تاریک شہر کا اجلاپن

اقبال خورشید  بدھ 25 دسمبر 2013

وہ شہر پر اترنے والی سرد ترین شام تھی۔ میں ٹھنڈ سے ٹھٹھر رہا تھا۔ کانوں میں ایک مدھر گیت کی بازگشت تھی۔

سڑکوں پر خوف کا کُہرا تیرتا محسوس ہوتا۔ ویرانی سے بھرپور راستوں پر اندیشے میں لپٹے انسان حرکت کرتے تھے۔ وہ ڈرے ہوئے تھے کہ وقفے وقفے سے کُہرے میں فائرنگ کی ہیبت ناک گونج سنائی دیتی۔ قدم قدم پر جلتی بسوں سے سامنا ہوتا۔ ہر تھوڑی دیر بعد اسلحہ تھامے نقاب پوش نازل ہوتے۔ اور پھنکارتے۔

وہ سرد ترین شام تھی۔ خدشات کے سائے میں، موہوم امید کے سہارے، کارواں آگے بڑھ رہا تھا۔ اور میں اُس میں شامل تھا۔ شعلوں، نقاب پوشوں اور کُہرے کے درمیان سفر کرتا ہوا۔ ٹھٹھرتا ہوا۔ پریشان۔ اور میرے کانوں میں جھرنوں کا گیت تھا۔ قدیم، رَس بھرا، لازوال گیت۔

اُس گیت کا ماخذ میرا بچپن تھا۔ جادو بھری وادی میں بیتا بچپن۔ وادی، جہاں بسنے والے فطرتی رازوں سے واقف تھے۔ راز، جو برف پوش چوٹیوں پر ازل سے منجمد تھے۔ میں اس کشادہ وادی کا تھا، جہاں پیڑوں کی سانس لیتی ٹہنیاں زندہ اور سرخ سیبوں کے بوجھ سے جھک جاتیں، اور سرسبز زمین کا بوسہ لیتیں۔ جہاں فضاؤں میں پراسرار قوت تیرتی۔ اور جھرنوں کے مدھر گیت اُسے مہمیز کرتے۔ وہاں وہ طلسماتی صبحیں طلوع ہوتی تھیں، جنھیں میرے اندر کا ادیب کبھی بیان نہیں کر سکا۔

تو اُس گیت کا ماخذ میرا بچپن تھا، جو بہت جلد بوریا بستر لپیٹ کر چلتا بنا۔ شعور کی آنکھ ایک گنجان شہر میں کھلی، جہاں چھتیں، چھتوں سے ملی ہوئی تھیں۔ تاروں کا جال بچھا تھا۔ پیڑ مردہ، پتے گرد آلود۔ بے انت شور حسین گیتوں کے جنمے جانے کا امکان نگل لیتا۔ جھرنے سوکھ جاتے۔ اور پہاڑ ماتمی رستوں میں ڈھل جاتے۔

بے مصرف مصروفیت اور لاحاصل گہماگہمی سے بھرپور شہر میں، جسے اجالوں کا شہر بھی کہا جاتا ہے، میں نے عہد بلوغت میں قدم رکھا۔ یہی وہ بستی تھی، جسے میرے شعور نے جانا، پرکھا، برتا اور جیا۔ اور یہاں سے آگے جو سمندر ہے، وہاں میں نے سورج ڈوبتے اور اگتے دیکھا۔

شہر وادی سا کشادہ نہیں تھا، بہت تنگ تھا، پر میری فطرتی بے ساختگی قائم رہی۔ تعلیمی سلسلہ اُس کا کچھ نہیں بگاڑ سکا۔ محبت میں ناکامی اُس میں دراڑ نہیں ڈال سکی۔ بری خبروں نے مجھ پر لرزا طاری نہیں کیا۔ عملی زندگی میں قدم رکھنے کے بعد بھی میں فضائی اور ذہنی آلودگی سے، جو شہر کا جزولاینفک بن چکی ہے، مقابلہ کرتا رہا۔ اور پھر۔۔۔ میری زندگی کی سرد ترین شام کا ظہور ہوا۔ اور فطری بے ساختگی کی زنجیر چھن سے ٹوٹ گئی۔

یہ اُس تاریک دن کا ذکر ہے، جب ڈوبتے سورج نے محترمہ بے نظیر بھٹو کے بہیمانہ قتل کا منظر دیکھا۔ اجالوں کے شہر پر ایک قیامت اتری۔ قیامت، جو ایک بدروح کی صورت آج بھی شہر میں چلتی پھرتی ہے۔ ہاں، یہ 27 دسمبر کا ذکر ہے، جس کا بہ طور صحافی میں آج بھی تعاقب کر رہا ہوں۔

لمحے صدیوں سے تھے۔ سنسان راستوں پر خوف میں لپٹے انسان حرکت کر رہے تھے۔ اور میں اپنے ذہن کو حسین یادوں پر مرکوز رکھنے کی کوشش میں جٹا تھا ، تا کہ حقیقت کی تلخی سے خود کو محفوظ رکھ سکوں۔ چند لحظوں کے لیے میری سماعتوں تک جھرنے کی آواز پہنچتی، مگر فوراً ہی فائرنگ کی کریہہ گونج گیت کی چادر میں چھید کر دیتی۔ خوف کا دبیز کہرا سانس کے ساتھ سینے میں اتر جاتا۔ اور میں خوش گوار یادوں پر توجہ مرکوز رکھنے میں ناکام رہتا۔

وہ قیامت کی رات تھی۔ سڑک پر موجود کوئی انسان نہیں جانتا تھا کہ وہ گھر پہنچ پائے گا یا نہیں۔ اس رات کئی افراد کرب کے پل سے گزر کر اپنی پناہ گاہوں میں داخل ہوئے۔ چند بدنصیب ایسے بھی تھے، جو کبھی گھروں کو نہیں دیکھ سکے۔ ازلی تاریکی میں اتر گئے۔

میں اول الذکر میں سے تھا۔ سارے راستے میٹھی یادوں کا تعاقب کرتا رہا، مگر یہ مجھ پر نازل اس سمے ہوئیں، اور پوری قوت سے نازل ہوئیں، جب میں نے خدشات سے بھرے اپنے گھر کے دروازے پر دستک دی۔ اور وہ چہرے دیکھے، جو بہت سا رو چکے تھے۔ اور دعائیں کر چکے تھے۔ اور مجھ سے محبت کرتے تھے۔

وہ سُریلے، امر گیت مجھ پر تب اترے۔ اپنی پوری چاشنی اور لطافت کے ساتھ۔ اور تب اپنے چھوٹے سے مکان میں مَیں نے وہ کامل کشادگی محسوس کی، جو وادیوں کا خاصہ ہے۔ تاریک کمروں میں وہ پُر اسرار روشنی دیکھی، جو برف پوش چوٹیوں پر چمکا کرتی۔ اور سیلن زدہ ماحول میں وہ قوت موجود پائی، جو قدیم رازوں سے لبریز تھی۔

اور تب میں نے خود کو شہر کا مقروض پایا۔ ہاں، اس شہر نے مجھ پر احسان کیا تھا۔ اس نے مجھے اتھاہ گہرے خوف سے آشنا کیا۔ خوف، جو انسان کی فطری جبلت ہے، جو اُسے اَن دیکھے خطروں کا احساس دلاتا ہے۔ چوکنا رکھتا ہے، مضبوط کرتا ہے۔ بہادری اور حماقت میں فرق کرنا سکھاتا ہے۔

کیا یونانی دانا نے نہیں کہا تھا: ’’اگر انسان میں خوف محسوس کرنے کی قابلیت نہ ہوتی، تو تہذیبیں کبھی نہ پنپتیں۔ جنگیں بے انت ہوتیں۔‘‘

ہاں، وہ دُرست تھا۔ شاید اب تک دنیا تباہ ہو چکی ہوتی۔ بے خوفی کی دنیا میں ایٹمی حملہ کرتے سمے زیادہ سوچ بچار کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ سچ تو یہ ہے کہ خوف نہیں ہوتا، تو احساسِ تحفظ کی لطافت اپنا وجود کھو دیتی۔ جیسے تاریکی نہ ہو، تو روشنی بے معنی ہو جائے گی۔ غم کے پیوند کے بغیر خوشی کی چادر اپنا حسن جھاڑ دے۔

تو اِس تاریک شہر نے مجھے ایک اُجلا تحفہ دیا۔ یہ احساس دلایا کہ خوف حقیقی ضرور ہے، مگر غیر مختتم نہیں۔ سرنگ کے دہانے پر روشنی ہے۔ کامل روشنی۔ روشن روشنی۔ زندہ روشنی۔

ہاں، میں اس شہر کا مقروض ہوں۔ پر یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ اِس کا قرض کیسے اتاروں۔
شاید آپ اِس ضمن میں میری مدد کر سکیں۔۔۔ شاید آپ بھی میری طرح اِس کے مقروض ہوں۔
شاید!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔