دورانِ حمل ماں کی گھبراہٹ بچے کے دماغ پر اثرانداز ہوسکتی ہے

ویب ڈیسک  منگل 8 دسمبر 2020
دورانِ حمل ڈپریشن کی شکار خواتین کے بچوں کی دماغی نشوونما شدید متاثر ہوسکتی ہے۔ فوٹو: فائل

دورانِ حمل ڈپریشن کی شکار خواتین کے بچوں کی دماغی نشوونما شدید متاثر ہوسکتی ہے۔ فوٹو: فائل

 واشنگٹن: سائنسدانوں نے ایک تازہ سروے کے بعد کہا ہے  کہ اگر دورانِ حمل ماں ذہنی تناؤ اور گھبراہٹ کی شکار ہے تو اس سے بچے کی دماغی نشوونما پر فرق پڑسکتا ہے۔

یہ تحقیق چلڈرن نیشنل ہسپتال، واشنگٹن کے پروفیسر لمپور پولس اور ان کے ساتھیوں نے کی ہے جس کی تفصیل سات دسمبرکو جرنل آف امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن کے اوپن جرنل میں شائع ہوئی ہے۔ اس تحقیق سے ایک دیرینہ مسئلے کو حل کرنے میں مدد ملے گی جس میں ماں کی نفسیاتی کیفیت اور بچے کی دماغی نشوونما کے درمیان گہرا تعلق دریافت ہوا ہے۔ لیکن ماہرین نے اسے خطرناک قرار دیتے ہوئے حاملہ خواتین کو ہرقسم کے ذہنی اور نفسیاتی دباؤ سے دور رہنے کے اقدامات پر زور دیا ہے۔

اس سے قبل کی گئی تحقیق بتاتی ہے کہ اگر دورانِ حمل مائیں ذہنی تناؤ، گھبراہٹ اور ڈپریشن کی شکار ہوتی ہیں تو ایک جانب زچگی میں پیچیدگیاں بڑھتی ہیں جبکہ ان کے بچوں میں سماجی، نفسیاتی اور رویہ جاتی مسائل بھی جنم لیتے ہیں۔ اس ضمن میں ماہرین نے ماؤں کے پیٹ میں موجود بچے کا دوسری اور تیسری سہ ماہی کے دوران ریسٹنگ اسٹیٹ فنکشنل میگنیٹک ریزوننس امیجنگ سے اسکین کیا اور اس کا ڈیٹا جمع کیا جاتا رہا۔

اس دوران 50 خواتین سے طویل سوالنامے بھروائے گئے اور بطورِ خاص ان میں گھبراہٹ، اداسی اور بے چینی کے بارے میں پوچھا گیا۔ جن خواتین نے ڈپریشن اور گھبراہٹ کی شکایت کی ان کے خصوصی اسکین لیے گئے۔ معلوم ہوا کہ جو خواتین یاسیت، ڈپریشن اور گھبراہٹ کی شکار تھیں ان کے بچے کے دماغی میں کئی طرح کے روابطہ اور کنیکشن کمزور تھے جو عام حالات میں نارمل ہونے چاہئیں۔

اس تحقیق کے بعد ماہرین نے کہا ہے کہ دورانِ حمل خواتین کی دماغی صحت اور نفسیاتی کاؤنسلنگ کا بطورِ خاص خیال رکھنے کی اشد ضرورت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔