اتحادی پھٹ پڑے

سعد اللہ جان برق  منگل 8 دسمبر 2020
barq@email.com

[email protected]

آپ تو جانتے ہیں کہ ہم اردو کے نہ اہل زبان ہیں نہ اہل بیان بلکہ بیان کی بیانیہ بھی نہیں ہیں یعنی آوٹ سائڈر یا سوتیلے کالم نگار ہیں بلکہ صرف زیرلب بول سکتے ہیں وہ بھی مجبوری میں۔

کہ ہمارے ایک دوست کا قول ہے کہ اکثرلوگ نیستی کے مارے شاعر یا فلم نگار  وکالم نگار بن جاتے ہیں بلکہ لیڈروں کے علاوہ جو صرف ’’مستی‘‘سے بنتے ہیں باقی سب بننے بنانے والے اور بنائے جانے والے مجبوری کے مارے ہوتے ہیں۔ چنانچہ بات جب ان کم بخت محاوروں، روزمروں اور کہہ مکرنیوں کی آجاتی ہے تو ہمارے چراغوں کی روشنی چلی جاتی ہے اور ہاتھوں کے طوطے مینے تیتر بٹیر چیل کوے یہاں تک کہ بطخ مرغابیاں تک اڑ جاتے ہیں۔

اب جب ہم نے اخبار میں یہ شہ سرخی پڑھی کہ وزیراعظم کے ظہرانے میں اتحادی پھٹ پڑے تو دل دھک سا ہوگیا، نا جانے بیچاروں پرکیا گزری ہوگی اور کتنے ’’قیمتی اثاثے ‘‘پھٹ پھٹا کر چھیتڑے بن گئے ہوں گے، دھماکوں اور پھٹنے پھاڑنے کے اس دور میں دھماکے کا لفظ اچھا خاصا دہشت انگیز ہے

سہم کر بیٹھ گئی خاک بیابانوں کی

دہشت انگیز ہے وحشت ترے دیوانوں کی

ہم تو پھٹنے اور پھٹ کے لغوی معنے پڑھ چکے تھے۔  یعنی پھٹنے اور پھٹ پڑنے کا وہی ایک مطلب ہونا چاہیے ، جیسے غبارے کا پھٹنا، ٹائر کا پھٹنا ،سر کا پھٹنا ۔انسانوں کے پھٹنے کا نہ کبھی سنا تھا نہ پڑھا تھا کیونکہ انسان اگر بہت زیادہ بھی بھر جائیں تو بہت سارے چورن وغیرہ ایسے ہیں جو پھٹ پڑنے کی نوبت نہیں آنے دیتے، خودہمارے علامہ بریانی عرف برڈ فلو کے پاس ایسے خاندانی معجزہ نما چورن ہیں جو لکڑ پتھر سے لے کر سڑک بلڈنگ تک اور سیمنٹ سریے اینٹ تک کے ذمے دار ہیں بلکہ نیا اضافہ شدہ کا نام تو سب کچھ ہضم ہے بلکہ سنا ہے کہ کچھ چورن سازکمپنیاں بھی نیب وریب قسم کی ایسی چیزیں تیار کرتی ہیں کہ پہاڑ تک کو ایک بلبلے میں تبدیل کردیتی ہیں بلکہ سنا ہے کہ اگر کہیں بہت زیادہ سیریس ہوجائے تو ایک خاص الخاص چورن’’ڈبل شہریت‘‘کا بھی ایجاد ہوچکا ہے۔

مطلب یہ کہ اتنے چورنوں کے باوجود وزیراعظم کے ظہرانے میں اتحادیوں کا پھٹ پڑنا خاصی دھماکا خیز خبر تھی۔ہم دوسرے دن کے اخباروں کا انتظار کرنے لگے کہ اس پھٹ پڑنے کی مزید تفاصیل آجائیں گی کہ اتنے مرے، اتنے زخمی ہوئے یا خودکش اپنا سر یا جسم کا کوئی اور پارٹ چھوڑ کر فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا۔ بارود کتنے وزن کا تھا۔جو سموسوں میں ڈالا گیاتھا یا پکوڑوں میں کبابوں میں یا مرغ وماہی یا کیک پیسٹریوں میں۔ جو اتحادیوں کے پیٹ میں جاکر ڈز ہوگیا اور تفتیش جاری ہے یا حکم کے انتظار میں ہے

دھماکا شہر میں پھرہوگیا تفتیش جاری ہے

یہ اک گدھے نے گدھی سے کہا تفتیش جاری ہے

لیکن دوسرے دن کے اخباروں میں ایسا کچھ نہیں تھا اور حسب معمول خوش خبریاں ہی خوش خبریاں تھیں بلکہ ساتھ ہی وزیروں کے بیانات میں ’’خوش خبریاں‘‘ بھی بہت تھیں۔ یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے۔تب اچانک ہم نے اپنا سرماتھا پیٹنا شروع کیا۔اچھا تو یہ محاورہ تھا۔ اتحادی ’’پھٹ پڑے‘‘وہ کہیں اور سے نہیں صرف ’’منہ‘‘ سے پھٹ پڑے ہوں گے یعنی

پاتے نہیں جب راہ تو چڑھ جاتے ہیں نالے

رکتی ہے مری طبع تو ہوتی ہے رواں اور

یقیناً ہمارے وژن والے وزیراعظم کے پاس ایسی کوئی شے ہوگی جیسی ایک دفعہ ہم نے کسی ٹی وی چینل پردیکھی تھی کالے رنگ کی ایک دیگ سی تھی یا سمینٹ مکسر جیسی سمجھ لیجیے اس کے اندر بم ڈال کر ڈھکنا بند کر دیتے، توصرف تھوڑی سی ہل جاتی تھی اور بم کو ’’پھٹ پڑنے‘‘ کے باوجود اندر ہی اندر ہضم کرلیتی تھی ہم نے جب اس کی خبر علامہ بریانی کوسنائی تو وہ پریشان ہوئے لیکن پھر تفصیل سن کر شاد ہوئے بولے میرے چورن اور اس مشین میں بہت فرق ہے وہ جو چیز اندر ڈالی جاتی ہے وہ ہضم کرتی ہے اور میرا چورن جس کے اندر جاتا ہے اس کا ہاضمہ قوی کردیتا ہے نہ صرف سب کچھ ہضم کرتاہے بلکہ جزوبدن، جزوبینک اور جز وڈالر ریال بھی کردیتا ہے۔

بات سے بات نکلتی ہے انڈین ٹی وی کے ایک مزاحیہ ریالٹی شو میں ایک مرتبہ ایک کامیڈین نے کہا کہ میری ایک امریکن سے بحث ہوئی ہے، امریکی نے کہا کہ ہم نے ایٹم بم ایجاد کیاہے۔میں نے کہا کہ ایٹم بم تو ہم تم سے بہت پہلے ایجاد کرچکے ہیں اور ہمارے یہ ایٹم بم کے لیے نہ ٹریگر کی ضرورت ہوتی ہے نہ پہلے چلانے کے لیے کسی جہاز یا میزائل کی۔خود بخود چلتے بھی ہیں اور چل بھی جاتے ہیں۔

امریکی نے حیران ہوکر تفصیل پوچھی تومیں نے کہا کسی بھی سردار کو پانچ مولی کے پراٹھے کھلاؤ اور اوپر سے پانچ لسی کے بڑے گلاس پلادو ایٹم بم تیار۔خیر تو اس کم بخت محاورے نے تقریباً ہماری جان ہی لے لی تھی۔ اتحادی پھٹ پڑے۔سے ہم نے یہ سمجھا کہ اتحادی واقعی پھٹ پڑے ہوں گے اور کوئی یہاں گرا کوئی وہاں گرا،کی حالت ہوگی، زیادہ تشویش کی بات یہ تھی کہ انصاف کے اتحادی وہی جانے پہچانے اتحادی ہیں جو زمانے سے اتحادی چلے آرہے ہیں جو صرف اتحاد کرتے ہیں اور اتحاد کے علاوہ اور کچھ نہیں کرتے۔یوں سمجھ لیجیے کہ ’’اتحاد‘‘کی علامت ہیں ویسے ہی اتحاد کے۔جیسا اتحاد وفادار کسی فقیر کے خلاف کیاکرتے ہیں۔

بہت زیادہ تشویش ہمیں مسلم لیگ ق اور مسلم لیگ پگاڑا والوں کے بارے میں تھی۔خدانخواستہ اگر یہ مستقل خاندانی اور پیشہ ور اتحادی نہ رہے۔تو تیرا کیابنے گا کالیا۔ہماری سیاست اور جمہوریت کا سارا رنگ ہی تو ان اتحادیوں سے ہے۔سنا ہے ان میں سے کچھ نے کہا کہ ہم حکومت میں صرف کھانا کھانے کے لیے تو شامل نہیں ہوئے جس پر ہمیں فوراً اپنا ایک افغانی ملازم یاد آیا، وہ کچھ پڑھا لکھا تھا اس لیے اخبار اور ٹی وی میں جب’’خردبرد‘‘کی بات ہوتی تھی تو وہ خوش ہوکر کہتا۔وہ جی ’’خرد‘‘ بھی اور ’’بردُ‘‘ بھی۔

اس کا کہنا تھا کہ ہمارے علاقے میں اچھی شادی وہ سمجھی جاتی ہے جس میں کھانا کھلایا بھی جاتا ہے اور ساتھ لے جانے کے لیے بھی دیا جاتاہے۔جس شادی میں صرف ’’خرد‘‘ ہواور ’’برد‘‘ نہ ہو لوگ اس کے خلاف اکثرپھٹ پڑتے ہیں۔ چھوڑویار۔صرف خرد تھا برد’ نہیں تھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔