گیئر میں چلاتے۔

بہ ظاہر یہ کام آسان نہیں لگ رہا تھا، کیوںکہ ہتھنی کا بچہ، بچہ ہونے کے باوجود کافی بھاری بھرکم اور موٹا تازہ تھا جسے اس طرح گھسیٹنا بہت مشکل تھا۔ اس کی رسی کو ڈھیلا بھی نہیں چھوڑا جاسکتا تھا، کیوں کہ وہ بچہ خود بھی اپنی ماں کی طرف جانے کے لیے زور مار رہا تھا اور وہ اپنے نجات دہندوں کے پاس آنے کے موڈ میں بالکل نہیں تھا۔

اس دھینگا مشتی میں ہاتھی کے بچے نے زور مارا اور اپنے آپ کو بچانے والوں کو گھسیٹ کر لے گیا۔ وہ بہت پریشان بھی تھا اور غصے میں بھی، اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا اس کے ساتھ یہ سب کیوں ہورہا ہے۔

آخر ڈاکٹر Fishlock نے جھنجھلا کر جیپ کے ایکسیلیٹر پر پیر کا دباؤ ڈالا اور جیپ کا انجن غراتا ہوا گرجا جس کے ساتھ ہی جیپ بھی اچھلتی ہوئی پیچھے کی طرف بڑھی جس کے ساتھ ہی ہاتھی کا بچہ بھی کنویں کے منہ سے نکل کر زمین پر گھسٹتا ہوا اس کی طرف آنے لگا تو سب نے فاتحانہ نعرے لگائے۔ لمحوں میں وہ کنویں سے باہر تھا۔

ماں ہتھنی خوش تو تھی، مگر بے چاری حواس باختہ بھی تھی، وہ اس جشن کو کھل کر بھی نہ مناسکی، مگر اس کی آنکھوں میں تشکر کے آنسو تھے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔