جمہوریت کے اسرار و رموز

ظہیر اختر بیدری  جمعـء 4 دسمبر 2020
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

پاکستان کا شمار بھی ایشیا کے جمہوری ملکوں میں ہوتا ہے، لیکن اس حوالے سے افسوسناک بات یہ ہے کہ پاکستان سمیت سیکڑوں ملکوں میں جمہوریت کے بورڈ تو لگے ہوتے ہیں لیکن اندر سے جمہوریت کا دور دور تک پتا نہیں ہے، تقریباً پسماندہ ملکوں کی اکثریت کا یہی حال ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ہمارے ملک میں شرح تعلیم کا اوسط انتہائی کم ہے جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ علم کی کمی کی وجہ سے عام آدمی جمہوری معیارات سے قطعی ناواقف ہوتا ہے، ہماری جمہوری اشرافیہ اتنی ماہر ہے کہ وہ جب چاہے جمہوریت کا استقبال کرتی نظر آئے گی اور جب چاہے اس کے  ہاتھوں میں آمرانہ جمہوریت کے پرچم لہرا رہے ہوتے ہیں۔ اس تضاد نے برصغیرکو جمہوری چوں چوں کا مربہ بنا کر چھوڑ دیا ہے، جس کا پورا پورا فائدہ جمہوریت کے چیمپئن اٹھا رہے ہیں۔

اصل میں ہمارا ملک ہی اکیلا نہیں بلکہ تقریباً تمام پسماندہ ملکوں کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ عام آدمی جمہوریت کے اسرار و رموز سے بالکل لاعلم ہے، اسے جمہوریت کا صرف اتنا مطلب یاد رہتا ہے کہ کہیں چار سال بعد کہیں پانچ سال بعد ووٹ ڈالے جاتے ہیں اسی کو جمہوریت کہتے ہیں۔

اصل میں ہماری اشرافیہ نے پوری توجہ کے ساتھ جمہوری بد دیانتی کے سارے کورس اعلیٰ درجوں میں پاس کر لیے ہیں جس کی وجہ سے اس گروہ کو کسی قسم کا کوئی خطرہ یا نقصان نظر نہیں آتا، سونے پر سہاگہ یہ کہ اشرافیہ زندگی کے ہر شعبے میں اس قدر ایکسپرٹ ہو گئی ہے کہ وہ بزنس سمیت ساری سیاست کے سارے گروں سے پوری طرح واقف ہے، یہی وجہ ہے کہ ہماری اشرافیہ نہ صرف پاکستان میں کرپشن کے سب سے اعلیٰ درجے پر فائز ہے بلکہ دنیا بھر میں جتنی اور جس قسم کی کرپشن جاری ہیں ان میں ہمارے ملک کی اشرافیہ اعلیٰ اور حساس جگہوں پر فائز ہے۔

اس حوالے سے اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہماری اشرافیہ نے سیاست کے میدان میں اتنی ٹرافیاں جیتی ہیں کہ اس اشرافیہ کو چار سو بیسیوں کا سرخیل مانا جاتا ہے۔ یہ سارے کھیل سرمایہ دارانہ نظام معیشت کے ایجاد کردہ ہیں اور اس کی تجرباتی فیلڈ کا عالم یہ ہے کہ زندگی کا کوئی شعبہ اشرافیہ کی مہارت سے خالی نہیں ہے۔ ہمارا کریو دوسرے ملکوں کے کریو یعنی سیاسی کریو سے سب سے آگے کھڑا رہتا ہے۔

یہ کتنی بڑی ٹریجڈی ہے کہ صبح اندھیرے میں مزدوری کے لیے اپنے گھروں سے باہر جانے والے دن بھر سخت دھوپ، سردی برداشت کرنے کے بعد جب وہ اپنی جھونپڑیوں کا رخ کرتے ہیں تو انھیں شام کی فکر ستاتی ہے اور چھوٹے چھوٹے بچے ان کے سامنے صورت سوال کھڑے رہتے ہیں۔ دوسری طرف مٹھی بھر ایلیٹ ہے جو ہاتھ پیر ہلائے بغیر اربوں روپوں کا مالک بن جاتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ معاشی نا انصافی کس کی پیدا کردہ ہے؟

عام طور پر اور پرچار یہی ہوتا ہے کہ یہ سب غریبوں کے کرتوتوں کا عمل ہے، یعنی گناہوں کی سزا ہے۔ گناہ ایک بہت برا لفظ ہے یہ کیسا ظلم ہے کہ اس قسم کے گناہ غریبوں کی قسمت کا حصہ بن گئے ہیں جس کی جزا غریب اور گنہگار طبقے کو قیامت کے دن ملے گی۔ ہماری آبادیوں کا 70 فیصد سے زیادہ حصہ دن کے چوبیس گھنٹوں میں بارہ گھنٹوں سے زیادہ اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کی جستجو میں لگا رہتا ہے۔ دراصل انسان کو جن ناکردہ گناہوں کی سزا مل رہی ہوتی ہے وہ ایجنٹوں کا بے بنیاد پروپیگنڈا ہوتا ہے  جو عوام کو ناکردہ گناہوں کے احساس میں مبتلا کر دیتا ہے۔

دوسری طرف کچھ لوگ غربت اور افلاس کو اپنا مقدر سمجھ کر ساری عمر اس سے نجات کی کوششوں میں مصروف رہتے ہیں۔ ایلیٹ نہیں چاہتی کہ غلطی سے بھی عوام کا ذہن،  ان ذمے داروں کی طرف نہ پھسل جائے جو دنیا کے اصل گناہگار ہیں ، یہ گناہوں کے بدلے کا کلچر ہی بننے نہیں دیتے اور انھیں سارا دن اس دھن میں لگا دیتے ہیں کہ وقت کم ہے اللہ سے اپنے ناکردہ گناہوں کی معافی مانگو اور اپنی عاقبت سنوارنے کی کوشش کرو۔

اس ظلم میں آبادی کے 80 فیصد سے زیادہ لوگوں کو دھکیل دیا گیا ہے اور ان بے چاروں کی زندگی کا 70 فیصد سے زیادہ حصہ اپنے ناکردہ گناہوں کے ذہنی عذاب میں گزر رہا ہے  اور اس کے علاوہ زندگی کا ایک بہت بڑا حصہ اس معافی تلافی میں گزار دیتے ہیں جس کا ارتکاب انھوں نے کیا ہی نہیں۔ یہ ایک ظلم ہے جس نے دنیا کے غریب اور نادار لوگوں کو جکڑ لیا ہے اور اس مضبوطی سے جکڑ لیا ہے کہ اس سے چھٹکارا ممکن نہیں نظر آتا۔ یہ سب تب ہی ممکن ہو گا جب غریب اور مفلوک الحال عوام زندگی کے تلخ حقائق سے نہ صرف آگاہ ہوں بلکہ صدیوں سے عذاب بن کر مسلط ہونے والی اشرافیہ سے نجات حاصل کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔