بعض ارکان کا پرائز بانڈ رکھنے کا بھی اعتراف، علما کی مخالفت

سید نوید جمال  جمعرات 26 دسمبر 2013
پرائزبانڈسود کی شکل ہے،یہ سیاستدان رکھیں یاکوئی اور،جائزنہیں،علمائے کرام. فوٹو: فائل

پرائزبانڈسود کی شکل ہے،یہ سیاستدان رکھیں یاکوئی اور،جائزنہیں،علمائے کرام. فوٹو: فائل

اسلام آ باد: سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے اراکین پارلیمنٹ کی طرف سے الیکشن کمیشن میں جمع کرائی گئی اثاثوں کی۔

تفصیلات میں بعض نے پرائز بانڈز رکھنے کا بھی اعتراف کیا ہے جبکہ مختلف مکاتب فکرکے علما کرام نے پرائز بانڈزکے لین دین کوشرعی طور پرناجائز قراردیاہے۔ علماء ومفتیان کرام کا کہنا ہے کہ پرائز بانڈ سود کی شکل ہے، اس لیے شریعت نے اس کو سودی کاروبار قرادیا ہے ۔ وفاق المدارس کے ترجمان مولاناعبدالقدوس محمدی کا کہنا ہے کہ پرائز بانڈز جائز نہیںکیونکہ یہ سود سے مماثلت رکھتے ہیں۔ اس میں کچھ لوگ محروم رہ جاتے ہیں اور کچھ لوگوں کو بغیر کسی محنت کے انعام مل جاتا ہے ۔ مفتی منیب الرحمن کا کہنا ہے کہ پرائز بانڈز میں کسی کا پیسہ ڈوبتا نہیں، اس لئے میرے نزدیک یہ جائز ہیں ۔

 

مفتی خالق نے کہاکہ حکومت پرائز بانڈز عوام کو بیچتی ہے اور حاصل ہونیوالی رقم سود پر لوگوں کو دیتی ہے اوراس سے جو منافع حکومت کو حاصل ہوتا ہے اس سے قرعہ اندازی کے ذریعے لوگوں کو انعام دیا جاتا ہے جو جائزنہیں، اس حوالے سے مفتی تقی عثمانی اور دیوبند انڈیا کے فتوے موجود ہیں ۔ مولانا عبد العزیز حنیف نے کہاکہ پرائز بانڈ سود کی شکل ہے، سیاست دان یہ کاروبار کریں یا کوئی اور ، یہ اسلامی نکتہ نظر سے جائز نہیں ۔ لال مسجد کے مفتی عبد النور نے کہاکہ پرائز بانڈز کو ناجائز کرانے کے حوالے سے عدالتی فیصلے موجود ہیں ، بینک میں رکھے ہوئے پیسے پر بھی منافع لینا جائز نہیں ، بانڈز کی رقم حکومت آگے سود پر دیتی ہے جس پر حکومت کو بھی منافع ملتا ہے اور پھر حکومت اس منافع میں سے عوام کو قرعہ اندازی میں انعام دیتی ہے ، اس لیے یہ کاروبار جائز نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔