آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں

راضیہ سید  بدھ 2 دسمبر 2020
کچھ لوگ عادتاً اس بات سے مجبور ہوتے ہیں کہ وہ بحث و مباحثہ کریں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

کچھ لوگ عادتاً اس بات سے مجبور ہوتے ہیں کہ وہ بحث و مباحثہ کریں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ایک دانا شخص سے کسی نے پوچھا کہ آپ اتنے خوش کیسے رہتے ہیں؟ اس نے کہا کہ میں بے وقوف لوگوں سے کبھی بحث نہیں کرتا۔

سوال پوچھنے والے آدمی نے پھر اس دانا شخص سے دریافت کیا کہ آپ انھیں کیا کہتے ہیں؟ دانا شخص بولا ’’میں انھیں کہہ دیتا ہوں کہ آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں اور یہیں بات ختم ہوجاتی ہے۔‘‘ پہلے شخص نے پھر کہا کہ ’’پھر بھی آپ کی کوئی دلیل نہ مانے تو آپ کیا کرتے ہیں؟‘‘

بالآخر اس عقل مند انسان نے تاریخی جواب دیا ’’آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔‘‘

دیکھا جائے تو یہ کسی بھی احمق کی بات کا بہترین جواب ہے۔ روزمرہ زندگی میں ہمیں بہت سے ایسے لوگ ملتے ہیں جن کا کام نہ صرف ہمارے وقت کا ضیاع کرنا ہوتا ہے بلکہ ساتھ ہی ساتھ ہماری انرجی کو بھی ختم کرنا ہوتا ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے، میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ بحث کرنے سے ایک تو ہمارا وقار مجروح ہوتا ہے، دوسرا لڑائی جھگڑا ہوتا ہے اور تیسری سب سے اہم بات کہ پھر بیوقوفوں کی تعداد ایک نہیں بلکہ دو ہوجاتی ہے۔ اگرچہ ہر وقت ہم ہر کسی کی بات سے اتفاق نہیں کرسکتے، لیکن یہ بات بھی ذہن میں رکھنا بہت ضروری ہے کہ ہم ہر وقت مصیبت بھی مول نہیں لے سکتے۔

کچھ لوگ عادتاً اس بات سے مجبور ہوتے ہیں کہ وہ بحث و مباحثہ کریں۔ جس کا مقصد صرف آپ کو زچ کرنا، نیچا دکھانا اور خود کو منوانا ہوتا ہے۔ اب ان تینوں مقاصد کو اگر آپ پورا کردیں گے تو بس سمجھیے پریشانی آپ کا مقدر بن گئی۔ اس کی مثال یوں لے لیجئے کہ ایک شخص نے آپ کو فون کیا کہ جناب دفتر کیسا چل رہا؟ گھر کی خیر خبر سنائیں۔ یہاں تک تو ٹھیک رہا، آگے نئی کہانی شروع ہوگئی کہ موسم بدل رہا ہے بھائی سردیوں کے کپڑے کب نکلیں گے؟ اب اگر آپ اتنا ہی کہنے کی غلطی کرلیتے ہیں کہ جناب میں مصروف ہوں ذرا اختصار سے۔ تو معاملہ یہاں سے اور بگڑ جائے گا۔ دیکھیں جی ہم نے آپ کو کال کی، آپ نے تو کبھی پوچھا نہیں، آج کل رشتہ داری پیسے کی ہے، بھئی ہم کہاں کے رشتے دار اب؟ اب تو آپ کو بڑی نوکریاں مل گئیں، ترقیاں ہوگئیں، بہن بھائی بھول گئے، مصروفیت یاد آگئی، بڑا آپ ہل چلا رہے ہیں۔ تو یہ بات سے بات کا نکلنا ایک نئی بحث کو جنم دے دیتا ہے۔

اب آپ جتنا لوگوں کو جواب دیں گے خواہ وہ سوشل میڈیا پر ہو یا فون پر گفتگو کے دوران۔ ایک تو جواب در جواب دینے پر آپ کو بدتمیز گردانا جائے گا، دوسرا اتنی لمبی بحث سے آپ کا دماغ منفی سمت میں چلنا شروع ہوجائے گا۔ جس سے آپ کی انرجی بھی ضائع ہوگی اور آپ سارا دن یہی سوچ سوچ کر پریشان ہوں گے کہ یار میں نے اس فضول آدمی سے بحث ہی کیوں کی؟

ایک ریسرچ کے مطابق آج کل ذہنی دباؤ کی بڑی وجہ اپنے اردگرد موجود کم عقل افراد سے نمٹنا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ آپ کو تو معلوم ہے کہ اس سے بحث کرنا فضول ہے۔ لیکن اب مسئلہ یہ بھی تو ہے کہ کوئی مانے بھی تو کہ وہ کم عقل ہے۔ لہٰذا آپ بھی صرف یہی کہیے کہ ’’آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں‘‘۔ میری مانیے ذہنی کوفت سے فوراً نجات مل جائے گی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

راضیہ سید

راضیہ سید

بلاگر نے جامعہ پنجاب کے شعبہ سیاسیات سے ایم اے کیا ہوا ہے اور گزشتہ بیس سال سے شعبہ صحافت سے بطور پروڈیوسر، رپورٹر اور محقق وابستہ ہیں۔ بلاگز کے علاوہ افسانے بھی لکھتی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔