آزاد دنیا کا غلام امریکا

مدثر حسیب  منگل 1 دسمبر 2020
گریٹ ڈپریشن کے بعد کا امریکا ایک بیروزگار امریکا تھا۔ (فوٹو: فائل)

گریٹ ڈپریشن کے بعد کا امریکا ایک بیروزگار امریکا تھا۔ (فوٹو: فائل)

کیپیٹلزم کی سب سے بڑی خوبی ہی اس کی سب سے بڑی خامی ہے، اور وہ ہے بہت سے سرمائے سے بہت زیادہ پروڈکشن۔ کیپیٹل آگیا، اسمبلی لائن بن گئی، پروڈکشن ہوگئی۔ لیکن اگلاسوال ہے کہ اتنی زیادہ پروڈکٹس خریدے گا کون؟ اگر بھوکے ننگے عوام ہوں گے، یعنی اکنامکس کی زبان میں، لوگوں کی پرچیزنگ پاور کم ہوگی تو پروڈکٹس کیسے بکیں گی؟ پرڈکٹس نہیں بکیں گی تو پرافٹ کیسے آئے گا؟ اور اگر پرافٹ نہیں آئے گا تو جمہوریت کےلیے ٹیکس بھی نہیں آئے گا؟ آپرچیونیسٹ کا کیپیٹل گین نہیں ہوگا، مطلب مزید دولت بھی اکٹھی نہیں ہوگی۔

یہ 1920 کے بعد کا زمانہ تھا۔ دنیا ایک بین الاقوامی جنگ دیکھ چکی تھی۔ جب یہی معاملہ امریکا کے ساتھ پیش آیا۔ بسوں کی فیکٹریاں دھڑا دھڑا کام کررہی تھیں، لیکن مارکیٹ بیٹھ گئی اور کوئی ان کو لینے والا نہ تھا۔ نتیجہ بسیں فیکٹریوں کے گوداموں میں زنگ آلود ہونے لگیں۔ بینکوں کے قرضے واپس نہیں ہورہے تھے۔ کئی بینک دیوالیہ ہوگئے تھے۔ اسٹاک مارکیٹ کریش ہوچکی تھی۔ لوگ جو کل ارب پتی تھے آج فٹ پاتھ پر تھے۔ ایک شیئر کی قیمت نوے سے پچانوے فیصد گرگئی تھی۔ اکنامک سپلائی اور ڈیمانڈ کو جوڑنے والی چین ٹوٹ چکی تھی۔ سودی بینکاروں کا غیر قدرتی بلبلا پھٹنے سے جو کرائسس 1930 میں آیا، اسے آج دنیا گریٹ ڈپریشن کے نام سے جانتی ہے۔

پہلی جنگ عظیم میں امریکا باقی دنیا سے الگ تھلگ رہنے میں کامیاب رہا تھا۔ لیکن گریٹ ڈپریشن کے بعد کا امریکا ایک بیروزگار امریکا تھا، جس میں لوگ ایک کافی اور ایک ڈونٹ کےلیے لائن میں لگنے پر مجبور تھے۔ جبکہ مختلف دہشت گرد، مافیا ڈانز اور غنڈے بھوکے عوام کو یہ سہولت مہیا کررہے تھے۔ تاہم امریکی آپرچونیسٹس اور کاروباری طبقے، جمہوریت اور امریکی اسٹیبلشمنٹ سمیت، جس میں بینکوں کا بین انٹرسٹ بھی لازم تھا، نے اپنی پروڈکشن لائن کو بسوں اور گاڑیوں سے اٹھا کر جنگی سازوسامان بنانے پر لگادیا۔ امریکی کمپنیز نے اگلی جنگ کی آپرچونیٹی کو آبزرو کرلیا تھا۔ امریکا کو کمال کے آرڈرز ملنے لگے تھے۔ ایک طرف تو وہ جرمنی کو جنگی آلات بیچ رہا تھا تو دوسری طرف اپنے پردادا انگلینڈ کو۔ ایک طرف رشیا تھا، دوسری طرف جاپان۔ مطلب پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں۔

امریکا کی دو ہزار بڑی کمپنیوں کا منافع 40 فیصد سے زیادہ ہوچکا تھا۔ ملک اپنی اب تک کی زندگی کا سب سے بڑا اکنامک بوم دیکھنے لگا۔ ایسا بوم جو سونے کی کانوں کی کھدائیوں سے بھی لاحاصل رہا تھا، لیکن اب حاصل ہو رہا تھا۔ کیپیٹلزم خوب پھول رہا تھا۔ لوگوں کی ڈسپوزل ایبل آمدنی بڑھ رہی تھی۔ بے روزگاری تقریباً صفر ہوچکی تھی۔ حتیٰ کہ امریکی کالے جن کی کھالیں کھینچ کر سڑکوں پر لٹکائی جاتی تھیں اور اب تک غلامی سے باہر نہیں آسکے تھے، ان کو بھی نوکریاں ملنے لگی تھیں۔ وہ بھی اسلحے کی فیکٹریوں میں کام کرنے لگے۔ بڑی بڑی کمپنیاں جناتی روپ دھار چکی تھیں۔ حتیٰ کہ فورڈ اور آئی بی ایم نے اپنے آپ کو وار ہوگز (خنزیر قسم کے جانور جو پرانے یورپ میں جنگوں کے دوران استعمال ہوتے تھے) کہنا شروع کردیا۔ اتنی زیادہ پیداوار کے باوجود آرڈرز پورے نہیں ہورہے تھے، اس لیے مزید فیکٹریاں چاہیے تھیں۔

لیکن یہاں ایک مسئلہ پیدا ہوگیا۔ امریکی پرائیویٹ کمپنیاں ایک حد تک رسک لے سکتی تھیں، کیونکہ وہ گریٹ ڈپریشن والا تجربہ دہرانا نہیں چاہتی تھیں۔ یہاں پر امریکی جمہوری روایات اور سفید اسٹیبلشمنٹ کے مکس اچار نے بزنس کمیونٹی کے فری لنچ کا بندوبست کیا۔ 1939 سے 1945 کے دوران اس لنچ میں اندازاً سترہ بلین ڈالرز کی انویسٹمنٹ کی گئی۔ اس سرمائے سے نئی فیکٹریاں لگائی گئیں اور بہت ہی معمولی رینٹ پر پرائیویٹ کمپنیز کو لیز کردی گئیں۔ جبکہ یہی کمپنیاں باہر کے آرڈرز کو نہیں بلکہ امریکی جمہوری اسٹیبلشمنٹ کو اپنی پیداوار بیچنے لگی تھیں۔

اب سوال پیدا ہوگا کہ امریکا نے اپنی ہی لگائی ہوئی فیکٹریوں سے بننے والی پیداوار کو کیسے خریدا؟ ان کمپنیوں کے فری لنچ کا بل کون بھرے گا؟ تو اس کا جواب ہوگا کہ اپنی آمدنی سے۔ بالکل۔ لیکن آمدنی کہاں سے ہوئی؟ ٹیکسز سے۔ ٹیکس کس نے دیے؟ عام امریکی نے، جو ان ہی فیکٹریوں میں غلامی کررہا تھا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ امریکا ان بڑے سرمایہ داروں سے ٹیکس اکٹھا نہیں کرسکا، بلکہ الٹا ان ہی کمپنیوں نے ان فیکٹریوں کو آدھی یا اس سے بھی کم قیمت میں گورنمنٹ سے خرید لیا۔ 1942 میں ایک ایکٹ متعارف کروایا گیا جس میں زیادہ تر ٹیکس مزدور طبقے پر لگایا گیا۔ اور بڑی بڑی کارپوریشن اس سے مستثنیٰ ہی رہیں۔ جبکہ جنگ کا سارا خرچہ امریکی عوام سے کروایا گیا، جبکہ بے وقوف عوام جو بے روزگاری اور ایک وقت کی روٹی سے تنگ تھے، وہ اس میں ہی خوش تھے کہ چلو ان کی نوکری تو چل رہی ہے ناں۔ نیز ناگاساکی اور ہیروشیما پر امریکا نے جو انسانیت کی خدمت کی، اس سے بھی عوام کافی مطمئن تھے۔

ایک بار پھر امریکا اسی دور سے گزر رہا ہے۔ بیروزگاری عروج پر ہے۔ زیادہ پیسے کے رسیا عوام روٹی اور علاج کےلیے لائنوں میں لگے ہوئے ہیں۔ پہلے کی طرح عوامی قرضہ بڑھ چکا ہے۔ سیاسی اور مذہبی ایکسٹریمزم کا درجہ حرارت بھی بڑھا ہوا ہے۔ اب امریکا کی فیکٹریوں کا اسلحہ بیچنے کےلیے، قرضہ کم کرنے کےلیے، بیروزگاری کم کرنے اور انسانیت کی بے لوث خدمت کےلیے کوئی نئی جنگ چاہیے۔ اس کےلیے اسٹیبلشمنٹ کے پاس کچھ آپشنز موجود ہیں۔ شمالی کوریا سے ہاتھ ملایا جاچکا ہے۔ جبکہ پیچھے چین اور ایران ہی باقی بچتے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

مدثر حسیب

مدثر حسیب

بلاگر نے مالیات (فائنانس) کے شعبے میں ایم فل کیا ہوا ہے اور دس سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔ آج کل متحدہ عرب امارات میں بھی شعبہ مالیات میں کام کررہے ہیں۔ ان سے [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔