شہر کی طرف بھاگنے والے گیدڑ

سعد اللہ جان برق  بدھ 9 دسمبر 2020
barq@email.com

[email protected]

یہ تو آپ کو ماننا پڑے گا کہ یہ جو انسان ہے، معاف کیجیے ہمارا اشارہ آپ کی طرف نہیں، انسانوں کی طرف ہے جو بہت ہی چالو قسم کی چیز ہے۔ اسے اپنے گناہوں، غلطیوں اور جرائم کو دوسروں پر تھوپنا خوب آتا ہے۔ اچھا کام کرتا ہے جو کبھی کبھی ’’غلطی‘‘ سے کر دیتا ہے تو مونچھوں کو تاؤ دے دے کر ساری دنیا سر پر یوں اٹھا لیتا ہے جیسے مرغی انڈا دینے کے بعد سارا محلہ سر پر اٹھا لیتی ہے اور جب برُا کرتا ہے جو ہمیشہ کرتا رہتا ہے تو… کیاکروں خدا کو منظور نہیں تھا، شیطان نے ورغلایا۔ قسمت نے دھوکا دیا۔

اب یہ جو کہاوتیں اس نے بنائی ہوئی ہیں یا اقوال زریں کا پشتارہ لیے پھرتا ہے اور سب کچھ دوسری مخلوقات اور جانوروں میں ڈالتا رہتا  ہے، ان میں سے صرف ایک کو لے لیجیے۔ جب گیدڑ کی موت آتی ہے تو شہر کی طرف بھاگتا ہے۔

سراسر غلط ہے۔ آپ نے کسی گیدڑ کو شہر کی طرف بھاگتا ہوا دیکھا ہے؟ نہیں نا۔ سارے جنگل بیابان میں مرتے ہیں البتہ یہی کہاوت اگر الٹ کر انسان پر ڈال دی  جائے تو؟ اور آج کل تو نہ کسی سے پوچھنے کی ضرورت ہے اور نہ دیکھنے کی، انسان ہی ہیں جو شہر کی طرف بھاگتے دکھائی دیتے ہیں جہاں موت ان کی منتظر ہوتی ہے، اکثر کو تو فوراً ہڑپ کر لیتی ہے اور اس کے لیے اس نے لوہے کے بہت سارے ’’درندے‘‘ پالے ہوئے ہیں جو بچ جاتے ہیں، اسے کس مپرسی کی موت مار دیتی ہے۔ کچھ کو بلوں اور ٹیکسوں سے موت کے گھاٹ اتار دیتی ہے اور اگر کوئی بہت ہی سخت جان ہو، ’’مرگ مفاجات‘‘ سے کسی طرح بچ جائے تو پھر اسے زندہ درگور کر دیتی ہے۔ بیچاروں کو اپنے پر زندہ ہونے کا گمان ہوتا ہے ورنہ ہر لحاظ سے مُردگان میں شمار ہوتے ہیں، اپنی لاشوں کو یہاں وہاں گھسیٹتے ہوئے اور یہ گاتے ہوئے کہ:

زندگی کی راہوں میں درد وغم کے میلے ہیں

بھیڑ ہے قیامت کی، پھر بھی ہم اکیلے ہیں

ہم نے اپنی سرگزشت ’’یادوں کے جنازے‘‘ میں ایسے بہت سارے مردگان کا ذکرکیا ہے جو شہر میں جا کر فوراً مر گئے تھے لیکن دفن چالیس پچاس سال بعد ہوئے اور ا ٓج کل تو ’’گیدڑوں‘‘ کی یہ بھاگم بھاگ شہر کی طرف بہت زیادہ بڑھ گئی کیونکہ زرعی ملک کی حکومتوں نے وہ شاخ ہی توڑ ڈالی ہے جس پر بیچارے بسیرا کیاکرتے تھے:

پلٹ کے سوئے چمن دیکھنے سے کیا حاصل

وہ شاخ ہی نہ رہی جو تھی آشیاں کے لیے

دھرتی ماں جو اسے کھلاتی تھی، خود ہی اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی بلکہ تقریباً مردہ اور نابود ہو چکی ہے۔ سیمنٹ اور سریے اینٹ کے حیوانوں نے اسے اس بری طرح کچل دیا ہے کہ شاید کبھی سرسبز ہو سکے۔ کیونکہ زرعی ملک کی زرعی حکومتوں نے اس پر اتنے مصنوعی پہاڑ دھرلیے ہیں کہ اس کے نیچے وہ سانس تک نہیں لے پا رہی ہے تو اپنے بچوں کو پالے گی کیسے؟ اس لیے ’’گیدڑ‘‘ بے تحاشا موت کے لیے شہر سے بھاگ رہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ کسی نے ’’تیر‘‘ سے پوچھا کہ تم اتنی تیزی سے کیوں اڑ رہے ہو؟ تیر نے کہا، میں کہاں دوڑ رہا ہوں، یہ تو کمان کی تانت مجھے اڑا رہی ہے اور ’’بھوک کی کمان‘‘ تو ساری کمانوں سے طاقتور ہوتی ہے:

گیدڑ کی جب موت آتی ہے یہ سفید جھوٹ نہیں تو اور کیا ہے۔ کبھی آپ نے کسی ایک گیدڑ کو بھی شہر کی طرف بھاگتے یا شہر میں مرتے دیکھا۔ وہ تو شہر سے دور بھاگتے ہیں، اس لیے آرام سے اپنی طبعی عمر پوری کرکے اپنے گھر میں بغیر رسوا ہوئے مر جاتے ہیں۔ یہ تو دو پیروں والے خواہ مخواہ اپنی بلا ان کے سر ڈال دیتے ہیں اور پھر کہتے ہیں:

ہوئے مر کے ہم جو رسوا ، ہوئے کیوں نہ غرق دریا

نہ کبھی جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا

گیدڑوں (دو پیروں والے) کا ایک خاندان ہمارے گاؤں میں رہتا تھا۔ محنت مشقت کر کے آرام سے دو وقت کی روٹی پاتا تھا کہ کسی دوسرے گیدڑ نے انھیں ورغلایا کہ شہر میں عیش ہی عیش ہے۔ انھوں نے فوراً اپنا گھونسلا بیچا اور شہرجا وارد ہوئے۔ گاؤں کے لوگ بھی انھیں بھول بھال گئے۔

ایک دن ہم شہر کی ایک آبادی فقیرآباد میں کسی کام سے جا رہے تھے۔کہ اس خاندان کی بوڑھی خاتون سڑک کنارے کھڑی دکھائی دی۔ علیک سلیک ہوئی اور اس نے ہمیں سختی سے روک لیا کہ چائے ضرور پینی پڑے گی، وہ آگے ہم پیچھے۔ ہمیں چائے سے زیادہ تجسس نے مجبور کیا۔

وہ ایک گیرج نامی کمرے میں داخل ہو گئی تو کیا دیکھتے ہیں کہ دیواروں کے ساتھ چارپائیاں لگی ہوئی تھیں جن کے پایوں کے نیچے مٹی کے بلاک بنا کر اونچا کیا گیا تھا اور نیچے بھی سونے کی گنجائش نکالی گئی تھی، نشست چارپائیوں کے درمیان بچھائی گئی چٹائی پر تھی، تیسری چارپائی کے نیچے موبائل چولہا اور کھانے پکانے کا سامان اور برتن تھے۔ آج اس خاندان کا کوئی فرد باقی نہیں رہا۔ بچے سارے ٹی بی کا شکار ہو کر مر کھپ گئے۔ بڑے پہلے ہی ’’شہر‘‘ کی خوراک بن چکے ہیں بلکہ سارے گاؤں میں کسی کو یاد بھی نہیں کہ ایسا کوئی خاندان اس زمین کے اوپر کبھی تھا بھی یا نہیں۔ یہ لوگ گیدڑ بن کر شہر کی طرف نہیں بھاگتے تو شاید گاؤں کا وہ ٹوٹا پھوٹا مکان اب بھی آباد ہوتا۔ پشتو کی ایک اور کہاوت یاد آئی ہے۔

کہ غریب تو تمہیں خدا نے بنایا ہے لیکن گدھے تو تم خود بنے ہو۔ دو پیروں کے اس گیدڑ کی اگر شہر میں موت نہیں بھی آتی ہے تو ’’گم‘‘ تو ہو ہی جاتا ہے۔ نام سے زیادہ مکان نمبر ہو جاتا ہے اور انسان سے ہندسہ بن جاتا ہے۔ اور بات کرتا ہے جنگلی گیدڑ کی۔ اس طرح کی اور باتیں بھی اکثر بناتا رہتا ہے اور وہ باتیں جو یہ جانوروں سے منسوب کرتا ہے، خود اس کے اندر ہوتی ہیں، جیسے چیونٹی کی موت آتی ہے تو اس کے پر نکل آتے ہیں اور آئینے میں نہیں دیکھتا کہ اس کے سر اور پیر تینوں اسے کہاں لے جا رہے ہیں:

چاہے صحرائے خرد ہو کہ بیابان جنوں

دھجیاں پاؤ گے دوچار گریبانوں کی

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔