بے نظیر بھٹو کی شہادت؛ ایک غم ہے کہ کم نہیں ہوتا

رضوان طاہر مبین  جمعـء 27 دسمبر 2013
اسکاٹ لینڈ یارڈ سے عدالتی کارروائیوں تک قاتلوں کا تعاقب کرتی تحقیقات کا احوال۔  فوٹو : فائل

اسکاٹ لینڈ یارڈ سے عدالتی کارروائیوں تک قاتلوں کا تعاقب کرتی تحقیقات کا احوال۔ فوٹو : فائل

27 دسمبر 2007ء کا سورج پاکستان کے افق پر طلوع ہوا تو کوئی نہیں جانتا تھا کہ یہ سورج اپنے ساتھ پاکستان کے لیے دکھ اور بدقسمتی کے اندھیرے لایا ہے۔

اس روز ڈھلتے دن کی کرنیں بے نظیر بھٹو کے خون میں نہا کر اندھیروں میں گُم ہو گئیں۔ مسلم دنیا کی پہلی منتخب خاتون حکم راں ہونے کا اعزاز رکھنے اور دو مرتبہ پاکستان کی وزیراعظم منتخب ہونے والی بے نظیر بھٹو ان چند شخصیات میں سے تھیں جو بیرون ملک پاکستان کی شناخت بنیں۔ ان کی ذہانت، جرأت اور آمریت کے خلاف جدوجہد کی بنا پر انھیں دنیا بھر میں احترام سے دیکھا جاتا تھا اور پاکستانیوں کی ایک بہت بڑی تعداد کی وہ غیرمتنازع راہ نما تھیں۔ اتنی اہم شخصیت کو قتل کر دیا گیا، مگر قاتلوں کی گرفتاری تو دور کی بات، اب تک ان کی وجہِ موت کا تعین بھی نہیں ہو سکا ہے۔ آئیے، بے نظیر بھٹو کی برسی کے موقع پر ان کے قتل کی تحقیقاتی کارروائیوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

2007ء کے آخری ایام میں ملک کی پہلی خاتون وزیراعظم کے قتل کے بعد سے ہنوز تحقیقاتی کارروائیاں جاری ہیں اور کوئی نہیں جانتا قاتل کون ہے۔ واقعے کے بعد 2008ء میں پولیس نے پہلے کم عمر ملزم اعتزاز شاہ کو حراست میں لیا۔ اس کے اقبالی بیان کی روشنی میں رفاقت، حسنین، عبدالرشید اور شیر زمان کو گرفتار کیا گیا اور ان سے بھی اقبالی بیان لیا گیا۔

راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نمبر ایک میں ان پر فرد جرم عاید کی گئی۔ ملزم اعتزاز شاہ سے طالبان کمانڈر بیت اﷲ محسود کی ٹیلی فونک گفتگو کی تصدیق کا دعویٰ بھی سامنے آیا۔ بعدازاں اس وقت کی حکومت نے اس قتل کی تحقیقات برطانوی تحقیقاتی ادارے اسکاٹ لینڈ یارڈ سے کرائیں، جب کہ پاکستان پیپلزپارٹی اقوام متحدہ سے اس سانحے کی تحقیقات کا مطالبہ کرتی رہی۔ 2008ء میں انتخابات کے نتیجے میں پیپلزپارٹی کی حکومت برسر اقتدار آئی تو اس نے 22 مئی 2008ء کو بے نظیربھٹو کے قتل کی تحقیقات اقوام متحدہ سے کرانے کا اعلان کیا۔

٭وجہ موت کا معما
سانحہ لیاقت باغ کے بعد جنرل اسپتال میں میڈیکل کالج کے پرنسپل ڈاکٹر مصدق کی سربراہی میں ٹیم نے بے نظیر بھٹو کا معائنہ کیا۔ اس وقت بتایا گیا کہ ان کی موت سر پر گولی لگنے سے ہوئی، مگر اگلے روز ہی ہنگامی پریس کانفرنس میں یہ موقف اختیار کیا گیا کہ ان کی موت گولی سے نہیں، بلکہ سر پر کوئی سخت چیز لگنے سے ہوئی۔

رات کے بیان کے برخلاف موقف پر انہوں نے ہاتھ جوڑ کر مزید سوالات کرنے سے منع کیا۔ 4 جنوری 2008ء تا 8 فروری 2008ء اسکاٹ لینڈ یارڈ کی ٹیم نے اس قتل کی تحقیقات کیں، جس کے مطابق ان کی موت دھماکے سے ہوئی اور نہ ہی گولی لگنے سے بلکہ دھماکے کے دوران ان کا سر کسی چیز سے ٹکرایا، جو موت کا سبب بنا۔ پیپلزپارٹی نے اسکاٹ لینڈ یارڈ کی رپورٹ مسترد کر دی۔ 29 ستمبر 2012ء کو بم ڈسپوزل اسکواڈ کے کمانڈر محمد ثقلین نے عدالت کو بتایا کہ بے نظیر کی موت گولی سے نہیں خودکُش دھماکے سے ہوئی۔

٭بیت اﷲ محسود پر الزام

ابتدا سے ہی بے نظیر کے قتل کا الزام کالعدم تحریک طالبان کے اس وقت کے امیر بیت اﷲ محسود پر عاید کیا گیا۔ 18 مارچ 2008ء کو انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے سانحہ لیاقت باغ میں بیت اللہ محسود کو اشتہاری ملزم قرار دے دیا گیا۔ اگست 2009ء کو امریکی جاسوس طیارے کے حملے میں کالعدم تحریک طالبان کا امیر بیت اﷲ محسود ہلاک ہو گیا۔

٭اقوام متحدہ کی رپورٹ
بے نظیر قتل کے حوالے سے اقوام متحدہ کے کمیشن کی رپورٹ 15 اپریل 2010ء کو جاری ہوئی، جس کے مطابق اس وقت کی حکومت بے نظیر کے تحفظ میں ناکام رہی۔ دوسری طرف پیپلزپارٹی کی جانب سے بھی ان کا حفاظتی بندوبست ناقص تھا۔ سیکیوریٹی انچارج میجر امتیاز نے بھی غفلت برتی، سی پی او راولپنڈی سعود عزیز نے بھی اپنے فرائض انجام نہیں دیے۔ کمیشن کے سربراہ ہیرالڈو منوز نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا کام حقائق کی چھان بین کرنا تھا۔ اس کے لیے 250 افراد کے انٹرویو کیے گئے اور دستاویزات کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔

ساتھ ہی کمیشن نے کہا کہ یہ بات ناقابل یقین ہے کہ گرفتار کیا گیا نوعمر لڑکا قتل کی منصوبہ بندی اور تمام وسائل کا بندوبست کرے۔ کمیشن نے کہا کہ یہ سوال بھی اہمیت رکھتا ہے کہ لاش کا پوسٹ مارٹم کیوں نہیں کرایا گیا؟ کمیشن نے کہا کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ موجودہ حکومت نے بھی قتل کی موثر تحقیقات نہیں کیں۔ ہماری جانچ کے باوجود اس کی پاکستان کے اندر فوجداری تحقیقات ہونی چاہییں۔ اس بات کے کوئی شواہد نہیں کہ ان کے قتل میں ان کے خاندان کا کوئی فرد ملوث ہے۔

٭ پیپلزپارٹی کا ردعمل
اقوام متحدہ کمیشن کی رپورٹ جاری ہونے کے بعد 23 جولائی 2010ء کو صدر زرداری نے کہا کہ اقوام متحدہ نے اپنی رپورٹ عجلت میں جاری کی۔ بے نظیر کے قتل میں اسٹیبلشمنٹ ملوث نہیں، بلکہ انہیں طالبان کی سوچ رکھنے والوں نے قتل کیا۔ 2010ء میں بے نظیر کی تیسری برسی پر آصف زرداری نے کہا کہ ہم نے اقوام متحدہ کی رپورٹ پر تحفظات کا اظہار کیا ہے، ہمیں اس پر اعتماد نہیں۔ اس کے ساتھ انہوں نے پرویز مشرف پر بے نظیر کو تحفظ نہ دینے کا الزام لگایا۔

٭رپورٹ کے بعد کارروائی
17 اپریل 2010ء کو اقوام متحدہ کی رپورٹ کے بعد پرویز مشرف سمیت تمام ذمہ داران کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا گیا، اس ضمن میں 18 اپریل 2010ء کو 9 افراد کے بیرون ملک جانے پر پابندی لگا دی گئی، جن میں سابق سربراہ آئی ایس آئی جنرل (ر) حمید گل، سابق سیکریٹری داخلہ کمال شاہ، سابق ڈی آئی جی اعجاز شاہ، سابق ڈی پی او راولپنڈی سعود عزیز، ڈی سی او راولپنڈی عرفان الٰہی، ڈی آئی جی عبدالحمید مروت، سابق ایس پی آپریشن یٰسین فاروق، ایس پی خرم شہزاد اور ایس پی اشفاق انور شامل تھے۔ سعود عزیز اور دیگر افسران کی تنزلی کی گئی اور کچھ کو کام سے بھی روکا گیا۔

٭جائے حادثہ دھونے کا ماجرا
کسی حادثے یا دہشت گردی کے بعد تحقیقات کے لیے جائے وقوعہ خاصے شواہد فراہم کرتی ہے۔ اس لیے اسے جوں کا توں چھوڑدیا جاتا ہے۔ تفتیش کار اس کی مدد سے بہت سے ثبوت حاصل کرتے ہیں، لیکن بے نظیر کے قتل کے بعد حیرت انگیز طور پر جائے وقوعہ کو پانی سے دھو کر صاف کر دیا گیا۔ قانون کی نگاہ میں ایسا کرنا بھی جرم ہے اور اس طرح کسی واردات کے ثبوت ضایع کرنے والے کو عمر قید تک کی سزا ہوسکتی ہے۔ بے نظیر قتل کیس میں 24 اپریل 2010ء کو جائے حادثہ دھونے کی تحقیقاتی کمیٹی قائم کر دی گئی، سعود عزیز پر الزام تھا کہ انہوں نے اس وقت کے ڈی پی او کی حیثیت سے ڈائریکٹر جنرل ملٹری انٹیلی جنس میجر جنرل ندیم اعجاز کے حکم پر جائے حادثہ کو دھویا، لیکن ایسا کوئی تحریری ثبوت نہ مل سکا۔

٭ ایف آئی اے کی جانچ
25 مئی 2010ء کو ڈائریکٹر ایف آئی اے خالد قریشی کی قیادت میں بے نظیر قتل کی ازسرنو تحقیقات کی گئیں، جن میں پنڈی پولیس کے 3 افسران کو بھی نام زَد کیا گیا۔ ان میں ایس ایس پی خرم اشتیاق، ایس پی اشفاق احمد اور اس وقت کے تھانہ سٹی کے ایس ایچ او کاشف ریاض کو قصوروار قرار دیتے ہوئے الزام لگایا کہ یہ لوگ قانونی طور پر واقعے میں مرنے والوں کا پوسٹ مارٹم کرانے کے پابند تھے۔ ایس پی اشفاق احمد اس روز ڈیوٹی دینے کے بہ جائے بغیر اطلاع اپنی فورس کے ساتھ ہائی وے چلے گئے۔

انہوں نے جرم چھپانے کے لیے رپورٹ بھی تبدیل کی۔ اسی طرح ایس پی خرم کو جائے حادثہ دھونے کا ذمہ دار قرار دیا گیا۔ مرکزی ملزم بیت اﷲ محسود کو قرار دیا اور بتایا گیا کہ سازش اکوڑہ خٹک میں تیار کی گئی۔ اس کے ساتھ پانچوں ملزمان اعتزاز شاہ، شیر زمان، عبدالرشید، رفاقت حسین اور حسنین گل کو بھی حقیقی ملزم قرار دیا گیا۔ امریکا سے کرائے گئے ڈی این اے کے مطابق جوتے، چادر اور ٹوپی خود کش بمبار کی قرار دی گئیں۔ یہ نیا عبوری چلان26 مئی 2010ء کو عدالت میں جمع کرا دیا گیا۔

٭پولیس افسران اور دیگر ملزمان
13 دسمبر 2010ء کو ایف آئی اے کی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم نے اس وقت کے سی پی او سعود عزیز اور ایس پی خرم شہزاد کو باقاعدہ شامل تفتیش کر لیا۔ 22 دسمبر 2010ء کو دونوں کی عبوری ضمانتیں منسوخ کر دیں اور انہیں کمرۂ عدالت سے گرفتار کر لیا گیا۔ ان کے خلاف نئے چالان میں اعانت جرم، تحفظ فراہم نہ کرنے اور مجرمانہ سازش ودیگر الزام عاید کیے گئے۔

7 اپریل 2011ء کو مقدمے کے دو ملزمان خرم شہزاد اور سعود عزیز ضمانت پر رہا ہو گئے۔ 15 اکتوبر 2011ء کو ان کی بریت کی درخواستیں مسترد ہوئیں۔ 5 نومبر 2011ء کو سی پی او سعود عزیز اور اسی پی راول ٹاؤن خرم شہزاد سمیت پانچ ملزمان اعتزاز شاہ، شیرزمان، رفاقت، حسنین گل، اور عبدالرشید ترابی پر فرد جرم عاید کر دی گئی۔

٭پرویزمشرف پر الزامات
7 فروری 2011ء کو پرویزمشرف کو پہلی بار بے نظیر قتل کے مقدمے میں ملزمان کی فہرست میں شامل کر کے مفرور قرار دیا گیا اور 12 فروری کو ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے گئے۔ اسی دن جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کی سربراہی بھی بدلی گئی اور ڈائریکٹر ایف آئی اے خالد قریشی کی جگہ واجد ضیا کو ذمہ داریاں سونپی گئیں۔ 19 فروری 2011ء کو دوبارہ وارنٹ جاری کیے اور لندن سے گرفتار کر کے پیش کرنے کا حکم دیا۔ 5 مارچ کو تیسری بار وارنٹ جاری ہوئے، پھر 26 مارچ کو انٹرپول کے ذریعے گرفتاری کے لیے 2 اپریل تک کی مہلت دی گئی، لیکن 8 اپریل 2011ء کو بتایا گیا کہ دونوں ممالک میں ملزمان کی حوالگی کا کوئی معاہدہ موجود نہیں۔ اس لیے برطانیہ نے وارنٹ گرفتاری پر عمل سے معذوری ظاہر کردی۔

30 مئی 2011ء کو پرویز مشرف کو اشتہاری قرار دے دیا گیا۔ 27 اگست 2011ء کو پرویزمشرف کی تمام جائیداد ضبط کر لی گئی اور کھاتے منجمد کر دیے گئے۔ تاہم وہ 24 مارچ 2013ء کو وطن واپسی سے قبل ضمانتیں کروانے میں کام یاب ہو گئے۔ 24 اپریل 2013ء کو پرویز مشرف کو اس مقدمے میں بھی گرفتار کر لیا گیا۔ 26 اپریل 2013ء کو پرویزمشرف کا جسمانی ریمانڈ دے دیا گیا، جس کے بعد کی جانے والی تفتیش میں پرویز مشرف نے کسی بھی دھمکی کے الزام کو رد کیا۔ یہ سوال امریکی شہری مارک سیگل کو وقوعے سے کچھ عرصہ قبل لکھے گئے خط کی بنیاد پر کیا گیا، مقدمے کے سرکاری وکیل چوہدری ذوالفقار کے مطابق اس خط میں بے نظیر بھٹو نے کہا تھا کہ اْنہیں سابق آرمی چیف پرویزمشرف سے جان کا خطرہ ہے۔

29 اپریل 2013ء کو پرویزمشرف نے الزام لگایا کہ بے نظیر کا قتل رحمٰن ملک کی غفلت سے ہوا۔ ان سے اب تک کوئی سوال کیوں نہیں پوچھا گیا۔ 21 مئی 2013ء کر پرویز مشرف ایک بار پھر ضمانت کروانے میں کام یاب ہو گئے، تاہم 20 اگست 2013ء کو ان سمیت سات ملزمان پر فرد جرم عاید کر دی گئی۔ 8 دسمبر 2013ء کی ایک خبر کے مطابق پرویزمشرف کے خلاف تفتیشی ٹیم نے وزارت داخلہ کے سابق ترجمان بریگیڈیر (ر) جاوید اقبال چیمہ، سابق ڈی جی آئی بی بریگیڈیر (ر) اعجاز شاہ، سابق سیکریٹری داخلہ سید کمال شاہ، دو امریکی صحافی مارک سیگل اور رون سسکنڈ کو اہم گواہ بنایا تھا۔ اب ان سب نے سابق صدر کے خلاف بطور گواہ پیش ہونے سے معذرت کر لی ہے۔

٭پیروی کرنے والے وکیل کا قتل
3 مئی 2013 ء کو بے نظیر قتل کیس میں ایف آئی اے کے پراسیکیوٹر چوہدری ذوالفقار کو اسلام آباد میں نامعلوم افراد نے قتل کر دیا۔ جب سے انہوں نے بطور سرکاری وکیل مقدمے کی پیروی شروع کی تھی، انہیں دھمکیاں مل رہی تھیں۔ وہ ماضی قریب میں مختلف اہم مقدمات کی پیروی کرتے رہے، اس لیے تعین کرنا مشکل ہے کہ انہیں کن قوتوں نے نشانہ بنایا۔

٭ازسرنو سماعت
یکم اپریل 2013ء کو انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کی آمد کے بعد بے نظیر قتل کیس کی ازسرنو سماعت کا فیصلہ کیا۔ جس سے اس وقت تک کے محفوظ کیے جانے والے 25 گواہان کے بیانات غیر موثر ہو گئے۔

4 ستمبر 2013ء کو پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کی طرف سے قتل کیس کی دوبارہ سماعت باقاعدہ چیلینج کی گئی، جو یکم اکتوبر 2013ء کو خارج کر دی گئی اور یوں 22 اکتوبر 2013ء کو ازسر نو اس مقدمے کی سماعت شروع ہوئی۔ 14 دسمبر 2013ء کو ہونے والی سماعت کے موقع پر ایک گواہ اور ایک ڈاکٹر کا بیان قلم بند کیا گیا، جس کے بعد سماعت 4 جنوری 2014ء تک ملتوی کر دی گئی ہے۔

٭ ہیرالڈ ومنوز کیا کہتے ہیں۔۔۔
بے نظیر قتل کیس کی جانچ کرنے والے اقوام متحدہ کے کمیشن کے سربراہ اور اقوام متحدہ کے اسسٹنٹ سیکریٹری جنرل ہیرالڈو منوز کا تعلق جنوبی امریکا کے ملک چلی سے ہے۔ انہوں نے رواں برس منظر عام پر آنے والی اپنی کتاب میں انکشاف کیا ہے کہ بے نظیر کے قریبی ساتھیوں نے بھی ان کے قاتلوں کا پتا لگانے میں دل چسپی نہیں لی، جس کے باعث ابھی تک قاتل سامنے نہ آ سکے۔ ان کے قتل کے سب سے زیادہ وہ ذمہ دار ہیں جو ان کی حفاظت کا ذمہ لیے ہوئے تھے۔

گیٹنگ اوے وِد مرڈر: بے نظیر بھٹوز اسیسینیشن اینڈ پالیٹکس آف پاکستان (getting away with murder benazir bhutto’s assassination and the politics of pakistan) نامی کتاب میں آصف زرداری کے ملوث ہونے کے امکان کو مسترد کیا گیا ہے۔ مصنف کا کہنا ہے کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے بعض لوگ بے نظیر کو راستے سے ہٹانا چاہتے تھے۔

پولیس نے بھی حقائق سے چشم پوشی کی۔ اس وقت کے وزیرداخلہ رحمٰن ملک نے کمیشن کے کسی سوال کا واضح جواب نہیں دیا۔ اپنے ایک مضمون میں انہوں نے خفیہ اداروں پر شواہد ضایع کرنے کا شبہہ برقرار رکھا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ قتل کی تحقیقات کے سلسلے میں انہیں آرمی چیف اور آئی ایس آئی چیف سے ملنے میں شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔

٭ ’’ہم قاتلوں کو جانتے ہیں!‘‘
بے نظیر کے قتل کے بعد پیپلزپارٹی کی جانب سے متعدد بار واضح طور پر اعلان کیا جاتا رہا کہ ’’ہم قاتلوں کو جانتے ہیں!‘‘ 27 دسمبر 2008ء کو بے نظیر کی پہلی برسی پر آصف زرداری نے یہ دعویٰ کیا کہ وہ قاتلوں کو جانتے ہیں، لیکن چاہتے ہیں کہ اقوام متحدہ کی تحقیقات کے ذریعے بے نقاب کیا جائے۔

27 دسمبر 2010ء کو رحمٰن ملک نے کہا کہ تحقیقات مکمل ہو چکیں اور قاتلوں کا پتا چل گیا۔ رپورٹ پارٹی کی مجلس عاملہ کے اجلاس میں پیش کی جائے گی۔ ہمیں پتا ہے قاتل کون ہے، انہیں کس نے اور کس کے ذریعے قتل کرایا۔ رپورٹ صدر نے دیکھ لی پانچ سے سات روز میں عوام کے سامنے پیش کر دیں گے۔

31 دسمبر 2010ء کو ایک انگریزی اخبار نے سرکاری ذرایع کے حوالے سے انکشاف کیا کہ یہ رپورٹ صدر نے مجلس عاملہ کے اجلاس میں پیش کرنے سے روک دیا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق قتل کا منصوبہ 9 افراد نے مل کر ایک بریگیڈیر کے گھر بنایا اور ان نو میں سے چار لوگ مر چکے ہیں۔

اس رپورٹ میں بیت اﷲ محسود کے کردار کو بھی تسلیم کیا گیا ہے۔ تاہم اگلے روز رحمٰن ملک نے اس کی تردید کی۔ 19 نومبر 2011ء کو رحمٰن ملک نے کہا کہ بے نظیر کے قتل میں پرویزمشرف کے علاوہ دیگر عناصر بھی ملوث ہیں۔ ہمارے پاس شواہد ہیں کہ قتل کی منصوبہ بندی کہاں کی گئی اور قاتل کن گاڑیوں میں آئے اور کس نے ان کا استقبال کیا۔ ہم قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچائیں گے۔ پارٹی نے فیصلہ کیا تو تمام سازش بے نقاب کردیں گے اور قاتلوں کو قوم کے سامنے پیش کریں گے۔

٭سات ملزمان مارے گئے، آٹھ نام زَد ہیں
اس وقت مقدمے میں آٹھ ملزمان نام زَد ہیں جن میں سے پرویزمشرف، سابق ڈی آئی جی سعود عزیز، اور ایس پی خرم شہزاد ضمانت پر ہیں، جب کہ باقی پانچ اعتزاز شاہ، شیر زمان، رفاقت، حسنین اور رشید ترابی پونے چھ سال سے اڈیالہ جیل میں مقید ہیں۔ اس مقدمے میں اشتہاری قرار دیے گئے سا ملزمان ڈرون حملوں یا دیگر واقعات میں مارے جاچکے ہیں، جن میں بیت اﷲ محسود، خودکُش بمبار اکرام اﷲ، عبادالرحمٰن، عبداﷲ، فیض محمد کسکٹ، نصر اﷲ اور نادر شامل ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔