کرکٹرز کو عزت دو

سلیم خالق  جمعـء 27 نومبر 2020
اگر آپ کو کورونا کا اتنا ہی ڈر ہے تو نہیں کراتے سیریز، ہم خود ہی اپنے کرکٹرز کو کچھ نہیں سمجھتے دوسرے کیا سمجھیں گے۔ فوٹو : فائل

اگر آپ کو کورونا کا اتنا ہی ڈر ہے تو نہیں کراتے سیریز، ہم خود ہی اپنے کرکٹرز کو کچھ نہیں سمجھتے دوسرے کیا سمجھیں گے۔ فوٹو : فائل

آپ تصور کریں اپنے ملک سے 13 ہزار کلومیٹر دور کہیں جائیں،24 گھنٹے کا سفر طے کر کے وہاں پہنچیں، پھر تین دن تک کمرے میں بند کر دیا جائے، ایئرپورٹ سے فوجی آپ کے ساتھ ہوں، ساتھیوں سے بھی نہ مل سکیں، کھانا بھی کمروں میں ملے۔

میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ مضبوط سے مضبوط اعصاب کا مالک بھی ایسی صورتحال میں گھبرا جائے گا،کچھ ایسی ہی صورتحال سے ان دنوں قومی کرکٹرز نیوزی لینڈ میں گذررہے ہیں،سونے پہ سہاگہ یہ ہواکہ6 کرکٹرز کے مثبت ٹیسٹ آ گئے۔

کورونا کے دنوں میں کرکٹ آسان نہیں، بیچارے کھلاڑی صرف شائقین کو تفریح اور اپنے بورڈز کو پیسہ فراہم کرنے کیلیے خطرات مول لے کر ایکشن میں ہیں، دورئہ انگلینڈ میں وہ2 ماہ گراؤنڈ اور ہوٹل تک محدود رہے، زمبابوے سے سیریز، ڈومیسٹک ٹورنامنٹس اور پی ایس ایل کے بعد اب نیوزی لینڈ میں بند ہوئے بیٹھے ہیں،ٹور کا آغاز ہی اچھا نہ ہوا جب اسسٹنٹ کوچ شاہد اسلم کو آکلینڈ ایئرپورٹ پر روک لیا گیا، انھوں نے فارم میں گلے کی خراش کا ذکرکر دیا تھا جو ان کے ہی گلے پڑ گیا۔

اسکواڈ کو دوسرے دن سگریٹ پینے یا چہل قدمی کیلیے چند منٹ تک ہوٹل سے متصل گراؤنڈ جانے کی اجازت ملی مگر پھر دوبارہ روک دیا گیا،اس دوران اسکواڈ کے 6 افراد کورونا میں مبتلا پائے گئے، اتنے زیادہ ٹیسٹ ملک میں ہوئے تھے یقیناً انھیں یہ وائرس راستے میں لگا،2 کے بارے میں کہا گیا کہ شاید پہلے ہی ہو چکا تھا، جب انگلینڈ چارٹرڈ فلائٹ پر جا سکتے ہیں تو نیوزی لینڈ بورڈ سے بھی یہی مطالبہ کرنا چاہیے تھا، کمرشل فلائٹ میں عام لوگوں سے بھی سامنا ہوا ہو گا،اب کھلاڑی پھر سے کمروں میں بند ہو گئے ہیں پریکٹس نہیں کر سکیں گے۔

ان پر بائیو سیکیور ماحول کی خلاف ورزی کا بھی الزام لگا ہے، کہا گیا کہ کھانا لیتے ہوئے ماسک نہیں پہنا اور دروازے پر کھڑے ہو کر ساتھیوں سے باتیں کیں، بظاہر یہ اتنی بڑی غلطی تو نہیں لگتی، خیر قانون ہے کیا کہہ سکتے ہیں۔

آج ہی یہ خبر بھی سامنے آئی کہ خوشدل شاہ کے والد کا انتقال ہو گیا ہے مگر افسوس اس بیچارے کو مشکل وقت میں رونے کیلیے کوئی کندھا بھی دستیاب نہ ہوا،قرنطینہ کے سخت ترین دن گذارنے کے بعد کھلاڑی ذہنی طور پر تھکن سے چور ہو چکے ہوں گے، پھر ہمیں ان سے امید ہو گی کہ وہ سارے میچز بھی جیتیں یہ کیسے ممکن ہوگا؟

نیوزی لینڈ کے قوانین پہلے سے ہی بہت سخت ہیں، 2002میں جب بھارتی ٹیم وہاں گئی تو سارو گنگولی اور ہربھجن سنگھ کے سامان میں موجود جوتوں پر مٹی لگی ہوئی تھی، حکام نے ایئرپورٹ پر ہی ان پر200،200 ڈالر جرمانہ عائد کر دیا تھا،2011 میں جب پاکستانی ٹیم نیوزی لینڈ گئی تو میں بھی کوریج کیلیے گیا تھا، واپسی پر ایئرپورٹ پر کتے سب کو جا کر سونگھ رہے تھے کہ کہیں کوئی خطرناک اشیا تو موجود نہیں، ایک اسٹار کرکٹر تو اس وقت حد سے زیادہ خوفزدہ ہو گئے جب کتا ان کی جیکٹ کو دیر تک سونگھتا رہا تھا۔

تب تو حالات ٹھیک تھے اور ایسا حال تھا، اب تو کورونا کا دور ہے سوچیں وہ کیا کر رہے ہوں گے، نیوزی لینڈ تقریباً کورونا فری ملک ہے لہذا وہ وائرس کو اپنے ملک میں آنے سے روکنے کیلیے بھرپور کوششیں کر رہا ہے، کرکٹرز سخت پالیسیز کی زد میں آنے لگے ہیں، میں مانتا ہوں کہ عالمی وبا کے دنوں میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھا جا سکتا کھیلوں کو جاری رہنا چاہیے لیکن ساتھ ہمیں اپنے کھلاڑیوں کا بھی خیال رکھنا ہوگا، نیوزی لینڈ کرکٹ نے یہ کہہ کر ہاتھ کھڑے کر دیے کہ قرنطینہ تک ہمارا کوئی تعلق نہیں، میڈیکل حکام اور فوج ہی معاملات دیکھ رہے ہیں۔

پی سی بی کو کھلاڑیوں کے آرام کا کوئی خیال نہیں، کورونا سے پہلے ایسے غیرملکی دوروں کو ذاکر خان و دیگر حکام کبھی نہیں چھوڑتے تھے اب کوئی کہے تو بھی جانے کو تیار نہ ہوں گے،میری تجویز ہے کہ جب تک کورونا ہے وسیم خان اور ذاکر خان کو ہر دورے میں ٹیم کے ساتھ بھیجیں اور قیام کرائیں، اس سے کھلاڑیوں کا مورال بھی بلند رہے گا کہ بورڈ حکام نے ہمیں تنہا نہیں چھوڑا،وہ خود ہی کہتے ہیں کہ آج کل دفتر آنا ضروری نہیں آن لائن سارے کام ہو جاتے ہیں، وسیم خان تو اپنے ملک برطانیہ سے بھی امور دیکھ لیتے ہیں تو ایسے ٹورز پر بھی کام چل جائے گا۔

تب شاید ان لوگوں کو کھلاڑیوں کی مشکلات کا کچھ اندازہ ہو، فی الحال بورڈ اگر قومی ٹیم کیلیے کورونا الاؤنس اور بونس کا اعلان کر دے تو ہی بہت ہوگا،ہر میچ کی فیس میں اسے شامل کریں اور سیریز کے بعد کچھ رقم بونس کے طور پر دیں، آپ خود کہتے ہیں بورڈ بہت امیر ہے،200 ملین ڈالر کا براڈ کاسٹ معاہدہ ہوا ہے، یہ سارا پیسہ کرکٹرز کی وجہ سے تو آتا ہے انھیں تو دیں، ساتھ دورے سے پہلے اختیار دیں کہ اگر کوئی نہ جانا چاہے تو نہ جائے اس کیخلاف کوئی کارروائی نہیں ہو گی۔

بدقسمتی سے ہمارے ملک کا ماحول ایسا نہیں اور ہر کوئی عدم تحفظ کا شکار رہتا ہے، شاید ہی کوئی یہ پیشکش قبول کرے مگر کم ازکم اختیار تو دینا چاہیے، ساتھ دورے سے قبل ماہر نفسیات کیے سیشنز رکھیں بلکہ ٹیم کے ساتھ بھی بھیجیں، یہ تو اتنی لمبی چوڑی ٹیم مینجمنٹ نیوزی لینڈ گئی ہے اگر اس میں ایک ماہر نفسیات کی جگہ نکال لیتے تو کیا غلط ہوتا، ہمارے ملک میں اگرکوئی پٹاخہ بھی پھٹ جائے تو یہ گورے برسوں نہیں آتے تھے۔

اب تو زیادہ خطرناک صورتحال ہے مگر اپنے ملک میں کرکٹ نہیں روکی، میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر ان دنوں نیوزی لینڈ، انگلینڈ یا آسٹریلیا کا کوئی دورئہ پاکستان ہوتا تو وہ کبھی نہ آتے، آپ انگلینڈ کی مثال لے لیں پی سی بی نے خوب ڈھنڈورا پیٹا کہ آئندہ سال جنوری میں ٹور ہو رہا ہے مگر کیا ہوا؟

معاملہ اکتوبر تک پہنچ گیا، تب تک شاید کورونا پر قابو پا لیا گیا ہو، فائیو اسٹار پاکستانی سہولتوں پر ناک بھوں چڑھانے والے گورے اب ہمارے کھلاڑیوں کو کیا سہولتیں دے رہے ہیں؟ جیسے کسی گورے کرکٹر کی جان قیمتی ہے ویسے ہی ہمارے کھلاڑی کی بھی ہے، جیسے کسی گورے کو پاکستان میں سہولتیں چاہئیں ویسی ہی ہمارے پلیئر کو بھی وہاں ملنی چاہئیں، برابری کی بنیاد پر ہی تعلقات چلتے ہیں۔

اگر آپ کو کورونا کا اتنا ہی ڈر ہے تو نہیں کراتے سیریز، ہم خود ہی اپنے کرکٹرز کو کچھ نہیں سمجھتے دوسرے کیا سمجھیں گے، آپ نے تو ان کو اتنا ڈرا کر رکھا ہوا ہے کہ اب بھی کوئی پوچھے گا تو کہیں گے ہمارا بھرپور خیال رکھا جا رہا ہے پی سی بی زندہ باد، سب کو ٹیم میں اپنی جگہ پیاری ہے لیکن ایک کمرے میں خود کو ٹی وی سیٹ کے ساتھ بند کر کے دیکھیں، تین دن تو کیا آپ ایک دن بھی گذار لیں تو مان جاؤں گا کہ آپ سے بڑا بہادرکوئی نہیں ہے۔

نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔