- ڈکیتی کے ملزمان سے رشوت لینے کا معاملہ؛ ایس ایچ او، چوکی انچارج گرفتار
- کراچی؛ ڈاکو دکاندار سے ایک کروڑ روپے نقد اور موبائل فونز چھین کر فرار
- پنجاب پولیس کا امریکا میں مقیم شہباز گِل کیخلاف کارروائی کا فیصلہ
- سنہری درانتی سے گندم کی فصل کی کٹائی؛ مریم نواز پر کڑی تنقید
- نیویارک ٹائمز کی اپنے صحافیوں کو الفاظ ’نسل کشی‘،’فلسطین‘ استعمال نہ کرنے کی ہدایت
- پنجاب کے مختلف شہروں میں ضمنی انتخابات؛ دفعہ 144 کا نفاذ
- آرمی چیف سے ترکیہ کے چیف آف جنرل اسٹاف کی ملاقات، دفاعی تعاون پر تبادلہ خیال
- مینڈھے کی ٹکر سے معمر میاں بیوی ہلاک
- جسٹس اشتیاق ابراہیم چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ تعینات
- فلاح جناح کی اسلام آباد سے مسقط کیلئے پرواز کا آغاز 10 مئی کو ہوگا
- برف پگھلنا شروع؛ امریکی وزیر خارجہ 4 روزہ دورے پر چین جائیں گے
- کاہنہ ہسپتال کے باہر نرس پر چھری سے حملہ
- پاکستان اور نیوزی لینڈ کا پہلا ٹی ٹوئنٹی بارش کی نذر ہوگیا
- نو منتخب امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم نے اپنے عہدے کا حلف اٹھا لیا
- تعصبات کے باوجود بالی وڈ میں باصلاحیت فنکار کو کام ملتا ہے، ودیا بالن
- اقوام متحدہ میں فلسطین کی مستقل رکنیت؛ امریکا ووٹنگ رکوانے کیلیے سرگرم
- راولپنڈی میں گردوں کی غیر قانونی پیوندکاری میں ملوث گینگ کا سرغنہ گرفتار
- درخشاں تھانے میں ملزم کی ہلاکت؛ انکوائری رپورٹ میں سابق ایس پی کلفٹن قصور وار قرار
- شبلی فراز سینیٹ میں قائد حزب اختلاف نامزد
- جامعہ کراچی ایرانی صدر کو پی ایچ ڈی کی اعزازی سند دے گی
بچی سے زیادتی و قتل کیس کے ملزم کی سزائے موت کیخلاف اپیل مسترد
اسلام آباد: سپریم کورٹ نے ساڑھے تین سالہ بچی سے زیادتی و قتل کیس کے ملزم کی سزائے موت کیخلاف اپیل مسترد کردی۔
سپریم کورٹ میں ساڑھے تین سالہ رمشاء زیادتی و قتل کیس کے ملزمان کی سزائے موت کیخلاف اپیلوں پر سماعت ہوئی۔ عدالت نے ملزم شعبان کی اپیل خارج کرتے ہوئے سزائے موت کا فیصلہ برقرار رکھا تاہم اس کے شریک ملزم قیصر کی سزائے موت کم عمری کے باعث عمر قید میں تبدیل کردی۔
ملزمان نے 2003 میں شیخوپورہ کے شہر مریدکے میں رمشاء نامی ساڑھے تین سالہ بچی کو زیادتی کے بعد قتل کیا تھا۔ ٹرائل کورٹ نے ملزمان کو سزائے موت دی جسے ہائی کورٹ نے برقرار رکھا۔
جسٹس قاضی امین نے دوران سماعت ریمارکس دیے کہ ملزمان کے اپنے گواہوں کے بیانات بھی ان کے خلاف جاتے ہیں، جس کی کم سن بیٹی زیادتی کے بعد قتل ہو وہ کیوں کسی پر جھوٹا الزام لگائے گا، ملزمان کو چھوڑنے کیلئے شکوک و شبہات تلاش نہیں کرسکتے، گواہ بھی انسان ہوتے ہیں ان سے فرشتوں جیسی باتوں کی توقع نہ کی جائے۔
ملزمان کے وکیل نے دلائل دیے کہ پولیس کہتی ہے ملزمان نے لاش والی بوری گلی میں پھینکی تو لوگ جمع ہوگئے، لیکن جو لوگ جمع ہوئے ان میں سے کسی نے گواہی نہیں دی۔
جسٹس قاضی امین نے کہا کہ ہمارے معاشرے میں گواہی دینے جاتا ہی کون ہے؟ میں تو خود بھی کسی کیس میں گواہ نہ بنوں، سنگین جرم کرنے والوں کو تکنیکی وجوہات پر نہیں چھوڑ سکتا، کیا ہمارے معاشرے میں بچوں کیساتھ ایسے جرائم نہیں ہوتے؟۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔