آئیے عہد کریں ...خصوصی افراد کو زندگی کی طرف لانا ہے !!

اجمل ستار ملک / احسن کامرے  پير 7 دسمبر 2020
شرکاء کا ’’خصوصی افراد کے عالمی دن‘‘ کے حوالے سے منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار خیال

شرکاء کا ’’خصوصی افراد کے عالمی دن‘‘ کے حوالے سے منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار خیال

3 دسمبر کو دنیا بھر میں خصوصی افراد کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس کا مقصد لوگوں کو آگاہی دیکر ایسے افراد کے مسائل کو حل کرنا اور انہیں معاشرے کا کارآمد شہری بنانا ہے۔

ادارہ ایکسپریس ہر سال اس دن کے موقع پر خصوصی افراد کی آواز عوام الناس تک پہنچاتا اور اپنا فرض ادا کرتا ہے۔ اپنی اس روایت کو برقرار رکھتے ہوئے اس سال بھی ’’خصوصی افراد کے عالمی دن‘‘ کے موقع پر ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت اور خصوصی افراد کے نمائندوں کو مدعو کیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

چودھری محمد اخلاق
(صوبائی وزیر برائے سپیشل ایجوکیشن پنجاب)
محکمہ سپیشل ایجوکیشن کی گزشتہ 73 برسوں میں کوئی ایجوکیشن پالیسی نہیں تھی۔ ہم نے ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ سپیشل ایجوکیشن پالیسی بنائی جس کے تین بنیادی ستون کپیسٹی بلڈنگ، سینٹرز تک رسائی اور آمد و رفت ہیں۔کورونا کی وجہ سے رواں سال بے شمار رکاوٹیں آئی اور بہت سارے منصوبے التوا کا شکار ہوگئے مگر اس کے باوجود گزشتہ دو برسوں میں ہم نے خصوصی افراد کے لیے 13 نئے ادارے بنائے، 2 ڈگری کالج بنائے، 14 اداروں کو اَپ گریڈ کیا اور 17 اداروں کی نئی عمارتیں بنائی ہیں جو پہلے کرائے کی عمارتوں میں کام کر رہے تھے ۔

میں وزیراعلیٰ پنجاب کا بے حد مشکور ہوں جنہوں نے خصوصی بچوں پر خصوصی توجہ دی اور مشکل مالی حالات کے باوجود بھی خصوصی بچوں کے اداروں کو 63 نئی خصوصی بسیں دی ہیں تاکہ ان کی ٹرانسپورٹ کا مسئلہ حل کیا جاسکے۔یہ سٹیٹ آف دی آرٹ بسیں ہیں جن میں سی سی ٹی وی کیمرے، سپیشل ڈیزائنڈ سیٹیں و دیگر سہولیات ہیں۔

اس کے علاوہ ہم نے خصوصی افراد کے حوالے سے ہیلپ لائن 1162 بھی قائم کی ہے مگر اس کے بارے میں ابھی لوگوں کو آگاہی نہیں ہے۔ ہم اس پر کام کر رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ میڈیا بھی اس میں اپنا کردار ادا کرے۔ یہ ہیلپ لائن بہترین ہے، والدین اس پر اپنے بچے کی تفصیل دیں گے اور پھرہمارا ادارہ ان سے خود رابطہ کرکے اس بچے کا مکمل خیال رکھے گا۔ہم نے اس محکمے کے اساتذہ کیلئے ٹرانسفر پالیسی بنائی اور اس کے ساتھ ساتھ 600نئے اساتذہ بھی بھرتی کیے تاکہ خصوصی بچوں کو بہتر تعلیم دی جاسکے۔

بچوں کا حوصلہ بڑھانے اور ان کا خیال رکھنے کیلئے ہمارے تمام سکولوں میں پرنسپل اور اساتذہ صبح کے وقت بسوں سے بچوں کو ویلکم کرتے ہیں، میں واٹس ایپ پر اسے مانیٹر کرتا ہوں، ایسا کرنے سے بچوں کے رویے میں کافی بہتری آئی ہے۔ میںنے اپنے ووکیشنل انسٹی ٹیوٹ کا دورہ کیا تو یہ دیکھ کر افسوس ہوا کہ خصوصی بچوں سے آج بھی کرسیوں کے کوور و دیگر ایسی اشیاء بنوائی جارہی ہیں جو جدید دور سے بہت دور ہیں اور ان میں کوئی مستقبل بھی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ بچے ان سینٹرز میں نہیں آتے اور کالج کی سطح پر ان کا سکوپ نہیں ہے۔

اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم خصوصی بچوں کیلئے آئی ٹی کے جدید کورسز جن میں آرٹیفیشل انٹیلی جنس اور فرانزک سائنس شامل ہیں لا رہے ہیں، ایسے لانگ و شارٹ کورسز دنیا کا مستقبل ہیں، یہ کورسز کرنے کے بعد ان بچوں کو روزگار میں مدد ملے گی اور والدین جدید تعلیم کیلئے بخوشی اپنے بچوں کو سکول بھیجیں گے۔ پنجاب میں ایک فرانزک لیب ہے، جب بچے یہ کورس کریں گے تو ہم یہ سہولت گلی محلوں تک دے سکیں گے، آئندہ برس سے ان کورسز کا آغاز کردیا جائے گا۔

اس کے ساتھ ساتھ میں نے پہلی مرتبہ اپنی وزارت میں ایک یونٹ تشکیل دیا ہے جو عالمی اداروں سے رابطے کر رہا ہے، ہم ان کے ساتھ معاہدے کرکے خصوصی افراد کی حالت کو بہتر بنائیں گے۔ میں چاہتا ہوں کہ ان بچوں کیلئے ایسے میگاپراجیکٹس لائے جائیں جو ترقی یافتہ ممالک میں ہیں، اس کے لیے عالمی اداروں کا تعاون حاصل کیا جائے تاکہ خزانے پر دبائو نہ بڑھے۔ شرقپور میں ہماری 104 کنال اراضی پر گزشتہ کئی دہائیوں سے قبضہ تھا ، ہم نے اسے واگزار کرایا اور اب اس پر خصوصی افراد کیلئے سٹیٹ آف دی آرٹ سٹیڈیم کمپلیکس تعمیر کرنے جارہے ہیں۔

اس حوالے سے وزیراعلیٰ پنجاب سے بات ہوچکی ہے لہٰذا آئندہ بجٹ میں اسے منظور کرلیا جائے گا۔ یہ ایسا جدید سٹیڈیم کمپلیکس ہوگا جس میں خصوصی افراد کو مدنظر رکھتے ہوئے سوئمنگ پول، تھیٹر و دیگر بے شمار سہولیات دی جائیں گی، یہ بچے ملک بھر سے آکر یہاں اپنی چھٹیاں گزار سکیں گے، ان کی ہر چیز کا خیال رکھا جائے گا اور ایک روپیہ بھی نہیں لیا جائے گا۔ میں اس بات سے متفق ہوں کہ خصوصی افراد کیلئے آئیڈیل ہومز ہونے چاہئیں، اس پر بھی کام کیا جائے گا۔

خصوصی افراد کے حوالے سے اعداد و شمار پر کام نہیں کیا گیا، ہمارے پاس اپنے 304 اداروں میں انرول طلبہ کا مکمل ریکارڈ موجود ہے، اب ہم ایک ضلع میں پائلٹ پراجیکٹ کرنے جارہے ہیں جس میں اس ضلع میں موجود تمام خصوصی افراد کا ڈیٹا اکٹھا کیا جائے گا اور بعدازاں یہ دائرہ کار مزید اضلاع تک بڑھایا جائے گا۔ سپیشل سکولز میں زیر تعلیم بچوں کا وظیفہ 800 سے بڑھا کر1 ہزار روپے کرنے جارہے ہیں جس سے یقینا انہیں ریلیف ملے گا۔خصوصی افراد کو آمد و رفت میں مسئلہ ہے لہٰذا ان کیلئے گاڑیوں کی امپورٹ میں مسائل کے حل کیلئے وفاقی حکومت سے بات کروں گا۔ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ بہرے افراد کو ڈرائیونگ لائسنس جاری کرنے جارہے ہیں،ا ن میں خواتین پر زیادہ توجہ دی جارہی ہے تاکہ ان کی آمد و رفت کے مسائل حل کیے جاسکیں۔

خصوصی افراد کو حکومت نے انصاف صحت کارڈ جاری کیے، ہم ان سے متعلق ادویات کی قیمتوں میں بھی کمی لائیں گے۔ خصوصی افراد کا روزگار یقینی بنانے کیلئے بھی اقدامات کر رہے ہیں۔ ملازمتوں میں ان کا کوٹہ 3 فیصد سے بڑھا کر 5 فیصد کرنے جارہے ہیں، اب اس کوٹہ کے اندر معذوری کی نوعیت کے حوالے سے ہر ایک کا الگ الگ کوٹہ مختص کیا جائے گا جس کے بعد یہ ممکن نہیں ہوسکے گا کہ کم معذوری والے افراد ہی اس کوٹہ سے فائدہ اٹھا جائیں اور جو اصل حقدار ہیں انہیں ملازمت ہی نہ ملے۔

معذوری کے سرٹیفکیٹ کے حوالے سے بھی میکانزم بنا رہے ہیں، اب صرف ایم ایس یہ سرٹیفکیٹ جاری نہیں کرسکے گا بلکہ اس کے لیے بھی بورڈ ہوگا اور سپیشل ایجوکیشن کا نمائندہ بھی ہوگا، اب دوہری تصدیق کے ذریعے جعلسازی کو روکا جائے گا۔ خصوصی افراد کے حوالے سے بے شمار کام سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ کرتا ہے جبکہ قانون سازی کیلئے وزارت قانون کا کردار اہم ہے لہٰذا خصوصی افراد کے کوٹہ میں اضافہ، عمارتوں میں ریمپ و دیگر حوالے سے ہم مل کر کام کر رہے ہیں تاکہ خصوصی افراد کے مسائل حل کیے جاسکے۔

ڈاکٹر خالد جمیل
(بگ برادر)
محکمہ سپیشل ایجوکیشن نے گزشتہ دو برسوں میں خصوصی بچوں کے حوالے سے بہت اچھا کام کیا ہے۔ تعلیمی نصاب اور بچوں کی تربیت کے حوالے سے بہترین اقدامات اٹھائے گئے ہیں جبکہ اساتذہ کیلئے کیا گیا کام بھی قابل تعریف ہے۔ یہ پہلی حکومت ہے جس نے خصوصی افراد کے اساتذہ کو عزت دی اور ان کیلئے آسانیاں پیدا کیں۔

ایک بات ہمیں سمجھنی چاہیے کہ خصوصی افراد کے مسائل سنگین ہیں جو ایک دن میں حل نہیں ہوسکتے، اس میں وقت لگے گا تاہم اس کیلئے جو سیاسی وِل چاہیے، وہ موجودہ حکومت کے پاس ہے لہٰذا مجھے امید ہے کہ خصوصی افراد کے مسائل موثر طریقے سے حل کیے جائیں گے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں 1 کروڑ سے زائد خصوصی افراد ہیں جن میں سے 10 فیصد شدید نوعیت کی معذوری کا شکار ہیں جو اپنے والدین پر 100 فیصد انحصار کرتے ہیں جن کے دنیا سے رخصت ہوجانے کے چند برس بعد یہ بچے بھی دنیا سے چلے جاتے ہیں۔ ان کیلئے ایک ٹرسٹ بنایا جائے اور حکومت اس کی سرپرستی کرے۔

ہم ان بچوں کیلئے یہ مہم چلانے جارہے ہیں کہ ان کے والدین اپنی زندگی میں ہی انہیں وراثت میں حق دے دیں۔ ایسا کرنے سے کافی فنڈز جمع ہوجائیں گے۔ حکومت، سابق جج یا کسی اور قابل اعتماد شخص کو اس ٹرسٹ کا چیئرمین بنائے اور خصوصی افراد کی وراثت سے حاصل ہونے والی رقم سے ان بچوں کیلئے عالمی معیار کے بورڈنگ ہائوسز بنائے جہاں ہر بچے کیلئے اپنا الگ کمرہ و دیگر سہولیات میسر ہوں ، اس طرح اس کی عزت نفس بھی مجروح نہیں ہوگی اور اس کا اپنا پیسہ ہی اس پر خرچ کیا جائے گا۔یہ ماڈل جاپان میں چل رہا ہے جو بہترین ہے۔ ایسے مراکز بنانے کیلئے حکومت بھی معاونت کرے، زمین و دیگر حوالے سے مدد کی جائے۔ ہمارے ہاں مخیر حضرات دل کھول کر مدد کرتے ہیں، ایسے لوگوں کا تعاون بھی حاصل کیا جائے۔

خصوصی افراد کے 3 مسائل ہیں جنہیں ہمیشہ کیلئے حل کرنا ہوگا۔ پہلا مسئلہ آمد و رفت کا ہے۔ خصوصی افراد کیلئے کسٹم ڈیوٹی فری کارسکیم موجود ہے۔ جب یہ سکیم شروع ہوئی تو میں پہلا پاکستانی تھا جس نے گاڑی درآمد کی۔ پھر حکومتیں بدلی، کبھی اسے روک دیا گیا اور کبھی اسے دوبارہ بحال کر دیا۔ اب بھی یہ سکیم چل رہی ہے مگر اس میں مسائل ہیں۔ جو گاڑی پاکستان میں بنتی ہے وہ درآمد نہیں کرسکتے اور جو دوسری گاڑیاں ہیں ان کی انوائس نہیں ملتی۔ اس مسئلے کے مستقل حل کیلئے خصوصی افراد کو ری کنڈیشنڈ گاڑیوں کی ڈیوٹی فری امپورٹ کی اجازت دی جائے۔

دوسرا مسئلہ خصوصی افراد خصوصاََ بچوں کو سہولیات نہ ملنے کا ہے۔ اس وقت پنجاب میں 60 لاکھ خصوصی افراد ہیں جن میں سے تقریباََ 2 لاکھ بچے سرکاری سکولوں میں زیر تعلیم ہیں۔ حکومت ان کا ہر طرح سے خیال رکھ رہی ہے جبکہ لاکھوں دیگر بچے بے یارو مددگار ہیں،ان کی زیادہ تعداد دیہی علاقوں میں ہے لہٰذا ان کا خیال کرنا چاہیے۔

ہمارے ہاں تعلیم اتنا مسئلہ نہیں ہے۔ خصوصی بچوں کے سکولوں میں تعلیم مفت ہے مگر یہاں مسئلہ آمد و رفت کا ہے۔ اس کے اخراجات کافی زیادہ ہیں لہٰذا ا ن کے والدین کو ٹیکس میں چھوٹ دی جائے اور جو ٹیکس نیٹ میں نہیں آتے ان کی ماہانہ مالی معاونت کی جائے۔ یہ امداد زمینی حقائق پر مبنی ہونی چاہیے، ایسا نہ ہو کہ 500 یا ایک ہزار روپیہ ماہانہ دے دیا جائے۔ ایک اور بات اہم ہے کہ حکومت کی جانب سے خصوصی افراد کیلئے وظیفہ انتہائی کم اور بے فائدہ ہے۔

کم از کم اتنی رقم ضرور دی جائے جس سے ان کے بنیادی مسائل حل ہوسکیں۔ تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ ادویات مہنگی ہونے کی وجہ سے خصوصی افراد کے مسائل بڑھ گئے ہیں، جو ٹیکہ 6 سو روپے کا ملتا تھا وہ اب 11 سو روپے کا ہوگیا ہے، ان کی ادویات پر خصوصی رعایت دی جائے۔ خصوصی افراد کو معذور سمجھا جاتا ہے حالانکہ یہ معذور نہیں ہیں بلکہ مختلف طریقہ سے کام کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ، ان کے حوالے سے معاشرے میں آگاہی پیدا کرنے کیلئے انہیں مختلف اداروں میں سفیر مقرر کیا جائے تاکہ یہ وہاں جائیں، لوگوں سے ملیں اور انہیں معلوم ہوسکے کہ خصوصی افراد بھی معاشرے کے کارآمد شہری ہیں۔

لالہ جی سعید اقبال مرزا
(چیئرمین پاکستان سپیشل پرسن اسلام آباد )
دنیا میں وہی قومیں باعزت مقام پاتی ہیں اور ترقی کی منازل طے کرتی ہیں جو پہاڑوں سے ٹکرا جانے کا حوصلہ اور عزم رکھتی ہیں اور اپنے راستے میں کسی معذوری یا کمزوری کو حائل نہیں ہونے دیتی ہیں۔ جو لوگ معذوری کو بڑی خوشدلی سے کسی مجبوری کے سانچے میں ڈھالے بغیر زندگی کی دوڑ میں عام آدمی کے ساتھ ہر حال میں اپنا بھرپور کردار ادا کر رہے ہوں وہ معاشرے کی جانب سے بہت ساری سہولتوں اور ضرورتوں کے بھی مستحق ہوتے ہیں۔ ایسے باہمت افراد کو معذور کہنا انسانیت کی توہین ہے۔

اعداد و شمار کا جائزہ لیں پنجاب میں خصوصی افراد کی تعداد 28 لاکھ، سندھ میں 16 لاکھ 20 ہزار، خیبر پختونخوا میں 6 لاکھ 60 ہزار اور بلوچستان میں 2 لاکھ 20 ہزار سے زائد ہے جبکہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں 20 ہزار سے زائد خصوصی افراد بے بسی اور مجبوری کی زندگی گزار رہے ہیں جو بڑا المیہ ہے۔ اسلامی ریاست ہوتے ہوئے ان کا خیال کرنا لازم ہے جبکہ انسانی حقوق کا عالمی چارٹر بھی ان کے حقوق کی بات کرتا ہے۔ 3 دسمبر کو دنیا بھر میں خصوصی افراد کا عالمی دن منایا جاتا ہے لیکن پاکستان میں یہ دن صرف سیشنز اور سمینارز تک محدود ہے جبکہ عملی طور پر کام صفر ہے۔

مجھے افسوس ہے کہ ماضی اور حال کی حکومتوں میں کوئی فرق نہیں ہے،آج بھی ماضی جیسے حالات ہی ہیں۔ 1947ء سے لے کر 1980ء تک خصوصی افراد کیلئے سرکاری ملازمتوں میں کوئی جگہ نہیں تھی۔ 1981ء میں سابق صدر جنرل ضیاء الحق نے خصوصی افراد کیلئے آرڈیننس جاری کیا جس کے تحت پاکستان کے تمام سرکاری دفاتر میں ان کیلئے ایک فیصد کوٹہ منظور کیا گیا اور پھر انہیں ملازمتیں ملی اور ابھی تک مل رہی ہیں تاہم اس پر عملدرآمد میں بے شمار مسائل ہیں جنہیں دور کرنے کیلئے لائحہ عمل بنانا ہوگا۔

وزیراعظم عمران خان ملک کو ریاست مدینہ بنانے کا عزم رکھتے ہیں لیکن افسوس ہے کہ ان کے دور حکومت میں بھی خصوصی افراد کو کسی قسم کی کوئی سہولت نہیں ملی اور نہ ہی سرکاری ملازمتوں میں بھی کوئی خاص ریلیف ملا ہے بلکہ ظلم یہ ہوا کہ کورونا وائرس کی مشکل گھڑی میں انہیں بے یار و مددگار چھوڑ دیا گیا۔ گورنمنٹ سپیشل ایجوکیشن سینٹرز میں خصوصی بچوں کو ماہانہ 800 روپے کا جو وظیفہ ملتا تھا کورونا لاک ڈائون میں وہ بھی بند کر دیا گیا جو افسوسناک ہے۔ ایک طرف حکومت احساس پروگرام کے تحت مستحق و بے روزگار افراد کو 12 ہزار روپیہ امداد دیتی ہے تو دوسری طرف خصوصی بچوں کا وظیفہ بند کردیا جاتا ہے، میرا سوال ہے کہ یہ کہاں کا انصاف ہے؟ عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں تقریباََ 3کروڑ معذور افراد ہیں جن کا نصف معذور خواتین پر مشتمل ہے۔

معذور خواتین کو پیدائش سے ہی بوجھ سمجھ لیا جاتا ہے خصوصاََ غریب گھرانے میں وسائل کم ہونے کی وجہ سے ایسی خواتین کا حال بہت برا ہوتا ہے۔ انہیں تعلیم، صحت، کھیل، آمد و رفت و دیگر حوالے سے مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔ اگر کچھ باہمت لڑکیاں ان تمام چیلنجز کا مقابلہ کرکے تعلیم حاصل کر بھی لیں تو ان کے لیے روزگار کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں ۔ خصوصی افراد کو آمد و رفت کا بہت مسئلہ ہے، ان کیلئے دفاتر اور عمارتیں قابل رسائی نہیں ہیں۔ ان میں ریمپ نہیں ہیں جس کے باعث انہیں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اس کے علاوہ تمام عمارتوں میں معذور فرینڈلی ٹائلٹ نہیں ہیں جو ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ تمام سرکاری و نجی دفاتر اور عمارتوں میں خصوصی افراد کیلئے علیحدہ ٹائلٹ اور ریمپ بنائے جائیں۔ شادی ہالز، مساجد، مدارس، امام بارگاہوں، سکولوں و دیگر شعبہ ہائے زندگی کے اداروں کو بھی اس کا پابند کیا جائے اور اس پر عملدرآمد کیلئے تمام اضلاع کی انتظامیہ کو ہدایت جاری کی جائے۔ خصوصی افراد کی آواز کو مضبوط بنانے کیلئے سینیٹ، قومی و صوبائی اسمبلیوں اور بلدیاتی اداروں میں نمائندگی کی دی جائے اور جس طرح خواتین اور نوجوانوں کیلئے نشستیں مختص کی گئی ہیں، ان کیلئے بھی کی جائیں۔ انہیں معاشی طور پر مضبوط بنانے کیلئے تمام چیمبر آف کامرس کی کمیٹیوں میں لازمی نمائندگی دی جائے اور پریس کلب میں بھی ان کا کوٹہ مختص کیا جائے۔

پنجاب کے بے شمار سپیشل ایجوکیشن سنٹر پرائیویٹ عمارتوں میں ہیں جن کا کرایہ کروڑوں روپے ہے جو خزانے پر بہت بڑا بوجھ ہے جسے کم کرنے کیلئے سرکاری عمارتوں کا بندوبست کیا جائے۔ اس سلسلے میں سول سوسائٹی اور مخیر حضرات کا تعاون حاصل کیا جائے۔ میں گزشتہ 10 برس سے یہ اپیل کر رہا ہوں کہ گورنمنٹ سپیشل ایجوکیشن سنٹر لالہ موسیٰ کو ہائی سکول کا درجہ دیا جائے تاکہ وہاں بچے میٹرک تک تعلیم حاصل کرسکیں لیکن تاحال اس پر کوئی کام نہیں ہوسکا۔ مجھے امید ہے کہ موجودہ حکومت ہماری گزارشات پر توجہ دے گی اور آنے والے برسوں میں بہتر کام کرے گی۔

جویریہ رشید
(نمائندہ خصوصی افراد )
شدید معذوری والے افراد کا کوئی پرسان حال نہیں ہے، یہ والدین پر مکمل انحصار کرتے ہیں،ا نہیں سفر میں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور 24 گھنٹے ایک اٹینڈنٹ کی ضرورت ہوتی ہے لہٰذا حکومت کو ایسے افراد کی خصوصی مدد کرنی چاہیے، انہیں سرکاری خرچ پر اٹینڈنٹ فراہم کیا جائے، سفر ی سہولیات دی جائیں اور سرکاری ملازمتیں بھی فراہم کی جائیں۔ میں نے سرکاری ملازمت کیلئے بہت کوشش کی، لیکن سنگین معذوری ہونے کی وجہ سے نہیں ملی، میں اور میرے بہت سارے دوست اس وقت مایوس ہوئے اور بے شمار لوگ گھر بیٹھ گئے کہ ہمارا کچھ نہیں ہوسکتا۔

میں ابھی تک ہمت نہیں ہاری اور اپنے جیسے خصوصی افراد کیلئے کچھ کرنا چاہتی ہوں۔ میرے جیسے شدید معذوری والے افراد گھروں میں محصور ہوکر اپنی زندگی کی بازی ہار رہے ہیں، ہمیںمل کر ا نہیں زندگی کی طرف واپس لانا ہوگا۔

مجھے ان کی کونسلگ، مدد اور زندگی واپس لوٹانے کیلئے ایک پلیٹ فارم کی ضرورت ہے، میں اپنی مدد آپ کے تحت جتنا کر سکتی ہوں کر رہی ہوں، حکومت اس میں میری مدد کرے۔ ایک اور بڑا مسئلہ ہے کہ خصوصی افراد کیلئے کوئی سہولت نہیں ہے۔ انہیں آمد و رفت کا مسئلہ ہے، بازار، عمارتیں، دفاتر و دیگر مقامات ہمارے لیے فرینڈلی نہیں ہیں، وہاں ریمپ ہی نہیں لہٰذا اس طرف توجہ دی جائے اور خصوصی افراد کیلئے مارکیٹوں، ریسٹورنٹ، سرکاری و غیر سرکاری دفاتر اور عمارتوں میں ریمپ بنائے جائیں اور انہیں سرکاری سطح پر ٹرانسپورٹ کی سہولت بھی دی جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔