میڈیکل داخلہ ٹیسٹ اور پی ایم سی کی زیادتیاں

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  جمعـء 27 نومبر 2020
ہمارے پالیسی ساز اگر بروقت درست فیصلہ کرلیتے تو طلبا سخت ذہنی اذیت اور دباؤ کا شکار نہ ہوتے۔ (فوٹو: فائل)

ہمارے پالیسی ساز اگر بروقت درست فیصلہ کرلیتے تو طلبا سخت ذہنی اذیت اور دباؤ کا شکار نہ ہوتے۔ (فوٹو: فائل)

گزشتہ روز ایک اخبار میں کسی طالبہ کا مراسلہ شائع ہوا جس میں وزیراعظم پاکستان عمران خان سے ایک اہم تعلیمی مسئلے پر اپیل کی گئی تھی۔ طالبہ کا کہنا تھا کہ وفاق کے زیر اہتمام پی ایم سی میڈیکل میں داخلہ کےلیے جو ٹیسٹ لے رہا ہے، اس کا سلیبس سندھ کے سلیبس سے پچاس فیصد مختلف ہے۔ لہٰذا اس ٹیسٹ میں دیگر صوبوں کے طلبا کو تو کوئی فرق نہیں پڑے گا مگر سندھ کے طلبا داخلوں سے محروم رہ جائیں گے۔ لہٰذا وزیراعظم سے درخواست ہے کہ سلیبس کے اس فرق کو ختم کرکے ٹیسٹ لیا جائے۔ جو ہم نے پڑھا ہی نہیں، اس کا ٹیسٹ لینا کہاں کا انصاف ہے۔

اس طالبہ کی بات بالکل درست ہے اور یہ سندھ کے طلبا کے ساتھ کھلی ناانصافی ہے کہ ان کا ٹیسٹ سلیبس سے ہٹ کر لیا جائے۔ ڈاکٹر مستقبل کے معمار ہی نہیں اس قوم کے مسیحا بھی ہوتے ہیں۔ یہ نوجوان طلبا دن رات محنت کرکے اچھے نمبر حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں اور جب پری میڈیکل سے انٹر ہوجاتا ہے تو پھر ایک بار ٹیسٹ کی تیاری کےلیے محنت کرتے ہیں۔ اس سخت محنت کے باوجود اگر ٹیسٹ بھی میرٹ کے اصولوں پر لینے کے بجائے زبردستی سلیبس کے علاوہ مضامین شامل کرکے ٹیسٹ لیا جائے تو اس عمل سے یہ طلبا سخت مایوس ہوں گے۔ یہ تو سراسر غیر اخلاقی ہی نہیں غیر قانونی عمل بھی ہے۔

واضح رہے کہ یہ طلبا انٹر کے سالانہ امتحانات کے ساتھ اور کچھ سالانہ امتحانات کے فوراً بعد سے داخلہ ٹیسٹ کی تیاری میں لگ جاتے ہیں۔ کراچی جیسے شہر میں کوچنگ سینٹر میں پچاس پچاس ہزار روپے تک فیس ادا کرکے ٹیسٹ کی تیاری کرتے ہیں۔ اس مرتبہ بھی یہ طلبا اپریل کے مہینے سے یعنی سات ماہ سے اس ٹیسٹ کی تیاری کر رہے ہیں، مگر عین وقت پر سلیبس سے ہٹ کر داخلہ ٹیسٹ لینے کے اعلان نے ان طلبا پر ایک بجلی گرادی ہے۔ کیونکہ اب ان کے پاس کوئی چانس ہی نہیں کہ یہ ٹیسٹ میں اچھے نمبر لے آئیں اور داخلے کےلیے اہل ہوجائیں۔

پی ایم سی کی جانب سے سندھ کے طلبا کے ساتھ یہ کھلی ناانصافی ہے، حالانکہ عدالت کی جانب سے بھی یہ ہدایت کی گئی تھی کہ پی ایم سی اپنے سلیبس کو نہ صرف درست کرے بلکہ اپنے اکیڈمک بورڈ سے بھی منظور کرائے، تاکہ صوبہ سندھ کے طلبا کے ساتھ ناانصافی نہ ہو۔ مگر افسوس اور قابل مذمت بات یہ ہے کہ پی ایم سی نے اسی پرانے سلیبس کو اکیڈمک بورڈ سے منظور کرالیا اور عدالت کو چکمہ دے دیا۔

اب صورتحال یہ ہے کہ سندھ کے طلبا پہلے کی طرح پریشان اور حیران ہیں کہ اس ملک میں ہو کیا رہا ہے؟ ڈنکے کی چوٹ پر صرف چند طلبا سے نہیں بلکہ پورے صوبہ سندھ کے طلبا سے یہ زیادتی کی جارہی ہے اور ان سے زبردستی اس سلیبس کا ٹیسٹ لیا جارہا ہے جو نہ ان کے سلیبس میں ہے اور نہ ہی انھوں نے اسے پڑھا ہے۔

ایک طالب علم نے بتایا کہ وہ عدالت بھی اس امید پر گئے تھے کہ پی ایم سی اپنی غلطی پر نادم ہوگا اور عدالتی فیصلے کے بعد طلبا کو انصاف ملے گا، مگر افسوس عدالت کے فیصلے کے باوجود کچھ حاصل نہیں ہوسکا۔ ایک اور طالب علم نے بتایا کہ انھوں نے پہلے سندھ کی جانب سے ٹیسٹ کےلیے فیس اور فارم جمع کرایا تھا، اس کے بعد وفاق کے تحت پی ایم سی کے ٹیسٹ کےلیے فیس اور فارم جمع کرایا، کیونکہ کوئی پالیسی واضح نہیں تھی طلبا نے احتیاط کے طور پر ڈبل فارم جمع کرائے۔ اسی طرح ٹیسٹ لیٹ ہونے کے باعث اب جامعات میں بھی داخلوں کی تاریخ دے دی گئی ہے، چنانچہ اب جو طلبا میڈیکل ٹیسٹ کےلیے فارم جمع کرا چکے ہیں وہ جامعات کےلیے بھی داخلہ فارم جمع کرا رہے ہیں تاکہ اگر ان کا داخلہ میڈیکل کالج میں نہ ہوسکے تو پھر جامعات کا چانس ہاتھ سے نہ نکل جائے۔ اس طرح ان طلبا کو اضافی مالی بوجھ برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔

یوں دیکھا جائے تو غلط داخلہ پالیسیوں کی وجہ سے میڈیکل کے طلبا نے پہلے ایک کے بجائے دو ٹیسٹ فارم و فیس جمع کرائی، اور اب جامعات میں ٹیسٹ اور میرٹ کی بنیاد پر فارم و فیس جمع کروا رہے ہیں، جو کم از کم سات ہزار بنتی ہے۔ گویا بلاوجہ تین جگہ فارم جمع کرکے دس ہزار روپے کا خرچہ طلبا کو برداشت کرنا پڑا۔ جب کہ ہمارے پالیسی ساز اگر بروقت درست فیصلہ کرلیتے تو طلبا پر نہ یہ اضافی بوجھ پڑتا، نہ ہی وہ سخت ذہنی اذیت اور دباؤ کا شکار ہوتے۔ افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ میڈیکل کی دنیا میں قدم رکھنے والوں کو ابھی تک یہ بھی علم نہیں کہ ان کے ساتھ آگے کیا ہوگا اور ان کے ساتھ یہ زیادتی کون کررہا ہے اور کیوں کررہا ہے؟ میری بھی وزیراعظم پاکستان سے اپیل ہے کہ وہ فوراً اس مسئلے پر ایکشن لیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔