انسانی خلیات کے درمیان مائع سے مرض کی شناخت ممکن

ویب ڈیسک  جمعـء 27 نومبر 2020
اس تصویر میں بائیں جانب خلیاتی مائع جمع کرنے والا پیوند رکھا ہے جبکہ دائیں جانب خون نکالنے والی سرنج دکھائی دے رہی ہے۔ فوٹو: ایلی سن کارٹر جارجیا انسٹٰی ٹیوٹ آف ٹٰیکنالوجی

اس تصویر میں بائیں جانب خلیاتی مائع جمع کرنے والا پیوند رکھا ہے جبکہ دائیں جانب خون نکالنے والی سرنج دکھائی دے رہی ہے۔ فوٹو: ایلی سن کارٹر جارجیا انسٹٰی ٹیوٹ آف ٹٰیکنالوجی

جارجیا: ہمارے جسمانی عجائبات میں خلیات (سیلز) شامل ہیں اور ان کے درمیان کئی طرح کے مائعات پائے جاتے ہیں۔ اب اس مائع کو جانچ کر صحت کا احوال یا بیماریوں کی شناخت بھی کی جاسکتی ہے۔

اس مقصد کے لیے ماہرین نے ایک پیوند (پیچ) بنایا ہے جس پر انتہائی باریک سوئیاں نصب ہیں۔ اس میں خلوی مائع رکھا جاسکتا ہے اور اسے آسانی سے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ یہ طریقہ عام طور پر خون کے نمونے لینے سے بھی آسان اور کم تکلیف دہ ہے۔

جس طرح بہت ساری اینٹوں سے ملکر دیوار بنتی ہے عین اسی طرح خلیات مل کر ایک ٹشو یا بافت بناتے ہیں۔ ان کے درمیان کئی طرح کے مائعات ہوتے ہیں۔ ان خلیات سے گزرکر خون کی نالیوں میں ضروری مائعات اور غذائی اجزا پھیلتے رہتے ہیں۔ لیکن اسی عمل میں جسم سے فالتو مواد بھی نکلتا رہتا ہے۔

یہ تحقیق جارجیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی ک مارک پروسنز نے کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمارے خلیات کے درمیان جو مائع ہے وہ جسم میں پائی جانے والی 25 فیصد رطوبتوں کے برابر ہے۔ مائع کو جمع کرنے کے لیے اسٹیل کی پانچ انتہائی باریک سوئیاں بنائی گئی ہیں۔ یہ سوئیاں کسی تکلیف کے بغیر جسم میں چلی جاتی ہے۔ جب اسے 21 افراد پر آزمایا گیا تو خلیوں کے درمیان مائع آسانی سے نکل آیا۔ یہ طریقہ خون نکالنے کے مقابلے میں بہت آسان ہے۔

خلوی مائعات میں گلوکوز، کیفین اور وٹامن ڈی جیسے اہم اجزا دریافت ہوئے ہیں ۔ جسم میں ان کی کمی بیشی سے ماہرین کئی بیماریوں کو سمجھ سکتے ہیں جن میں ذیابیطس سرِ فہرست ہے۔ اس عمل سے جلد میں جو خراش آتی ہے وہ ازخود ایک دن میں ٹھیک ہوجاتی ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ خردبینی سوئیاں خلیے سے مائع نکالنے لیے کسی واٹرپمپ کی طرح پریشرپیدا کرتی ہے اور یوں مائع آسانی سے اوپرآجاتا ہے۔ سائنسدانوں کے مطابق اس طریقے سے بچوں کو کسی تکلیف کے بغیر اہم ٹیسٹ سے گزارا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔