ماسک کیسے پہنیں؟

شیریں حیدر  اتوار 29 نومبر 2020
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

’’ پیاری سی گڑیا، یہ جو آپ نے ماسک پہناہوا ہے نا، اس سے صرف آپ کا منہ ہی نہیں بلکہ ناک بھی ڈھکی ہوئی ہونی چاہیے، اور ہاں ، یہ جو آپ سیڑھیوںکی اطراف کی ریلنگ کو پکڑ کر چل رہی ہیں نا، یہ تو بہت ہی خطرناک ہے!! ‘ ‘ میںنے اس چھ سات سالہ بچی کو سمجھایا جو کہ کتابوں کی دکان میں اوپر کی منزل پر جانے کے لیے مجھ سے ایک سیڑھی آگے تھی، اس کا منہ تو ماسک سے ڈھکاہوا تھا مگر اس کی ناک پوری باہر تھی۔

میرے کہنے پر اس سے دو تین سیڑھیاں اوپر جاتے ہوئے اس کے والدین نے مڑ کر دیکھا، ان دونوں نے بھی ماسک اسی طرح پہنے ہوئے تھے جس طرح کہ اس بچی نے۔ اسی پر اکتفا نہیں، ماںکی گود میں جو بچہ تھا اس کے چہرے پر ماسک نما کوئی چیز نہ تھی اور وہ مسلسل ماں کے ماسک سے کھیل رہا تھا، غالباً اسے کھینچ کر اتارنے کی کوشش کر رہا تھا کہ اسے ماں کا چہرہ نظر آئے۔

یہ تو ایک معمولی سا واقعہ ہے، اگر آپ ہر روز یا کبھی کبھار بھی اپنے گھر سے نکلتے ہیں، دفتر جاتے ہیں یا کوئی خریداری کرنے تو آپ اپنے ارد گرد زیادہ تعداد ان لوگوں کی دیکھیں گے جنھوں نے کہ ماسک پہنے ہوئے ہی نہیں ہوتے، اگر پہنے ہوئے ہوتے ہیں تو یوں جیسے انھیں زبردستی پہنا دیے گئے ہوں، خود ان کا جی نہیں چاہ رہا تھا بلکہ اس مجبوری سے کہ جرمانہ نہ ہو جائے۔ کئی لوگوں نے ماسک ٹھوڑی پر سجا کر انھیں داڑھی نما بنا رکھا ہوتا ہے یا دھوپ کے چشمے کے موافق ماتھے پر لگا رکھا ہوتا ہے کہ جب ضرورت پڑی، یعنی جونہی کورونا وائرس نظر آئے گا تو بچاؤ کے لیے لگا لیں گے۔

اکثر تو لوگوں نے ماسک پہننے کے بعد اتار کر تہہ کر کے جیب میں رکھا ہوا ہوتا ہے اور جب انھیں دوبارہ ماسک لگانا ہوتا ہے تو جیب سے نکال کر، تہہ کھول کر، جھاڑ کر (یعنی اپنی دانست میں، کورونا کے وائرس کو جھاڑ کر) دوبارہ منہ پر سجا لیتے ہیں۔ دیہات میں تو آپ ماسک لگا لیں تو لوگ منہ دوسری طرف کر کے یا چہرہ چھپا کر کھی کھی کر کے ہنستے ہیں کہ یہ بندر نما مخلوق کہاں سے آ گئی ہے۔

ماسک بھلاہمارے ہاں اس سے قبل کس نے پہنے تھے، کبھی ضرورت ہی کب پڑی تھی ہمار ی زندگیوں میں اس کی، ماسوائے ڈاکٹروں کے یا پھر موسمی الرجی کے باعث چھینکوں اور کھانسی میں مبتلا کچھ لوگ (جن کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے ) جو کہ اس موسم میں ماسک پہنتے تھے جب موسم تبدیل ہوتا تھا ۔ آندھیوںکے باعث گرد و غبار اڑتے تھے یا بالخصوص موسم بہار کے آغاز میں جب درختوں پر بور آتا ہے تو انھیں اس سے چھینکیں اور کھانسی شروع ہو جاتی ہے ۔ اب لگ بھگ ایک برس سے کورونا کی وبا نے ہم سب کو اس مصیبت میں مبتلا کیا ہے کہ ہم بغیر منہ ڈھانکے باہر نہیں نکل سکتے کہ کہیں سے ہم وائرس کی زد میں نہ آجائیں۔

سڑکوں کے کنارے پیدل چلنے والوں ، ریڑھی بانوں اور حتیٰ کہ بھیک مانگنے والو ںکو بھی دیکھیں تو انھوں نے ماسک لگا رکھے ہیں مگر ان کے ماسک کی حالت خود بول کر بتا رہی ہوتی ہے کہ اسے آٹھ دس ماہ قبل استعمال کرنا شروع کیا گیا تھا اور ابھی تک اسی ایک ماسک کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ عام آدمی بھلاکہاں استطاعت رکھتا ہے کہ وہ ہر روزپندرہ بیس روپے ایک ڈسپوزایبل ماسک خریدنے پر لگا دے اور پھر گھر میں وہ اکیلا شخص بھی نہیں ہوتا جو کہ ہر روز گھر سے باہر نکلتا اور ہر لمحہ وائرس کی زد میں آ جانے کے رسک پر ہوتا ہے اور اسے ماسک درکار ہوتا ہے ۔

ہمارے ہاں ماسک کے استعمال پر زور دیا جا رہا ہے کہ اس کی ضرورت بھی ہے مگر اس سے زیادہ زور اس بات پر دینے کی ضرورت ہے کہ عوام کو ماسک کے استعمال کا طریقہ بتایا جائے… اوراس سے بھی پہلے انھیں لفظ ڈسپوز ایبل کا مطلب سمجھایا جائے ۔ بہتر تو یہ ہے کہ ڈسپوز ایبل ماسک کے متبادل کے طور پر عوام میں کپڑے سے بنے ہوئے ماسک کے استعمال پر زور دیا جائے۔ غریب سے غریب آدمی کے گھر میں بھی اتنا کپڑا تو ہوتا ہی ہے، خواہ وہ پرانا ہی کیوں نہ ہو کہ وہ اس میں سے سلائی کروا کے الاسٹک کی دو ڈوریاں لگا کر اپنے گھر کے تمام افراد کے لیے ماسک بنوا لے، یہ بار بار دھل سکتے ہیں اور انھیں پہن کر وہ غیر آرام دہ اور دم گھٹنے والی کیفیت بھی نہیں ہوتی جو کہ سرجیکل ماسک سے ہوتی ہے۔

جب ماسک کی ضرورت پڑی تو شروع میں یہ آئٹم نایاب ہو گیا، پھر چند دنوں میں اس کی رل پڑ گئی، ہر طرف ماسک بیچنے والوں کے اسٹال بھی نظر آنے لگے اور ان ماسک کی کوالٹی ہی ناقص نہیں بلکہ انھیں یوں کھلے عام بغیر کسی پیکنگ کے بیچنے سے ان پر ہر طرف سے گرد مٹی اور کئی نوعیت کے جراثیم ہونے کے پہلے سے ہی امکانات ہوتے ہیں۔ یہ ماسک مضر صحت ہیں مگر ہمارے ہاں کا عام آدمی انھیں کم قیمت ہونے کے باعث خرید لیتا ہے اور کئی کئی بار استعمال کرتا ہے۔

موسم تبدیل ہونے اور ماسک کا درست استعمال نہ جاننے کے باعث نزلہ ، کھانسی اور زکام کے مریض ہر طرف نظر آرہے ہیں ۔ اگر ان میں سے کسی کو کورونا کا مرض لاحق بھی ہوجائے تو ان میں ٹیسٹ کروانے کی سکت نہیں ہوتی اور وہ یونہی لوٹ پوٹ کر دوبارہ چل پڑتے ہیں یا اندرونی اعضاء کے نقصان کے باعث اپنی باقی عمر یونہی دائمی کھانسی میں مبتلا رہ کر گزار دیں گے۔حالیہ تناظر میں، جب بھی ہم کسی موبائل نمبر پرکال کرتے ہیں تو کورونا کے بڑھنے اور اس سے ہونیوالے نقصانات کے بارے میں ٹیلی فون کمپنیوں کے معلوماتی پیغامات ہمیں دن میں کئی بار سننے پڑتے ہیں۔

اس طریقے سے اگر ماسک کے استعمال کی اہمیت، گھر پر کپڑے کا ماسک بنانے کا طریقہ یا کپڑے کے رومال سے منہ اور ناک کو ڈھانپ کر وائرس سے بچاؤ کرنے اور ماسک کے پہننے اور اتارنے کے درست طریقے کے بارے میں معلوماتی پیغامات نشر کیے جائیں تو ہم کورونا کے پھیلاؤ کی رفتار کو روک سکتے ہیں ۔ جو لوگ استطاعت رکھتے ہیں ، ماسک زیادہ خرید سکتے ہیں اور ماسک کو باقاعدگی سے، ہر روز یا دن میں جتنی بار بھی باہر جائیں، تبدیل کرتے ہیں، ان میں بھی ماسک کے پہننے کے درست طریقے، اسے نہ چھونے، استعمال کے دوران یا اس کے بعد بھی اسے اتارتے ہوئے کس نوعیت کی احتیاط کی ضرورت ہے، ان سب کے بارے میں عوام کو مسلسل آگاہی دینے کی ضرورت ہے۔ نہ صرف ماسک کے استعمال ، بلکہ بعد از استعمال اس کے تلف کرنے کے بارے میں بھی آگاہی ہونا چاہیے۔

ہم نے دیکھا ہے کہ ہمارے سمیت بہت سے ایسے لوگ جو ہر طرح سے ایس او پی ز پر عمل پیرا ہیں، ماسک اور مومی دستانوں کا بھی استعمال کرتے ہیں اور خود کو گھروں پر مقید کیے ہوئے ہیں اور انتہائی ضرورت کے علاوہ باہر نہیں نکلتے، مگر وہ بھی کورونا کے وائرس کی پکڑ میں آ گئے ہیں ۔ ہم سب سے بڑی بے احتیاطی یہ کرتے ہیں کہ ماسک پہن کر خود کو محفوظ سمجھ لیتے ہیں، انسانی فطرت ہے کہ ہم اپنے چہرے کو بار بار چھوتے ہیں، ماسک پہن کر بھی ہم یہ عمل بے اختیاری میں کرتے ہیں۔

ہمارے لیے ماسک ایک عارضی حفاظتی دیوار ہے جو کہ وائرس اور ہمارے بیچ حائل ہے۔ اگر فضا میں یا ہمارے ارد گرد سے کوئی وائرس ہماری طرف بڑھتا ہے تو وہ اس حفاظتی دیوار سے ٹکڑا کر وہیں رہ جاتا ہے۔ ہم ماسک کی بیرونی اطراف کو چھوتے ہیں اور پھر انھی ہاتھوں کو ہم بسا اوقات اپنے چہرے کے ان حصوں پر لگا لیتے ہیںجو ماسک سے باہر ہوتے ہیں، وہ وائرس ہمارے ہاتھوں پر آ جاتا ہے اور اگر ہم ہاتھ دھوئے بغیر ان ہاتھوں کو ناک اور منہ پر لگا لیں تو اسے ہمارے جسم میں داخل ہونے کا آسان راستہ مل جاتا ہے ۔

اگر ہمارے ماسک کی بیرونی سطح آلودہ ہے اور ہم اسے اتار کر تہہ کر کے اپنی جیب میں رکھ لیں اور پھر اسی دوبارہ ہاتھ لگا کر استعمال کریں تو بیرونی سطح پر چپکے ہوئے جراثیم اور وائرس ماسک کے اندر باہر تک پھیل چکے ہوتے ہیں ۔ ماسک اتارتے وقت بھی اسے کان کے پاس سے الاسٹک سے پکڑ کر اتاریں نا کہ ماسک کے اوپری حصے سے کھینچ کر۔ لوگ ماسک کو بار بار اتارتے ، پہنتے ہیں، یہ بھی درست نہیں۔ اگرآپ کو ماسک کے باعث سانس لینے میں مشکل محسوس ہوتی ہے اور آپ گھبرا کر اسے اتار دیتے ہیں تو اس صورت میں کوشش کریں کہ لوگوں کے ہجوم میں نہ جائیں، خود کو رش والی جگہ سے دور کر لیں۔ سب سے بہتر تو یہی ہے کہ گھر پر رہیں، محفوظ رہیں، خود کو بھی بچائیں اور دوسروں کو بھی بچائیں ۔ اللہ تعالی سب کا حامی و ناصر ہو اور جو لوگ اس میں مبتلا ہیں، ان کے لیے آسانی اور جلد صحت یابی نصیب ہو۔ آمین ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔