فوڈ گروپ کی درآمدات میں اضافہ

ایم آئی خلیل  پير 7 دسمبر 2020

پاکستان کو دنیا کا بہترین زرعی ملک قرار دیا جاتا ہے۔ یہاں کا نہری نظام بھی دنیا کی نظروں میں اپنی مثال آپ ہے۔ جو بارانی علاقے ہیں وہاں قدرت کی طرف سے ایک نظام چل رہا ہے۔ کسان سخت محنت کرتا ہے۔ زمین میں ہل چلا کر بیج بو دیتا ہے۔ اپنا پسینہ خشک کرنے سے پہلے آسمان کی جانب نگاہیں بلند کرتا ہے۔

دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتا ہے۔ بارش مانگنے کے لیے اس کے لب ہلتے ہیں۔ اللہ کے حکم سے حضرت میکائیل علیہ السلام ٹھیک وقت پر اس کی فصل کو بارش کے پانی سے سیراب کردیتے ہیں۔ پھر تو خوب فصل ہوتی ہے۔ کہیں گندم کے ڈھیر لگتے ہیں اور مونگ پھلی جسے بارانی علاقے کے کاشتکار سونے کی ڈلی بھی قرار دیتے ہیں۔ ان کے ڈھیر لگتے چلے جاتے ہیں، کچھ حصہ بانٹ دیتے ہیں، کچھ حصہ ادھار کھاتے میں چکا دیتے ہیں، پھر باقی پیداوار چاہے گندم ہو، مونگ پھلی ہو جو ستّو بنانے کے لیے یا چنے کی فصل یا دال وغیرہ منڈی میں لا کر فروخت کردیتے ہیں۔

دال کے حوالے سے یہ کہاوت زدعام ہے کہ ’’یہ منہ اور مسور کی دال‘‘ زرعی ملک ہونے کے باوجود ہم لاکھوں ٹن دال درآمد کرتے ہیں جس کے باعث فوڈ گروپ کا درآمدی بل کی مالیت میں اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے۔ صرف 4 ماہ یعنی جولائی تا اکتوبر 20 کے دوران پونے چار لاکھ میٹرک ٹن کی دالوں وغیرہ پر 30 ارب روپے خرچ کیے جا چکے ہیں۔

جو گزشتہ مالی سال کے اسی مدت کے مقابلے میں بہ لحاظ مقدار 16 فیصد اور بہ لحاظ مالیت روپے میں تقریباً 23 فیصد زائد ہے۔ ایک زرعی ملک ہونے کے ناتے دالوں کی پیداوار میں اس لیے اضافہ کرنا ضروری ہے کہ ملکی کھپت بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔

سال 2019-20 کے دوران 12 لاکھ 11ہزار میٹرک ٹن دالیں وغیرہ درآمد کرکے 97ارب 38 کروڑ روپے خرچ کیے گئے۔ رواں مالی سال کے دوران یہ اخراجات ایک کھرب روپے سے بھی زائد ہو چکے ہوں گے، جب کہ مالی سال 2018-19 کے دوران دالوں کی درآمدی مقدار تھی 9 لاکھ 77 ہزار میٹرک ٹن۔ ایک سال میں 2 لاکھ 33ہزار میٹرک ٹن سے زائد کا اضافہ جب کہ پیداواری گنجائش بہت زیادہ ہے۔ لیکن بات ترجیح کی بھی ہے اور توجہ کے ساتھ بہترین زرعی منصوبہ بندی کی بھی ہے۔ اگر زیر کاشت رقبے میں اضافہ نہیں بھی کیا جاتا لیکن دنیا کے دیگر ملکوں میں فی ایکڑ پیداوار پاکستان سے بہت زیادہ ہے۔ اس پر توجہ دے کر پیداوار میں اضافہ کر لیتے تو ایسی صورت میں درآمدات میں اضافہ نہ ہوتا۔

مہنگائی میں اضافے کے ساتھ ساتھ اب دالوں کی اہمیت سے انکار نہیں کرسکتے۔ اب دالوں کی مختلف اقسام کی ڈشیں بنا کر شادی بیاہ کے مواقعے پر پیش کی جاتی ہیں۔ اب دالوں کی قیمت بھی اتنی بڑھ گئی ہے کہ یہ کہنا درست ہوگیا کہ ’’گھر کی مرغی، دال برابر‘‘۔ اب دال پکانے کی فرمائش امیر افراد اپنے باورچیوں سے بھی کرنے لگے ہیں۔ جیسے غدر کے بعد ایک نواب نے شاہی باورچی سے کہہ دیا تھا کہ ٹھیک ہے پھر مسور کی دال پکا کر کھلاؤ۔ یہاں یہ کہا جاتا ہے کہ دہلی سلطنت کا چراغ جب ٹمٹما رہا تھا تو حالات سے تنگ آکر ایک شاہی باورچی نے کسی علاقے کے نواب کی ملازمت اختیار کرلی۔

نواب صاحب نے پوچھا۔ کیا چیز اچھی پکا لیتے ہیں۔ کہا: مسور کی دال، لہٰذا شاہی باورچی نے خزانے سے رقم لے کر مسور کی دال پکائی اور کھانے کے وقت جیسے ہی طشتری میں نکال کر پیش کی اس کی زبردست مہک نے ہر کسی کو متاثر کیا۔ نواب صاحب تو عش عش کر اٹھے۔ پیٹ بھر کے کھایا بھی اور انگلیاں چاٹتے ہوئے خیال آیا کہ آخر رقم کتنی لگی ہوگی۔ پوچھا تو باورچی نے جواب دیا کہ دو آنے کی دال اور 32 روپے کا مصالحہ۔ بعض تحریروں میں لکھا ہے کہ سستائی کا زمانہ تھا اور نواب صاحب کنجوس بھی تھے۔ یہ سن کر چیخ اٹھے۔ باورچی بھی آخر شاہی باورچی تھا۔ یہ بات برداشت نہ کرسکا۔ جیب سے رقم ادا کی اور یہ کہتا ہوا وہاں سے تیزی سے نکل آیا ’’ہونہہ! یہ منہ اور مسور کی دال‘‘۔

کئی سال پہلے کی بات ہے جب فارمی مرغی یعنی برائلر ’’برڈ فلو‘‘ سے متاثر ہونے لگیں تو لوگوں نے مرغی پکانا چھوڑ دی تھی۔ دعوتوں میں عموماً دیکھا گیا کہ دال کی طرح طرح کی ڈشوں پر لوگ ٹوٹ پڑتے تھے۔ پاکستان میں دال چاول ملک کے کونے کونے میں دستیاب ہے۔ سب سے زیادہ مونگ مسور کی دال، ماش کی دال اور چنے کی دال کا استعمال ہوتا ہے۔ پاکستان کی درآمدات میں مشینری گروپ اور ٹرانسپورٹ گروپ کی درآمدات میں اگر کمی ہو رہی ہے تو فوڈ گروپ کی درآمدات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ان چار ماہ یعنی جولائی تا اکتوبر 20 کے دوران ساڑھے دس لاکھ میٹرک ٹن چینی بھی درآمد کر لی گئی اور رواں مالی سال کے پہلے 4 ماہ کے دوران تقریباً 9 لاکھ میٹرک ٹن گندم بھی درآمد کرلی گئی جب کہ ماہ نومبر 20 کے دوران مزید کئی لاکھ ٹن گندم درآمد کی گئی ہے۔

زیادہ تشویش ناک امر یہ بھی ہے کہ دودھ، اس سے بنی غذائی اشیا بچوں کی خوراک، کریم وغیرہ کی درآمد پر بھی پہلے 4 ماہ کے دوران 9 ارب 69کروڑ روپے خرچ کیے گئے جب کہ گزشتہ مالی سال کے دوران ساڑھے سات ارب روپے کا خرچ آیا تھا۔ اس طرح 29 فیصد اضافہ نوٹ کیا گیا۔ ملک میں دودھ کی پیداوار کے بہت دعوے کیے جاتے ہیں البتہ ان 4 ماہ میں 31 ارب روپے کی چائے پی لی گئی ہے۔ اس مد میں تو اخراجات کی توجیہہ بیان کی جاسکتی ہے۔ گزشتہ مالی سال کے ان چار ماہ میں 27 ارب روپے کی چائے استعمال کی گئی تھی۔

کورونا کے دور میں چائے کا استعمال بڑھ گیا ہے۔ لہٰذا درآمدات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ یہاں پر کئی مقامات پر چائے کے باغات کا کامیاب تجربہ بھی ہو چکا ہے۔ خاص طور پر ملک کے شمالی حصوں میں۔ لیکن اب تک کوئی خاص پیش رفت نہ ہونے کے باعث چائے کی بڑی مقدار میں پیداوار کا حصول ممکن نہیں ہو رہا ہے۔ اسی طرح ڈرائی فروٹ اور نٹس کی درآمدات بھی بڑھی ہیں۔ پی بی ایس کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ 4 ماہ کے دوران 18 ہزار میٹرک ٹن ڈرائی فروٹ درآمد کی گئی۔ جولائی 2019 تا اکتوبر 2019 کے دوران 8 ہزار میٹرک ٹن درآمد کے ساتھ 114 فیصد اضافہ نوٹ کیا گیا۔ اس طرح دیگر گروپ کے مقابلے میں ہمارا فوڈ گروپ پر درآمدی خرچ بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی زراعت کو جدید سائنسی خطوط پر استوار کریں تو سالانہ 3 ارب ڈالر تک کا زرمبادلہ بچا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔