اہل و عیال کے ساتھ حسن سلوک

مولانا رضوان اللہ پشاوری  جمعـء 4 دسمبر 2020
حضورِ اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’تم میں سب سے بہتروہ ہے جو اپنے اہل خانہ کے لیے بھی بہتر ہو۔‘ فوٹو: فائل

حضورِ اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’تم میں سب سے بہتروہ ہے جو اپنے اہل خانہ کے لیے بھی بہتر ہو۔‘ فوٹو: فائل

رحمت عالم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: ’’تم میں بہترین آدمی وہ ہے جو اپنے اہل و عیال کے حق میں بہتر ہو اور میں اپنے اہل کے لیے تم میں سب سے زیادہ بہتر ہوں۔‘‘ (رواہ الترمذی) انسان کے لیے بہت بڑی مونس اس کی بیوی بھی ہے۔

انسان کا خمیر انس سے ہے اور انسیت اس کی فطرت میں شامل ہے، اس لیے ہر انسان کو اپنی اجتماعی زندگی کے علاوہ نجی زندگی میں بھی ایک ایسے مونس کی تلاش ہوتی ہے جس کے سامنے وہ اپنی داستانِ زندگی بیان کرسکے اور کرۂ ارض پر کسی بھی انسان کے لیے نیک بیوی سے بڑھ کر کوئی مونس نہیں۔ اﷲ رب العزت نے مرد کے لیے سب سے بڑا مونس اس کی بیوی کو بنایا، جیسا کہ ارشادِ باری سے واضح ہوتا ہے: ’’اس کی ایک نشانی یہ ہے کہ اس نے تمہارے لیے تم ہی میں سے بیویاں پیدا کیں، تاکہ تم ان کے پاس جاکر سکون حاصل کرو۔‘‘ (الروم)

جب یہ حقیقت ہے تو ایمان، اخلاق اور عقل کا تقاضا ہے کہ اس کے ساتھ حسنِ سلوک کیا جائے، اس کے بغیر انسان سکون و اطمینان حاصل کر بھی نہیں سکتا، کیوں کہ اس سے انسان خود بھی سکون پائے گا اور گھر کا ماحول بھی پرسکون رہے گا اور گھریلو زندگی اگر پرسکون ہے تو اس کا اثر بیرونی زندگی پر لازمی ہے اور گھریلو زندگی خوش گوار ہوگی بیوی کے ساتھ حسن سلوک، ادائے حقوق اور خوش اخلاقی کا معاملہ کرنے سے، اس لیے قرآن نے حکم دیا: ’’اور ان کے ساتھ بھلے انداز میں زندگی بسر کرو۔‘‘ (النساء)

گویا حق تعالیٰ شوہروں سے بیویوں کے ساتھ حسن سلوک کا حکم فرماتے ہیں۔ حضور ِاکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے اہل خانہ کے لیے بھی بہتر ہو۔‘‘ اہل خانہ سے آدمی کا جتنا واسطہ پڑتا ہے عموماً اتنا دوسروں سے نہیں پڑتا، پھر گھر والوں سے بسا اوقات خلافِ مزاج باتیں بھی پیش آتی ہیں، اب ایسے موقع پر (بہ شرط یہ کہ خلافِ مزاج بات خلافِ شرع نہ ہو) چشم پوشی اور خوش اخلاقی سے کام لیا، تو یہ اس کے بہترین ہونے کی دلیل ہے۔ جن کا سلوک باہر تو اچھا ہو مگر اہل خانہ کے ساتھ بُرا ہو، تو یہ ان کے بداخلاق ہونے کی دلیل ہے۔ حضور ﷺ نے بنیادی بات بیان فرما دی کہ تم میں بہترین فرد وہ ہے جو اپنے اہل خانہ کے لیے بہتر ہو۔ یہ حدیث بڑی جامع ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ہم مرد ہیں تو ہمیں چاہیے کہ ہم ماں باپ کے لیے اچھی اولاد، بہن کے لیے اچھے بھائی، بیوی کے لیے بہترین شوہر اور گھر والوں کے لیے اچھے فرد ثابت ہوں۔ یہی حال عورتوں کا بھی ہوکہ وہ اپنے ماں باپ کے لیے اچھی اولاد، بھائی کے لیے اچھی بہن، شوہر کے لیے اچھی بیوی اور گھر والوں کے لیے نیک عورت ثابت ہوں، اگر واقعی معاملہ ایسا ہے تو یہ ان کے اچھے اور نیک ہونے کی علامت ہے۔

شیخ عبدالقادر جیلانیؒ فرماتے ہیں: ’’اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کے نزدیک سب سے بہتر شوہر وہ ہے جو بیوی کی نظر میں بہتر ہو، اور سب سے بہتر بیوی وہ ہے جو شوہر کی نظر میں بہتر ہو۔‘‘

لقمانِ حکیمؒ نے فرمایا: ’’میں طویل تجربہ کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ سب سے بہتر دوا محبت و عزت ہے، کسی نے کہا: اگر یہ بھی اثر نہ کرے تو؟ فرمایا: دوا کی مقدار بڑھا دیں، اس کا فائدہ دونوں کو ہوگا۔‘‘

حضور ﷺ کا اپنے اہل خانہ سے سلوک:
حضور ﷺ نے فرمایا: ’’میں تم میں اپنے اہل کے لیے سب سے بہتر ہوں۔‘‘ آپؐ اپنے اہل بیتؓ اور اپنی تمام ازواجِ مطہراتؓ کے ساتھ حسن سلوک فرماتے، کبھی کسی کو ناراضی یا شکایت کا موقع نہ دیتے، بل کہ ہمیشہ ان کی دل جوئی کا خیال رکھتے تھے، جس کا نتیجہ یہ تھا کہ ہر بیوی یہ سمجھتی کہ حضور اکرم ﷺ کو دیگر ازواجِ سے زیادہ مجھ سے محبت ہے۔ جب مدینہ طیبہ میں ہوتے تو روزانہ عصر کے بعد تمام ازواجِ مطہراتؓ کے پاس تشریف لے جاتے اور ہر ایک کی ضرورت معلوم کر کے اس کی تکمیل فرماتے، گو آپؐ پر اس کی پابندی شرعاً لازم نہیں تھی، لیکن آپؐ اپنی جانب سے اس کا پورا اہتمام فرماتے۔ جب سفر پر روانہ ہوتے تو ازواج کے درمیان قرعہ اندازی فرماتے، جس کا نام نکل آتا اسے ساتھ لے جاتے، یہ بھی ازواج کی تالیف قلب کے لیے تھا۔ غرض سیرتِ رسول کریمؐ میں ازواجِ مطہراتؓ کی دل داری کے کئی واقعات ملتے ہیں۔

ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ رحمت دو عالم ﷺ باہر سے تشریف لائے، گھر کے صحن میں سیدہ عائشہ ؓ کو دیکھا کہ پیالہ سے پانی پی رہی ہیں، وہیں سے آپؐ نے ارشاد فرمایا: اے حمیرا! تھوڑا پانی میرے لیے بھی بچانا۔ غور فرمائیں! بیوی امتی ہیں، شوہر نبی ہیں، برکتیں نبی کی ذات کے ساتھ وابستہ ہوتی ہیں، مگر سبحان اﷲ! آپؐ اپنی رفیقۂ حیات کے بچے ہوئے پانی کو پینا چاہتے ہیں۔ آگے سنیے! جب سیدہ عائشہ ؓ نے کچھ پانی بچا کر خدمت اقدس میں پیش کیا تو نو ش فرمانے سے پہلے معلوم کیا: اے حمیرا ! تم نے اس پیالہ کے کس حصے سے لب لگا کر پانی پیا؟ تاکہ میں بھی اس جگہ سے پانی پیوں۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں پانی پیتی، یا ہڈی چوستی، پھر میں آپؐ کو دیتی تو آپؐ اسی مقام سے نوش فرماتے اور ہڈی سے گوشت نکال کر کھاتے جہاں سے میں پیتی یا کھاتی۔ (مسلم۔ شمائل کبری)

اگر خاوند اپنی بیوی کو اس طرح پیار دے، اس کے ساتھ اس قسم کا حسن سلوک اور دل جوئی کا معاملہ کرے تو ضرور وہ بھی محبت کا جواب محبت ہی سے دے گی، پہلے کوئی ابتداء تو کرے، اس لیے کہ عورت کی

فطرت میں یہ بات ہے کہ اس کے ساتھ محبت اور نرمی کا معاملہ کیا جائے تو وہ جان تک قربان کرسکتی ہے، لیکن اگر حقارت اور سختی کا معاملہ کیا جائے تو وہ اپنی جان تک گنوا دیتی ہے۔

جب حضور اکرم ﷺ اس قدر محبت کا معاملہ فرماتے تو جواباً سیدہ عائشہ ؓ بھی اسی قدر محبت کا معاملہ کرتیں، خود فرماتی ہیں کہ جب حضور اکرم ﷺ عشاء کے بعد میری باری میں گھر تشریف لاتے تو میں کبھی فرطِ محبت میں یہ اشعار پڑھتی، مفہوم: ’’ایک سورج تو ہمارا ہے، اور ایک سورج آسمان کا ہے، میرا سورج آسمان کے سورج سے بہتر ہے، کیوں کہ آسمان کا سورج تو فجر کے بعد طلوع ہوتا ہے، اور میرا سورج عشاء کے بعد طلوع ہوتا ہے، اور اس کی روشنی عشاء کے بعد بھی باقی رہتی ہے۔‘‘

حضور اکرم ﷺ کی پوری زندگی ساری امت او راس کے ہر فرد کے لیے نمونہ ہے۔ آپؐ امت کو بتلانا چاہتے تھے کہ اہل خانہ کے ساتھ اس طرح حسن سلوک کرنا چاہیے۔ آپؐ نے خود بھی ایسا کیا اور امت کو بھی اس طرف متوجہ فرمایا۔ اس شخص کے بارے میں جسے حضور ِاکرمؐ بہتر قرار دیں، اس سے زیادہ اچھا کون ہو سکتا ہے ؟ یہی کیا کم فضیلت کی سند ہے ؟

اﷲ تعالی ہمیں اسوۂ رسول کریم ﷺ پر کامل عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔