ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی اور محترم عبدالقادر حسن کی یاد میں

ذوالفقار احمد چیمہ  بدھ 9 دسمبر 2020
zulfiqarcheema55@gmail.com

[email protected]

جو لوگ جو اپنی ذات کے خول سے باہر نہیں نکلتے اور جنکی سوچ اپنی ذات کے حصارتک محدود رہتی ہے، ان کے اٹھ جانے سے تومعاشروں پر کوئی اثر نہیں پڑتا مگر وہ لوگ جو اپنی ذات سے باہر بھی دیکھتے ہیں اور دوسروں کے دکھ درد کے بارے میں بھی سوچتے ہیں، وہ معاشروں کا قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں، ان کے چلے جانے سے معاشروں کا حُسن اور خیر کم ہو جاتا ہے اور ان کی کمی اور خلامدت تک پُر نہیں ہو سکتا۔ ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی بلاشبہ ایسی ہی شخصیت تھے۔

ہوش سنبھالا تو کتابِ مقدّس (قرآنِ حکیم) اور کورس کی کتابوں کے علاوہ گھر میں جس چیز سے تعارف ہوا وہ اردو ڈائجسٹ تھا۔ اردو ڈائجسٹ نے ہی ہمارے اندر اچھی نثر پڑھنے کا ذوق اور ملک اور قوم کے بارے میں سوچنے کا درد پیدا کیا۔

اردو ڈائجسٹ اپنے حُسن، تنوع، معیار اور کردار کے باعث جلدہی لاکھوں قارئین کے دلوں میں جا بسا اور پھر ملک کے اندراور باہر ہزاروں گھرانوں میں اس کا شدّت سے انتظار کیا جانے لگا۔ اس عظیم ادارے کی بنیاد دو بھائیوں ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی اور محترم الطاف حسن قریشی نے ملکر رکھی تھی۔ برسوں پہلے جو بیج بویا گیا اسے ڈاکٹر اعجاز حسن کی غیر معمولی انتظامی صلاحیّتوں اور جناب الطاف حسن قریشی کی حیرت انگیز تخلیقی قو تّوں نے ملکر ایک تن آور درخت بنا دیا۔ اردو ڈائجسٹ ایک سایہ دار درخت بھی تھا اور ایک عظیم ادارہ بھی، ایک درسگاہ بھی اور ایک اعلیٰ  پائے کی ٹریننگ اکیڈیمی بھی، جہاں بہت سے پتھر آئے اور ہیرے بنکر نکلے، جہاں بہت سے گمنام نوجوانوں نے تربیت حاصل کی اور نامور قلمکار بن گئے۔

آج کے بہت سے معروف صحافی اور مدیر اسی درسگاہ کے فارغ التحصیل ہیں۔ اردو ڈائجسٹ اسلامی تہذیب و اقدار کا بڑا توانا ترجمان تھا اور اب بھی ہے۔ وطنِ عزیز کے بانیوں کی روحیں اس کے اجرأ پر یقینا مسرت و انبساط سے سرشار ہوئی ہوں گی۔

بانیانِ پاکستان اگر زندہ ہوتے تو اس ادارے کی دل وجان سے سرپرستی کرتے۔ چند ہی سالوں میںجب اردو ڈائجسٹ سچ کی آواز اور حق کی للکار بن گیا تو طاغوتی طاقتوں نے اس کے خاتمے کی سازشیں شروع کردیں، پھر کئی بار یہ بجلیوں کی زد میں آیا مگر کائناتوں کے خالق اور مالک نے پاکیزہ اور ارفع جذبوں سے سرشار دونوں بھائیوں کو ہمیشہ سرخرو کیا۔ کتابوں میں علی برادران کے تذکرے پڑھے اور بزرگوں سے سنے تھے مگر ستر کی دھائی میں ذوالفقار علی بھٹو کی آمریّت اور جبر کو للکارنے پر قریشی برادران کا نام پورے ملک میں گونجنے لگا۔ کئی بار پابندِ سلاسل ہوئے مگر ہمیشہ ثابت قدم رہے۔

بے پناہ قائدانہ صلاحیّتوں کے مالک ڈاکٹراعجاز حسن قریشی بہت بڑے ادارہ ساز تھے، انھوں نے خلقِ خدا کی بہبود کے لیے کئی قابلِ فخر ادارے قائم کیے جن میں کاروانِ علم فاؤنڈیشن بہت نمایاں اور قابلِ ذکر ہے۔ اپنی جیب سے ایک دھیلا خرچ نہ کر کے حکومت کی سرپرستی اور میڈیا کی مدد سے کچھ لوگو ں نے فلاحی ادارے قائم کیے اور پھران سے اپنی ذاتی تشہیر اور اپنی امیج بلڈنگ کا کام لیا۔ مگر ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی کا طرزِ عمل ہمیشہ  ؎ ’نہ ستائش کی تمنّا نہ صلے کی پرواہ‘ کا مظہر رہا ہے۔ ہزاروں مستحق طلبا و طالبات نے کاروانِ علم فاؤنڈیشن کے تحت ملنے والے وظائف سے اپنی تعلیم مکمل کی اور ملک کے مفید شہری بنے۔

اردو ڈائجسٹ میں مقبول جہانگیر کے شکا ر کی داستان (اب ان کی صاحبزادی اردو ڈائجسٹ کے ادارتی بورڈ میںشامل ہیں) اور الطاف حسن قریشی صاحب کے قلم سے معروف شخصیات کے انٹر ویو ہمارے پسندیدہ مضامین ہوتے تھے۔ پھر وہ دن بھی آیا کہ اردو ڈائجسٹ کے ٹائٹل پر اِس نا چیز کی تصویر تھی اور اندرونی صفحات پر تفصیلی انٹرویو، ہمارے ہاں علم اور کردارکا اتصال کم نظر آتا ہے۔ ڈاکٹر اعجاز حسن بلاشبہ علم اور کردار کا اعلیٰ امتزاج تھے۔ ان کا خلاء مدتوں محسوس ہوتا رہیگا۔

ان کے عظیم بھائی کی دعائے مغفرت کے لیے محترم الطاف حسن قریشی صاحب سے ملنے لاہور گیا تو وہ ڈاکٹر صاحب کی باتوں کے علاوہ بھٹو دور میں اپنی قید و بند کے واقعات بھی سناتے رہے، پھر کہنے لگے ’’لگتا ہے قابلیّت اور مطالعے میں تو نہیں مگر جبر اورا نتقام کے معاملے میں اُس وزیرِ اعظم کی روح موجودہ وزیرِ اعظم میںحلول کر گئی ہے‘‘۔

ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی صاحب کے صاحبزادے طیّب اعجاز سے ملکر اور اردو ڈائجسٹ کا جدید طرز کا دیدہ زیب دفتر دیکھ کر بہت دل خوش ہوا۔ اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ڈاکٹر اعجاز قریشی صاحب کے درجات بلند فرمائیں اور اس عظیم ادارے کو الطاف حسن قریشی صاحب کی رہنمائی اور عزیزم طیّب اعجاز قریشی کی توانائی تا دیر میّسر رہے اور یہ ادارہ قوم کودرست سمت دکھاتا رہے اور منزل کا پتہ بتاتا رہے۔

٭٭٭

محترم عبدالقادر حسن بلاشبہ کالم نگاری کے بانی اور استاد تھے۔آج کے بہت سے جیّد کالم نگار عبدالقادر حسن صاحب کو دیکھ کر اور ان کے کالموں سے Inspireہو کر اس میدان داخل ہوئے ۔ میںتو ایک عملی آدمی ہوںاور کئی دھائیوں تک قانون کے نفاذ اور اداروں کی اصلاح اور درستگی کی ذمّے داریاں( جوش و جذبے سے) نبھاتا رہاہوں ۔ اُس کام سے کچھ فراغت ملی تو قلم پکڑ لیا ہے ۔  مگر زمانہء طالب علمی سے میں عبدالقادر حسن صاحب کا قاری رہا ہوں۔اُسوقت دل میں یہ حسرت پیدا ہوتی تھی کہ کاش میں بھی ایسا لکھ سکتا۔

میری اُن سے عقیدت کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ وہ اﷲ اور رسولﷺ سے اور اس کے بعد ملک سے سچی محبت کر تے تھے۔وہ اسلامی نظریہّء حیات کے جراتمند علمبردار تھے اور اس سلسلے میں لیت ولال یا معذرت خواہانہ رویے کے روادارنہ تھے۔

ذوالفقارعلی بھٹو کے آمرانہ اور ظالمانہ دور میں ہم جی سی اور پھر پنجاب یونیورسٹی لاء کالج کے طالب علم تھے۔ جبر کو جرأت سے چیلنج کرنے پر ہم الطاف حسن قریشی صاحب، مجیب الرحمان شامی صاحب اور عبدالقادر حسن صاحب کے بہت بڑے مداح بن گئے اور ان کی ہر تحریر پڑھنے لگے ۔ عبدالقادر حسن کی تحریروں میں دیہاتی زندگی کا اخلاص، تازہ ہَل سے نکلی ہوئی مٹّی کی باس اور شائستگی کی اعلیٰ روایات کا پاس بدرجہء اتم نظر آتا تھا۔

ان کی تحریر میں دریاؤں کی طغیانی نہیں ، دیہی راجبا ہ کی روانی ہوتی تھی جو قاری کو اپنے سحر میںلے لیتی تھی۔ ان کے کالموں میں حکمرانو ں پر تنقید بھی ہوتی تھی مگرکوئی فقرہ یا کوئی لفظ ایسا نہیں ہوتا تھا جو ذوق ِسلیم پر گراںگذرے۔ کبھی کبھی ایسے لطیفے تحریر کر تے تھے کہ جنھیں پڑھکر قاری اچھل پڑے۔برسوں پہلے جنرل ضیاء الحق کے دور میں ان کے کسی کالم میں ایک قصّہ یا لطیفہ پڑھا جو میں سیکڑوں بار مختلف محفلوں میں سنا تا رہا۔ ہوا یوں کہ ضیاء الحق صاحب نے علمائے کرام ومشائخِ عظام کی دعوت کی۔

میز طرح طرح کے حلووں اور مٹھائیوں سے بھردیے گئے۔ دس منٹ میں پلیٹیں صاف ہوگئیں۔ صرف ایک پلیٹ میں دوعدد رس گلے بچ گئے،دور سے ایک مولوی صاحب کی نظر پڑی تو وہ ان کی جانب بڑھنے لگے۔ قریب پہنچ کر انھوں نے پلیٹ کی جانب ہاتھ بڑھایا تو بیرے نے پلیٹ اٹھالی اور کہا ’’حضور! آپ  نے ہر چیز کا  توصفایا کر دیا ہے رس گلوں کا یہ آخری جوڑا بچا ہے۔

اسے رہنے دیں تاکہ ان کی نسل تو چل سکے‘‘۔ مشرقی پاکستان میںہتھیار پھینکنے والے جنرل نیازی کے خلاف کالم لکھا تو اس نے ان کے خلاف دوکروڑ کے ہر جانے کا دعویٰ دائر کردیا۔ اس پر انھوںنے لکھّا کہ ’’جنرل نیازی! وہ پستول جو تم نے بھارتی جرنیل کے حوالے کیا ہے وہ ہمیں واپس لادو۔ وہ ہماری قومی عزّت اور غیرت کی علامت تھا،اس کے بدلے میں، میں لاہور کے کسی چوک پر جھولی پھیلا کر تمہیں دس کروڑ اکٹھا کر کے دے دونگا۔ مگر قومی وقار کی نشانی ہمیں واپس چاہیے‘‘۔

عبدالقادر حسن صاحب کا صحافتی سفر بہت طویل تھا ، چودہ سال کا دیہاتی نوجوان لاہور آیا اور یہیں کا ہو کر رہ گیا۔وہ مختلف قومی اخبار ات کے بہت مقبول کالم نگار رہے ۔ انھوں نے اپنا ہفت روزہ افریشیا بھی نکالا جو بھٹودور کا بہت مقبول  ہفت روزہ تھا ۔

برسوں پہلے میں جب لاہور شہر کا کوتوال (ایس پی سٹی)تھا تو بادشاہی مسجد کے قُرب میں واقع ایک بدنام جگہ پر بہت بڑا آپریشن ہوا، اِس پر انھوں نے ایک کالم لکھا اوراس آپریشن کو پولیس کی روایتی کارروائی قرار دیا۔اس کے کچھ عرصہ بعدجب انھیں حقائق کا علم ہواتوان سے دوستی ہو گئی۔ پھر ان سے ایسا تعلق قائم ہوا جو ہمیشہ قائم رہا۔

جس طرح پہلے کہا ہے کہ عبدالقادر حسن صاحب نے اپنی فکر شرارِ بولہبی سے نہیں چراغِ مصطفوی ﷺ سے روشن کی تھی۔ وہ اسلامی نظریہّء حیات کے پرجوش حامی تھے اور اپنی تحریروں میں اپنی اس محبت کا کھل کر اظہار کرتے رہتے تھے ۔وہ بے پناہ انرجی اور مضبوط ارادے کے مالک تھے ۔ حیرت ہے کہ وہ نویّ سال کی عمر تک بلاناغہ کالم لکھتے رہے۔روزنامہ ایکسپریس میں اُنکا اور میرا کالم ایک روز اورایک ہی صفحے پرچھپتا تھا۔ آج میرا کالم چھپا مگر ان کا کالم اور تصویر نظر نہ آئی تو بہت دکھ ہوا۔ میری خوش بختی تھی کہ لاہور میں ہونے کی وجہ سے مجھے اپنے دین اور ملک سے محبت کرنے والے اس شاندار انسان کے جنازے میں شامل ہونے کا اعزاز حاصل ہوگیا۔

ان کا بیٹا اطہر پی آئی اے کا افسر ہے اور ایک طرح سے میرا کولیگ رہا ہے کہ میں بھی بھلے وقتوں میں کچھ عرصے کے لیے پی آئی اے کی سیکیورٹی ڈویژن کا سربراہ رہا ہوں۔ جنازے پر اطہر سے کھل کر بات نہ ہوسکی۔ اللہ تعالیٰ ان کی اولاد اور ان کے بچوں کو صبرِ جمیل عطا کرے اور ان کے نظریاتی اثاثے کا صحیح وارث بنادے۔ میری خصوصی دعا ہے کہ ان کی بیٹی اور ہماری بہن عاصمہ حمید (جوکنیرڈ کالج میں شعبہء سیاسیات کی سربراہ ہیں) بغیر کسی جھجک کے پوری آن اور شان کے ساتھ اپنے عظیم والد کی فکراور نظریات کا علم بلند کریں اور طا لبات کے دل و دماغ کو اُسی نظریے یعنی کائنات کی سب سے بڑی سچائی کے نُور سے منور کردیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔