عمران خان کی غلط بیانیاں اور سیاسی خاندان

محمد عمران چوہدری  ہفتہ 5 دسمبر 2020
عمران خان نے سب کچھ جاننے کے باوجود قوم سے غلط بیانی کی۔  (فوٹو: انٹرنیٹ)

عمران خان نے سب کچھ جاننے کے باوجود قوم سے غلط بیانی کی۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ایک دفعہ کا ذکر ہے جہانگیر ترین 2013 کے الیکشن کے بعد خان صاحب کے پاس گئے اور کہا کہ ہمیں اگلا الیکشن جیتنا ہے تو جس طرح 2013 کا الیکشن لڑا اور ٹکٹ دیے، اس طرح الیکشن نہیں جیت سکتے۔ پنجاب میں ہمارے امیدوار ٹھیک نہیں اور جب تک پنجاب سے سیاسی خاندانوں کو نہیں لے کر آئیں گے آپ وزیراعظم نہیں بن سکتے۔ جہانگیر ترین کی یہ بات 2018 میں درست ثابت ہوئی، جب پی ٹی آئی نے پنجاب میں 67 سیٹیں جیتیں، جس میں 80 فیصد سیاسی خاندانوں کے لوگ تھے۔ ان جیتنے والے 80 فیصد میں سے 60 فیصد ایسے لوگ تھے جو 2013 کے بعد پارٹی میں آئے اور زیادہ تر کو وہ لے کر آئے۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ جہانگیر ترین بھی 2013 کے عام انتخابات میں دھاندلی کا ڈھول پیٹتے رہے۔ یاد رہے کہ موجودہ حکمران جماعت تحریک انصاف نے 2013 کے انتخابات میں دھاندلی کا دعویٰ کیا تھا اور ساتھ ہی پورے ملک کی سیاست میں طوفان برپا کیے رکھا تھا۔ تحریک انصاف نے 2013 کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی پر 2014 میں اسلام آباد کے ڈی چوک پر 126 روز تک دھرنا بھی دیا تھا۔

گزشتہ ہفتے تاریخ نے ایک بار پھر خود کو دہرایا، جب سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے انتہائی قریبی ساتھی اسحاق ڈار نے بی بی سی کے اسٹیفن سیکر کے سامنے 2018 کے الیکشن کی شفافیت پر سوالیہ نشان لگایا تو اسٹیفن سیکرنے انہیں یہ کہہ کر لاجواب کردیا کہ غیر جانبدار ذرائع کے مطابق 2018 کے الیکشن تقریباً شفاف تھے۔

یہ وہی الیکشن ہیں جن کے خلاف عوام کی جان کی پرواہ کیے بغیر جلسے، جلوس منعقد کیے جارہے ہیں۔ اداروں پر کیچڑ اچھالا جارہا ہے کہ انہوں نے ان الیکشن میں دھاندلی کروائی۔ اداروں کو بتایا جارہا ہے کہ اگر انہوں نے اپنا دامن صاف کروانا ہے تو اس جعلی حکومت (بقول ان کے) کو گھر کی راہ دکھائیں۔

اگر بی بی سی کے اسٹیفن سیکر اور عمران خان کے اہم ترین ساتھی جہانگیر ترین درست ہیں تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ حصول اقتدار کی اس دوڑ میں سب ایک ہیں۔ مسند اقتدار حاصل کرنے کےلیے یہ سب کچھ کرنے کےلیے تیار ہیں۔ 2013 کے انتخابات کے بعد عمران خان نے سب کچھ جاننے کے باوجود قوم سے غلط بیانی کی۔ انہوں نے ایک منتخب حکومت کے کام میں روڑے اٹکانے میں اپنی اور پارٹی کی توانیاں صرف کیں۔ انہوں نے ووٹ کی تضحیک کی اور ملکی ترقی کے بجائے ذاتی ترقی کو ترجیح دی۔ آپ نے پاک چائنا دوستی کے زیر سایہ پروان چڑھنے والے منصوبوں کی پرواہ تک نہ کی۔ آپ نے حصول اقتدار کی خاطر بجلی کے بل جلا کر عوام کو سول نافرمانی پر اکسایا اور عوام کےلیے مشکلات پیدا کیں۔ آپ کی ان کوششوں سے حکومت وقت کو سیکیورٹی کے نام پر کروڑوں روپے خرچ کرنے پڑے۔

اب یہی مشق ماضی کی حکمران جماعت دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر دہرا رہی ہے۔ یہ معلوم ہونے کے باوجود کہ الیکشن درست تھے۔ اس حقیقت کے ادراک کے باوجود کہ جلسے جلوسوں، لوگوں کے اجتماع سے کورونا پھیل سکتا ہے۔ یہ ادراک ہونے کے باوجود کہ ان حرکتوں سے حکومت وقت کی توجہ تعمیری کاموں سے ہٹ جائے گی، اور بالاخر ملک کا نقصان ہوگا۔ یہ جاننے کے باوجود کہ عوام جو بیچارے پہلے ہی مہنگائی، لاقانونیت، بے روزگاری، غربت، بھوک، افلاس اور دیگر مسائل کے ہاتھوں بری طرح تنگ ہیں، ان کی مشکلات ان جلسے، جلوسوں اور گرماگرم بیانات سے حل نہیں ہوں گی۔ اپوزیشن صرف اور صرف حصول اقتدار کی خاطر یہ مشق جاری رکھے ہوئے ہے۔ کیونکہ ہم نہیں تو تم بھی نہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام کو بیوقوف بنانے کا دہائیوں سے جاری عمل اب بند کیا جائے۔ الزامات کے بجائے تعمیری سیاست کو فروغ دیا جائے۔ کیونکہ آج کے اس جدید دور میں آج نہیں تو کل حقیقت چھپ نہیں سکتی۔ عوام کو بھی چاہیے اسٹیفن سیکر اور جہانگیر ترین کا شکریہ ادا کرنے کے ساتھ ایسے لوگوں کا انتخاب کیا جائے جو واقعی اس منصب کے اہل ہوں، جو ووٹ کو عزت دے سکیں، نہ کہ ووٹ کو نوٹ کے بدلے بیچ دیں۔ بصورت دیگر چہرے تو بدل جائیں گے لیکن نظام نہیں بدلے گا۔

اور ایک آخری بات کہ ہمیں اگر کوئی سیاست دان، کوئی پارٹی ناپسند ہے تو الیکشن سے پہلے ہم اپنی پوری طاقت صرف کرلیں کہ وہ اقتدار میں نہ آسکے لیکن جب اقتدار میں آجائے تو اسے کام کرنے دیا جائے، نہ کہ تنقید برائے تنقید کرکے اس کا ناطقہ بند کردیا جائے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

محمد عمران چوہدری

محمد عمران چوہدری

بلاگر پنجاب کالج سے کامرس گریجویٹ ہونے کے علاوہ کمپیوٹر سائنس اور ای ایچ ایس سرٹیفکیٹ ہولڈر جبکہ سیفٹی آفیسر میں ڈپلوما ہولڈر ہیں اور ایک ملٹی اسکلڈ پروفیشنل ہیں؛ آپ کوچہ صحافت کے پرانے مکین بھی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔