27 دسمبر 2007 کی شام

جاوید چوہدری  جمعرات 26 دسمبر 2013
www.facebook.com/javed.chaudhry

www.facebook.com/javed.chaudhry

یہ 27 دسمبر 2007ء کی شام تھی‘ میں اپنے دفتر میں بیٹھا تھا‘ ٹیلی ویژن کی آواز بند تھی‘ اسکرین پر اچانک بے نظیر بھٹو پر خودکش حملے کے ٹکرز چلنے لگے‘ میں نے ٹی وی کی آواز کھول دی‘ میرے دیکھتے ہی دیکھتے ٹکرز بریکنگ نیوز میں تبدیل ہوئے اور یہ بریکنگ نیوز سیاسی زلزلے میں بدل گئی‘ میں اپنی جگہ سے اٹھا اور راولپنڈی روانہ ہو گیا‘ پولیس مری روڈ بند کر رہی تھی‘ میں نے گاڑی چاندنی چوک میں کھڑی کی اور وہاں سے پیدل جنرل اسپتال کی طرف چل پڑا‘ میں اسپتال کے سامنے پہنچا تو دیکھا پولیس کے بھاری دستوں نے اسپتال گھیر رکھا ہے‘ اسپتال کے باہر سیکڑوں لوگ کھڑے تھے‘ ان میں زخمی بھی تھے‘ جیالے بھی‘ عام شہری بھی اور میڈیا کے خواتین و حضرات بھی۔ میں نے ایک رپورٹر سے پوچھا ’’ بے نظیر بھٹو کہاں ہیں‘‘ اس نے جواب دیا ’’بی بی اسپتال کے اندر ہیں اور شہادت کی خبریں آ رہی ہیں‘‘ میرا دل بھاری ہو گیا‘ میں نے اسپتال کے اندر جانے کی کوشش کی لیکن مجھے ایک پولیس اہلکار نے روک لیا‘ کانسٹیبل کے چہرے پر دکھ بھی تھا‘ نفرت بھی اور خوف بھی‘ وہ میرے چہرے کو غور سے دیکھ رہا تھا لیکن پہچان نہیں رہا تھا’’ شاید خوف اور دکھ انسانی آنکھ کی پہچان چھین لیتے ہیں‘‘ میں نے سوچا اور آگے پیچھے کسی ایسے چہرے کو تلاش کرنے لگا جو دکھ اور خوف کی اس گھڑی میں بھی مجھے پہچان لے‘ پولیس اہلکاروں کے پیچھے چند پولیس افسر کھڑے تھے‘ میرا ایک شناسا افسر بھی ان میں موجود تھا‘ وہ مجھے پہچان کر آگے بڑھا‘ اس نے بیریئر ہٹایا اور میں اسپتال کے اندر داخل ہو گیا‘ پولیس آفیسر نے مجھے ایک اے ایس آئی دے دیا‘ یہ اے ایس آئی میرے لیے راستے کھلواتا چلا گیا اور میں آگے بڑھتا رہا‘ اسپتال کے اندر کے حالات انتہائی خراب تھے‘ ایمبولینس سائرن بجاتی آ رہی تھی‘ نعشیں اور زخمی اتارے جا رہے تھے‘ ایمرجنسی وارڈ میں بیڈز ختم ہو چکے تھے‘ زخمیوں کو کوریڈورز میں اتارا جا رہا تھا‘ زخمی چیخ رہے تھے‘ وہ رحم کی اپیل بھی کر رہے تھے‘ ڈاکٹرز‘ نرسیں اور وارڈ بوائز ان کی طرف دوڑ رہے تھے‘ ڈاکٹر اور دوائیں کم تھیں اور زخمی زیادہ اور میں حیران کھڑا تھا۔

میں نے شیری رحمن اور مخدوم امین کو گندی سیڑھیوں پر بیٹھے دیکھا‘ دونوں کے چہروں پر خوف‘ دہشت اور سراسیمگی تھی‘ شیری رحمن کے قریب سے ایک نوجوان پانی کی دو بوتلیں لے کر آگے بھاگ رہا تھا‘ شیری نے ہاتھ کے اشارے سے اسے روکا‘ اس سے پانی کی بوتل مانگی‘ نوجوان بوتل نہیں دینا چاہتا تھا لیکن شاید وہ شیری رحمن کے چہرے پر تحریر بے چارگی کی وجہ سے انکار نہ کر سکا‘ اس نے ایک بوتل انھیں پکڑائی اور دوسری بوتل لے کر آگے بھاگ گیا‘ شیری رحمن نے بے تابی سے بوتل کھولی اور منہ سے لگا لی‘ امین فہیم پاؤں سے ننگے تھے‘ ان کے منہ سے سسکیاں نکل رہی تھیں‘ وہ دیوانگی کے عالم میں سر جھٹکتے تھے اور ان کے منہ سے یا اللہ یا اللہ نکلتا تھا اور یہ اس کے بعد سندھی زبان میں کوئی فقرہ بولتے تھے‘ میں نے ان کے کندھوں پر ہاتھ رکھا‘ انھیں تھوڑا سا ہلایا اور ان سے پوچھا’’ مخدوم صاحب آپ کو کوئی چوٹ تو نہیں آئی‘‘ انھوں نے چونک کر میری طرف دیکھا اور پھر دیکھتے ہی چلے گئے‘ مجھے محسوس ہوا‘ مخدوم صاحب مجھے پہچان نہیں رہے ہیں‘ میں ان کا کندھا ہلاتا رہا اور وہ میرے ساتھ سندھی میں گفتگو کرتے رہے‘ مجھے ان کی گفتگو میں صرف اللہ سمجھ آتا تھا‘ میرے معاون اے ایس آئی نے مجھے آنکھ سے اشارہ کیا‘ مجھے اس کے اشارے کی سمجھ نہیں آئی‘ وہ شاید مجھے وہاں سے ہٹانا چاہتا تھا‘ میں اس کے ساتھ چل پڑا‘ میں نے اس سے پوچھا ’’ بی بی کی ڈیڈ باڈی کہاں ہے؟‘‘ اس نے سر ہلایا اور وہ مجھے اسپتال کے مختلف کوریڈورز اور وارڈز سے گزارتا ہوا اس بلاک تک لے آیا جہاں بے نظیر بھٹو کی نعش پڑی تھی‘ بلاک کو پولیس‘ فوج اور خفیہ اداوں کے اہلکاروں نے گھیر رکھا تھا‘ وہ سب میری طرف مڑے اور مجھے گھورنا شروع کر دیا‘ میرا جاننے والا پولیس آفیسر وہاں موجود تھا‘ مجھے اے ایس آئی نے اس کے حوالے کیا اور واپس چلا گیا‘ میں نے آفیسر کے کان میں سرگوشی کی ’’ میں اندر جانا چاہتا ہوں‘‘ اس نے ایک لمحے کے لیے سوچا اور پھر پوچھا ’’ آپ تصویر تو نہیں بنائیں گے‘‘ میں نے انکار میں سر ہلا دیا‘ اس نے پھر سوچا اور پھر پوچھا ’’ آپ کالم تو نہیں لکھیں گے‘ آپ کسی ٹاک شو میں یہ انکشاف تو نہیں کریں گے کہ آپ نے بے نظیر کی ڈیڈباڈی دیکھی تھی‘‘ میں نے انکار میں سر ہلا دیا‘ اس نے میرا ہاتھ پکڑا اورآگے چل پڑا‘ خفیہ اداروں کے لوگ ہمیں گھورتے رہے لیکن کسی نے ہمیں روکنے کی جرأت نہیں کی‘ وہ دروازے کھولتا چلا گیا‘ یہاں تک کہ میں بے نظیر بھٹو کی نعش تک پہنچ گیا‘ میرے سامنے ایشیا اور اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم کی نعش پڑی تھی۔

کمرے میں سناٹا اور خنکی تھی‘ میرے اندر ہمت نہیں تھی‘ میں آنکھ اٹھا کر بے نظیر بھٹو کی نعش کی طرف دیکھتا‘ میں نے کن اکھیوں سے چبوترے کی طرف دیکھا‘ وہ سیمنٹ کا چبوترا تھا جس پر سفید ٹائلیں لگی تھیں اور وہ کسی بھی طرح بے نظیر بھٹو جیسی شخصیت کے شایان شان نہیں تھا‘ بے نظیر بھٹو کا منہ کھلا تھا‘ ان کے سرد ہونٹوں پر ایک فریاد‘ ایک پکار منجمد تھی‘ وہ شاید دنیا سے رخصت ہوتے وقت کسی کو پکار رہی تھیں‘ وہ کس کو پکار رہی تھیں؟ شاید بلاول کو‘ شاید بختاور یا آصفہ کو یا پھر آصف علی زرداری کو؟ میں اس پکار کو لفظوں میں تبدیل کرنے کی کوشش کرنے لگا مگر اس ماحول میں یہ ممکن نہیں تھا‘ بی بی کا وہ دوپٹہ غائب تھا جسے وہ ہر وقت سر پر رکھتی تھیں‘ ان کے پاؤں بھی ننگے تھے اور نعش بھی آڑھی ترچھی پڑی تھی‘ ایک خیال کسی طرف سے اڑتا ہوا میرے دماغ تک آیا اور اس نے میرے ذہن کے دروازے پر دستک دینا شروع کر دی’’ یہ بے نظیر بھٹو ایک گھنٹہ پہلے تک حیات تھیں‘ کیا یہ اس وقت اس جگہ پر ہاتھ رکھنا‘ اس پر بیٹھنا حتیٰ کہ اس گندی اور بدبودار جگہ پر آنا پسند کرتیں؟‘‘ میرا جواب ناں تھا‘ میں جانتا تھا‘ محترمہ بے نظیربھٹو ایک نفیس اور جمالیاتی حس سے مالا مال خاتون تھیں‘ یہ گندی جگہ کو چھونے کے بعد ہاتھوں کو کیمیکل سے صاف کرتی تھیں‘ یہ زندگی میں کبھی اس جنرل اسپتال میں داخل نہیں ہوئی تھیں اور یہ شاید زندگی میں اتنے نالائق ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل اسٹاف کو دیکھنا بھی گوارہ نہ کرتیں مگر یہ آج پوسٹ مارٹم کے گندے اور بدبودار چبوترے پر پڑی تھیں اور کسی ڈاکٹر‘ کسی نرس کو اندر جھانکنے تک کی جرأت نہیں ہو رہی تھی‘ ڈاکٹر اسپتال سے غائب ہو رہے تھے جب کہ پولیس آفیسر اپنے مستقبل کا سوچ سوچ کر پریشان ہو رہے تھے‘ میں اس ماحول کو ابھی پوری طرح سمجھ نہیں پایا تھا کہ اس پولیس آفیسر کے موبائل پر ایک ایس ایم ایس آیا‘ اس نے پیغام پڑھا‘ میرا بازو پکڑا اور وہ مجھے تقریباً گھسیٹتے ہوئے کمرے سے باہر لے گیا‘ شاید ان کا کوئی سینئر آفیسر محترمہ کی نعش کا معائنہ کرنے کے لیے وہاں آ رہا تھا‘ میرے دوست نے مجھے اپنے اسسٹنٹ کے حوالے کیا اور وہ مجھے وارڈز اور کورویڈورز سے گزار کر واپس مخدوم امین فہیم کے پاس لے آیا‘ مخدوم صاحب کے گردڈاکٹر کھڑے تھے اور مخدوم صاحب ان سے بے نظیر بھٹو کی حالت کے بارے میں پوچھ رہے تھے‘ مخدوم صاحب کا خیال تھا‘ محترمہ زخمی ہیں اور اس وقت ان کا علاج ہو رہا ہے‘ وہ ڈاکٹر جونیئر تھے‘ وہ بے نظیر بھٹو کی شہادت سے واقف نہیں تھے چنانچہ وہ انھیں بتا رہے تھے محترمہ کا علاج ہو رہا ہے اور یہ بہت جلد ٹھیک ہو جائیں گی‘ مخدوم صاحب کو چوٹیں نہیں آئی تھیں لیکن یہ گہرے صدمے میں تھے‘ انھوں نے اپنی آنکھوں سے خودکش حملہ ہوتے‘ لوگوں کے اعضاء کو ہوا میں بکھرتے‘ زخمیوں کو سڑک پر گرتے اور گر کر دہائی دیتے دیکھا تھا‘ ان مناظر نے ان کے دماغ کو بری طرح متاثر کیا تھا‘ میں نے دیکھا‘ وہ بار بار اپنے جسم کو ٹٹول کر دیکھتے تھے اور پھر اطمینان سے کہتے تھے ’’ یا اللہ تیرا شکر ہے‘‘ اور پھر سندھی زبان میں بڑبڑانے لگتے تھے‘ میں اسپتال سے باہر آ گیا‘ اسپتال کے باہر جیالے جمع تھے‘ یہ جنرل پرویز مشرف اور شوکت عزیز کے خلاف نعرہ بازی کر رہے تھے‘ وہاں ڈاکٹر بابر اعوان اور رحمن ملک کے خلاف بھی نعرے لگ رہے تھے اور لوگ پولیس پر حملے کی کوشش بھی کر رہے تھے‘ میں وہاں سے پیدل چلتا ہوا‘ کمیٹی چوک آیا‘ گاڑی میں بیٹھا اور اسلام آباد کی طرف روانہ ہوگیا‘ سڑکوں پر لوگوں کا ہجوم بڑھتا جارہا تھا‘ ریڈیو پر لائیو کمنٹری شروع ہو چکی تھی۔

یہ ایک منظر تھا‘ مجھے دوسرا منظر آصف علی زرداری کے قریبی ساتھی ڈاکٹر قیوم سومرو نے بتایا‘ ڈاکٹر قیوم سومرو ان لوگوں میں شامل تھے جو محترمہ کی نعش لے کرسکھر‘ لاڑکانہ اور گڑھی خدا بخش گئے تھے‘ ڈاکٹر قیوم سومرو نے بتایا‘ محترمہ کے تابوت کورات ڈیڑھ بجے سی ون تھرٹی میں رکھا گیا‘ ہم لوگ جہاز کی نشستوں پر بیٹھے تھے جب کہ محترمہ کا تابوت ہمارے پاؤں میں فرش پر پڑا تھا ’’ میں سارے راستے یہ سوچتا رہا‘ ہم وہ لوگ تھے جنھیں بے نظیر بھٹو زندگی میں اپنے پاؤں میں بھی جگہ نہیں دیتی تھیں لیکن یہ آج فرش پر پڑی ہیں اور ہم ان کے سامنے کرسیوں پر بیٹھے ہیں‘ کیا یہ ہے زندگی؟ کیا یہ ہے انسان؟‘ میں جب بھی یہ سوچتا تھا میرے ہاتھ بے اختیار کانوں تک اٹھ جاتے تھے اور میری آنکھوں میں آنسو آ جاتے تھے‘‘ ڈاکٹر قیوم سومرو کے بقول محترمہ کو سکھر کے ائیرپورٹ سے ہیلی کاپٹر کے ذریعے لاڑکانہ لایا گیا اور وہاں سے گڑھی خدا بخش تک ایمبولینس میں‘ ایمبولینس بھی بہت بری تھی‘ ایمبولینس کا اے سی کام کر رہا تھا اور نہ ہی اس کی باڈی میں جان تھی‘ گاڑی کے انجن اور ٹائروں سے خوفناک آوازیں آ رہی تھیں‘ ہم نے بڑی مشکل سے محترمہ کا تابوت گڑھی خدا بخش تک پہنچایا‘‘ ڈاکٹر قیوم سومرو کے بقول ’’ کاش ہماری حکمران کلاس یہ منظر دیکھ لیتی تو یہ شاید کبھی وہ غلطیاں نہ کرتی جو محترمہ بے نظیر بھٹو سے سرزد ہوئی تھیں‘‘ میں نے ڈاکٹر سومرو کے منہ سے یہ سنا تو میرے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی کیونکہ اس وقت آصف علی زرداری صدر تھے اور ڈاکٹر قیوم سومرو ان کے مشیر جب کہ ڈاکٹر سومرو نے ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کو ڈرائنگ روم میں بٹھا رکھا تھا اور وہ میرے اٹھنے کا انتظار کر رہی تھیں‘میں نے ان سے کہا ’’ڈاکٹر صاحب ہم انسان بہت باکمال ہیں‘ ہم کبھی دوسروں کی موت سے سبق نہیں سیکھتے‘ ہم اپنے والد کو بھی دفن کرتے ہوئے یہ سوچتے ہیں‘ یہ بے وقوف انسان تھا‘ یہ مر گیا‘ میں عقل مند ہوں‘ میں موت کو چکر دے کر بچ جاؤں گا‘‘۔

میاں نواز شریف بھی یقینا اس وقت یہی سوچ رہے ہوں گے ‘ یہ سوچ رہے ہوں گے ’’میری زندگی میں کبھی کوئی 27 دسمبر نہیں آئے گا‘‘۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔