بس کچھ دن اور ٹھہر جاؤ

وسعت اللہ خان  ہفتہ 5 دسمبر 2020

پچھلے منگل کو جب میں سو کر اٹھا تو سر میں درد اور ہلکے بخار سے بدن میں کھچاؤ محسوس ہو رہا تھا۔ حالانکہ کراچی کا موسم اب بھی نیم سرد معتدل ہے مگر کپکپی سی محسوس ہو رہی تھی۔کھانسی نہیں تھی البتہ چھینکیں آ رہی تھیں۔ پہلا خیال آیا لو بھئی آج تم بھی چار لاکھ ایک نمبر شمار پاکستانی ہو گئے۔ بس دعا کرو کہ کل کہیں آٹھ ہزار دو سو گزر جانے والوں میں کوئی صفر نہ بن جاؤ۔

دماغ کا پروسیسر تیزی سے چلنے لگا۔ دوبچے تو پاؤں پر کھڑے ہو گئے ہیں۔ باقی دو اسکول میں ہیں ان کا بھی کچھ نہ کچھ ہو ہی جائے گا۔ کیا کروں بینک اکاؤنٹ بیوی کے نام ٹرانسفر کر دوں۔ ہو سکتا ہے اتنا وقت نہ ملے۔ تو پھر ایسا کرتا ہوں کہ چیک بک پر دستخط کر کے چھوڑ جاتا ہوں۔ اور یہ بھی لکھے دیتا ہوں کہ کس نے کتنے پیسے مجھے واپس کرنے ہیں اور مجھے کس کے کتنے پیسے دینے ہیں۔ بی بی سی میں کسے بتانا ہے اور ڈان نیوز اور ایکسپریس میں کسے فون کرنا ہے۔

اور یہ جو دو ڈھائی ہزار کتابیں جمع کر لی ہیں۔ ان کا کیا؟ آدھی تو پڑھی بھی نہیں۔ تو پھر یہ بھی لکھے دیتا ہوں کہ اگر یہ کتابیں بوجھ لگیں تو کسی کباڑی کو اونے پونے مت تھما دینا بلکہ کراچی یونیورسٹی کی لائبریری کو دے دینا۔

اور ہاں! دو جینز اور تین قمیضیں منظر ڈرائی کلین کو دھونے کے لیے دی ہیں۔ اور یاسین مستری کے پاس ایک پنکھا ریپیرنگ کے لیے پڑا ہے وہ اگلے سنیچر کو  لینا مت بھولنا۔

تو کیا اپنے ای میل اور فیس بک کا پاس ورڈ بھی  کاغذ پر لکھ دوں۔ پر گھر والوں کے کس کام کا۔ البتہ اگر شام تک طبیعت اور بگڑ گئی تو موبائل فون میں سے کچھ نمبر ضرور اڑا دوں گا۔ حالانکہ ضرورت تو نہیں مگر کیا فائدہ اگر میرے بعد کوئی ان نمبروں کے بارے میں الٹا سیدھا سوچے اور میں صفائی بھی نہ دے سکوں کہ بھئی یہ وہ والے نہیں ہیں پرستاروں کے نمبر ہیں ( اس جملے میں کوئی سے مراد بیوی ہے )۔

اچھا تو کہیں سنگل کالم خبر بھی چھپے گی یا صرف ایک دو چینلوں پر کچھ دیر کے لیے پٹی ہی چلے گی ؟ اور اگر اس دن پی ڈی ایم کا جلسہ ہوا یا وزیرِ اعظم نے کوئی مزید غیر معمولی بقراطی کر دی یا فردوس عاشق اعوان کی لائیو پریس کانفرنس شروع ہو گئی تو ممکنہ تعزیتی پٹی سے بھی گئے۔ گھر والوں کو چھوڑ کے کتنے دوستوں کو واقعی دکھ ہو گا؟ شائد چھ ، سات زیادہ سے زیادہ دس۔ باقی تو ریسٹ ان پیس کو بھی آر آئی پی لکھ کے آگے بڑھ جائیں گے اور ان کی تعداد سیکڑوں چھوڑ بیسیوں میں بھی ہو  تو سمجھوں گا مرنا رائیگاں نہیں گیا۔

اور کراچی پریس کلب میں ریفرنس ہو گا کیا؟ ہو گا پر شائد اتنی جلدی نہیں کیونکہ اب پریس کلب والے بھی سیانے ہو گئے ہیں۔ وہ انتظار کرتے ہیں کہ تین چار ممبر مر جائیں تو اجتماعی شادی کی طرح ایک ساتھ ہی تعزیتی جلسے میں نمٹا دیں۔ مقررین کلب انتظامیہ سے زیادہ سیانے ہیں۔ پرانی تعزیتی تقریر میں بس نام بدل دیتے ہیں۔ خوبیاں تو آپ کو معلوم ہی ہیں کہ ہر مرنے والے میں لگ بھگ ایک سی ہی پائی جاتی ہیں۔

چلو اچھا ہے لوگ وبا سے ڈرے ہوئے ہیں۔ صرف سات آٹھ لوگوں کو ہی آخری بار ساتھ جانے کی اجازت ملے گی۔ ویسے تو چارپائی اٹھانے کے لیے چار  بھی بہت  ہیں۔

یہ سب الم غلم سوچتے سوچتے بخار اور تیز ہو گیا تب میں نے اپنے پرانے شناسا ڈاکٹر بشیر کو فون کیا۔ انھوں نے نشانیاں پوچھیں؟ میں نے کہا بخار ہے، کپکپی ہے، چھینکیں بھی آئی ہیں ، کھانسی نہیں ہے۔کہنے لگے ابھی آ سکتے ہو؟ میں نے کہا ہاں ابھی چلنے کے قابل تو ہوں۔ میں ڈاکٹر بشیر کے پاس پہنچا۔ کہنے لگے ملیریا بھی ہو سکتا ہے۔ مانو تو کوویڈ ٹیسٹ بھی کروا لو ؟ ٹیسٹ ہوا۔ دو دن بعد رپورٹ آئی نیگیٹو۔ جسمانی کھچاؤ سے بچنے کے لیے پین کلرز لیے، آرام کیا۔ فی الحال ٹھیک ہوں مگر آج کل کسی بھی نیگیٹو کو پازیٹو ہوتے کتنی دیر لگتی ہے۔

پھونک پھونک کے قدم رکھنے سے بھی کیا ہو گا؟ اب یہ وہم دن میں کئی بار سامنے کھڑا ہو کے ناچتا ہے کہ میاں تجزیے باز اگر کسی دن کسی راہ چلتے کنگلے نے تمہارے پاس سے گزرتے چھینک دیا تو ؟

اسی کیفیت میں ایکسپریس کے لیے مندرجہ ذیل کالم بھی لکھ رہا ہوں۔ آپ بھی دیکھ لیجیے۔ عرض کیا ہے، ’’ایسے وقت جب جیون مہنگا اور موت سستی ہی ہوتی  چلی جا رہی ہے۔ ایسے سمے میں خود کو یا تمہیں نہ کوئی نصحیت کرنا چاہتا ہوں ، نہ حکم ، نہ وعظ ، نہ اپیل ، نہ خوامخواہ کا مشورہ دینا۔

میں نہ تو تمہیں دہشت کے دہانے پر دیکھنا چاہتا ہوں نہ کسی اچھی خبر کے خیالی تالاب میں ڈبکی لگوانے کا خواہش مند۔

تم رکوع میں جانا چاہتے ہو بھلے، پوجا کرنا چاہتے ہو کرو، سینے پر کراس بنانا چاہتے ہو بناؤ، کسی بے نام کو یاد کرنا چاہتے ہو کرو۔ مگر نہا دھو کر پاک صاف ہو کر۔ کہیں تمہاری اٹھے ہوئے بندھے ہوئے پھیلے ہوئے ہاتھوں کو وائرس نہ لگ جائے۔ کہیں یہ گندے ہاتھ پھانسی کا پھندہ نہ بن جائیں۔ بس تھوڑے ہی دنوں کی تو بات ہے۔

تم اپنے بچے کے لیے گھوڑا بننا چاہتے ہو بنو مگر ششش، کچھ دن رک جاؤ۔ ہنہناؤ ضرور لیکن پیٹھ پر مت بٹھانا، مت پکڑو ہاتھ اپنے محبوب کا، ٹھہر جاؤ ، ہوائی بوسہ آخر کب کام آئے گا، اشاروں کی زبان کس ساعت کے لیے ایجاد ہوئی تھی، یہی تو وقت ہے اپنے پیاروں کو آنکھوں سے گلے لگانے کا، فراغت سے فائدہ اٹھاؤ، نینوں سے چھٹی بھیجنا سیکھ لو اور ہونٹوں کو اظہار  کے بنئے کے پاس گروی رکھ دو۔ بس کچھ مہینوں کے لیے۔

یقیناً اس لمحے تم میں سے کسی کا کسی کو قتل کرنے کا جی چاہ رہا ہو گا، اچھا تو اغوا کرنا چاہتے ہو؟ چوری کا منصوبہ بنا رہے ہو؟ ڈاکہ ڈالنے کا من ہے، دھوکا دینے  کے لیے پر تول رہے ہو؟ کسی کو نیچا دکھانے کی سوچ رہے ہو؟ کمزور کا حق غصب کرنے کے لیے مچل رہے ہو؟ ہندو مسلم یا عربی عجمی، مشرقی و مغربی یا کالی گوری نفرتوں کو جگانے اور ہوا دینے کے لیے پھر سے بے کل ہو؟ بس کچھ دن ٹھہر جاؤ۔

میری بھلے مت مانو، سمے کی ہی مان لو اس سے پہلے کہ وہ خود کو تم سے منوا لے۔ جہاں اتنے دن ٹھہر گئے وہاں چند دن اور۔

مگر چند دن اور ہی کیوں؟ ہو سکتا ہے تم جس کے ساتھ جو بھی کرناچاہتے ہو وہ کوویڈ تمہارے لیے کر دے۔ بڑھا تب بھی، گھٹا تب بھی، رہا تب بھی، نہ رہا تب بھی۔‘‘

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیےbbcurdu.com پر کلک کیجیے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔