کینو کی ایکسپورٹ کے لیے ساڑھے تین لاکھ ٹن کا ہدف مقرر

بزنس رپورٹر  بدھ 2 دسمبر 2020
کینو کی مجموعی پیداوار اکیس لاکھ ٹن، ایکسپورٹ کے قابل پیداوار مزید کم ہوگئی۔ فوٹو : فائل

کینو کی مجموعی پیداوار اکیس لاکھ ٹن، ایکسپورٹ کے قابل پیداوار مزید کم ہوگئی۔ فوٹو : فائل

 کراچی: کینو کی ایکسپورٹ کے لیے ساڑھے تین لاکھ ٹن کا ہدف مقرر کردیا گیا جب کہ 21 کروڑ ڈالر کا زرمبادلہ بھی حاصل ہوگا۔

آل پاکستان فروٹ اینڈ ویجیٹبل ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن نے رواں سیزن کینو کی ایکسپورٹ کا ہدف 3لاکھ 50ہزار ٹن مقرر کردیا ہے۔ کینوکی ایکسپورٹ گزشتہ سال تین لاکھ ٹن رہی تھی جب کہ رواں سیزن کینو کی ایکسپورٹ سے 21 کروڑ ڈالر کا زرمبادلہ حاصل ہوگا، کینو کی ایکسپورٹ یکم دسمبر سے شروع ہوگئی ہے، رواں سیزن کینو کی پیداوار کا اندازہ 21 لاکھ ٹن لگایا گیا ہے۔

آل پاکستان فروٹ اینڈ ویجیٹیبل ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے سرپرست اعلیٰ وحید احمد کے مطابق یکم دسمبر سے کینو کی  ایکسپورٹ شروع ہوگئی ہے، پاکستان میں رواں سال کینو کی پیداوار اکیس لاکھ ٹن رہی ہے تاہم اس میں ایکسپورٹ کے معیار کے مطابق پیداوار بہت کم ہے 75فیصد پیداوار بی اور سی گریڈ کی ہے جسے ایکسپورٹ نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے کہا کہ کینو کے باغات ساٹھ سال پرانے ہیں جو بیماریوں اور موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے، پاکستانی کینو کی جلد پر داغ دھبوں اور نشانات کی بیماری عام ہے جس کی وجہ سے اس کی ظاہری خوبصورتی متاثر ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ ایکسپورٹرز نے یورپ کو کینو کی ایکسپورٹ پر از خود پابندی عائد کررکھی ہے۔

انہوں نے کہا کہ رواں سیزن کرونا کی وباء کی وجہ سے وٹامن سی سے بھرپور ترش پھلوں کی مانگ میں اضافہ دیکھا جارہا ہے اور پاکستان اس سے بھرپور فائدہ اٹھاسکتا ہے لیکن کینو کے معیار کے مسائل کی وجہ سے ان امکانات سے بھرپور فائدہ نہیں پہنچ رہا۔ وحید احمد کے مطابق پاکستان کی ترش پھلوں اور ویلیو ایڈڈ مصنوعات کی مجموعی برامدات پانچ سال میں ایک ارب ڈالر تک بڑھائی جاسکتی ہیں تاہم اس کے لیے ریسرچ اینڈ ڈیویلپمنٹ کے زریعے ترش پھلوں کی نئی ورائٹیاں کاشت کرنا ہوں گی، کینو کو بیماریوں سے پاک کرنا ہوگا اور کینو کی فی ایکڑ پیداوار بڑھاتے ہوئے نئے باغات لگانا ہوں گے تاہم پنجاب میں جو کینو کی پیداوار کا مرکز ہے۔ صوبائی محکمہ زراعت کی جانب سے کوئی توجہ نہیں دی گئی اسی طرح وفاقی حکومت نے بھی اٹھارہویں ترمیم کو جواز بناکر کینو کی صنعت کے مسائل کو نظر انداز کیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔