سیاسی تکون

محمد حسان  جمعرات 3 دسمبر 2020
عام آدمی ہمیشہ سیاسی مثلث کا حصہ رہا ہے۔  (فوٹو: فائل)

عام آدمی ہمیشہ سیاسی مثلث کا حصہ رہا ہے۔ (فوٹو: فائل)

پاکستان میں عام آدمی ہمیشہ کنفیوژ رہا ہے کہ وہ دراصل ہے کون؟ اس کا تعلق کس ملک، مذہب، فرقے، طبقے، قوم یا صوبے سے ہے؟ کبھی کوئی اسے مذہب کے نام پر استعمال کرتا ہے تو کوئی مسلک کے نام پر۔ کوئی حب الوطنی کی آڑ استعمال کرتا ہے تو کوئی صوبائیت یا قومیت کی، تو کوئی نظریے کی۔ وہ ہمیشہ سیاسی مثلث کا حصہ رہا ہے۔ چاہے اس ’’سیاست‘‘ میں سیاستدان ملوث ہوں یا اسٹیبلشمنٹ، فوج ملوث ہو یا خفیہ ادارے، سرکار ملوث ہو یا سرکاری افسران، علما ملوث ہوں یا مولوی صاحبان۔ غرض ہر صورت میں مثلث کا ایک کونہ عام آدمی تک آتا ہے، جس کے تیسرے کونے پر نامعلوم افراد ہوتے ہیں۔ کوئی ان نامعلوم افراد کو بیرونی ہاتھ سے تعبیر کرتا ہے، کوئی ذاتی مفاد سے، کوئی حب الوطنی سے، کوئی غداری سے اور کوئی پیسے سے۔

عام آدمی کبھی اپنے آپ کو شیر سمجھتا ہے، کبھی ہاتھ میں تیر لیے شیر کا شکاری، کبھی بلا اٹھائے کرکٹر، کبھی کتابیں اٹھائے مبلغ، کبھی اپنے آپ کو امپائر کی اٹھی ہوئی انگلی سمجھنا شروع ہوجاتا ہے تو کبھی چوں چوں کا مربہ، جس میں ہر بندہ لیڈر ہوتا ہے اور جتنے منہ اتنی باتیں ہوتی ہیں۔ اسے سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ کس سمت جائے، کس کو اپنا مسیحا مانے، کس کو اپنا رہنما تسلیم کرے، کس کو اپنا خیر خواہ مانے؟

مسئلہ یہ ہے کہ اسے ہمیشہ مثلث کے دو کونے نظر آتے ہیں، جن میں ایک کونے پر اول الذکر لوگ ہوتے ہیں اور دوسرے کونے پر وہ خود ہوتا ہے، جبکہ تیسرا کونہ ہمیشہ اس کی نظروں سے پوشیدہ رہتا ہے۔ کبھی کوئی اِکادُکا میڈیا رپورٹ، کوئی کالم، انٹرویو، کتاب یا کوئی ذاتی تجربہ و مشاہدہ اسے اندازہ لگانے میں مدد ضرور دے جاتا ہے لیکن نتیجے تک پہنچنے کےلیے یہ چیزیں ناکافی ہوتی ہیں۔

ہم کبھی بھی ’’اپنے پاکستان‘‘ میں نہیں رہے۔ شاید ہمیں ابتدا سے استعمال کیا جارہا ہے اور ہمیں اصل پاکستان کی بھنک بھی نہیں پڑنے دی گئی۔ کبھی ہم جناح کے پاکستان میں رہے، کبھی لیاقت علی خان کے، کبھی ایوب خان کے، کبھی یحییٰ خان کے، کبھی بھٹو کے، کبھی ضیا کے، کبھی شریف خاندان کے، کبھی مشرف کے، کبھی زرداری کے، کبھی عمران کے اور کبھی مولویوں کے پاکستان میں رہے۔ کبھی ہم اسلامی پاکستان بن جاتے ہیں، کبھی سیکولر پاکستان، کبھی امریکی پاکستان، کبھی روسی پاکستان، کبھی چینی پاکستان۔ غرض یہ کہ ہم نے گھاٹ گھاٹ کا پانی پی لیا ہے، لیکن حقیقت ابھی بھی ہماری نظروں سے اوجھل ہے۔ ہم دنیا میں انوکھی قوم بن کر رہ گئے ہیں۔

دنیا کی تاریخ اٹھا لیجئے۔ آپ کو مختلف ملک، مذہب، قوم اور نظریے کے حامل افراد ملیں گے۔ لیکن ترقی یافتہ صرف وہ لوگ یا ملک ملیں گے جو منظم تھے اور ابھی بھی ہیں اور جنہوں نے وقت کو ضائع کرنے کے بجائے اپنے آپ کو منظم کرنے میں وقت صرف کیا۔ جو وقت کا صحیح اور منظم استعمال کرتا ہے، وقت اسے اپنی قید سے آزاد کردیتا ہے اور وہ زمان و مکاں سے آزاد ہوکر امر ہوجاتا ہے۔ اور جو وقت کو ضائع کرتے ہیں، دراصل وقت انہیں ضائع کر رہا ہوتا ہے۔ پاکستانی کنفیوژ عوام کو صرف منظم ہونے کی ضرورت ہے، باقی راستے خود بخود کھلتے چلے جائیں گے۔ لیکن صرف اپنے لیے منظم ہوں، ورنہ پھر سیاسی مثلثیں آپ کو اپنا آلہ کار بنالیں گی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

محمد حسان

محمد حسان

بلاگر گزشتہ 12 سال سے میڈیا اور پبلک ریلیشنز کنسلٹنٹ کے طور پر ملکی اور بین الاقوامی اداروں سے منسلک ہیں۔ انسانی حقوق، سیاسی، معاشی اور معاشرتی موضوعات پر لکھنے کا شغف رکھتے ہیں۔ آپ انہیں ٹوئٹر اور فیس بُک پر BlackZeroPK سے سرچ کر سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔