سانحہ خیبر ٹیچنگ اسپتال

مزمل سہروردی  بدھ 9 دسمبر 2020
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

آپ اندازہ کریں، مریض آپریشن تھیٹر میں لیٹا ہوا ہے، اسے آکسیجن کی ضرورت ہے اور اسپتال میں آکسیجن ختم ہو گئی ہے۔ آکسیجن نہ ملنے کی وجہ سے وہ تڑپ رہا ہے، ڈاکٹر دیکھ رہے ہیں۔

یہ سوچ کر ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں، انسانی جسم پر کپکپی طاری ہو جاتی ہے اور خوف آنے لگتا ہے۔ کئی فلموں میں دیکھا ہے کہ قاتل اسپتال میں آ کر مریض کا آکسیجن ماسک اتار دیتا ہے اور وہ تڑپ ٹرپ کر مر جاتا ہے۔ لیکن حقیقت میں اس ایسا ہو گا، اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔

پشاور کے خیبرٹیچنگ اسپتال میں پیش آنے والے اس سانحہ نے درد دل رکھنے والے ہر انسان کو دکھی کر دیا ہے۔ لیکن میرے لیے یہ سانحہ اتنا پریشان کن نہیں ہے بلکہ بعد کے حالات زیادہ پریشان کن تھے۔ ایک لمحہ کے لیے اگر میں اس سانحہ کو حادثہ مان بھی لوں حالانکہ اسے حادثہ کہنا کسی طور بھی درست نہیں ہے، پھر بھی حکومت کا جو رویہ سامنے آیا ہے، وہ بے حسی کی اپنی جگہ ایک مثال ہے۔ کیا کوئی حکومت اس قدر بے حس بھی ہو سکتی ہے؟کیا انسانی جانوں کے قتل کے بعد حکمران ایسے بھی کر سکتے ہیں؟ کیا ہماری حکومت کے دل میں انسانی جان کی یہ قیمت ہے؟

آپ کہہ سکتے ہیں کہ واقعہ کے بعد حکومت نے خیبر ٹیچنگ اسپتال کے سات اہلکاروں کو معطل کر دیا ہے۔ میں نے یہ کالم دو دن کی تاخیر سے اس لیے لکھا ہے کہ مجھے امید تھی کہ حکومت کی طرف سے سخت ایکشن ہو گا۔ لیکن کے پی اور مرکزی حکومت کے رویے نے سخت مایوس کیا ہے۔ کے پی کے وزیر صحت کو تو رضاکارانہ طور پر استعفیٰ دے دینا چاہیے تھا۔ لیکن وہ تو  وزارت کے ساتھ چپکے ہوئے ہیں بلکہ انھوں نے خیبر ٹیچنگ کی انتظامیہ کو اس بات پر شاباش دینی شروع کر دی کہ انھوں نے سانحہ کی انکوائری رپورٹ چوبیس گھنٹے میں دے دی ہے۔ کوئی بتائے کہ جو انکوائری رپورٹ دی گئی ہے، وہ حکومت کے خلاف ایک اور چارج شیٹ ہے۔ اس رپورٹ کے بعد تو کچھ کہنے کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی ہے۔

کے پی حکومت کی جانب سے آکسیجن نہ ملنے پر جاں بحق ہونے والوں کے لیے دس دس لاکھ روپے معاوضے کا اعلان کیا گیا ہے۔ ویسے تو انسانی جان کی کوئی قیمت نہیں ہے نہ اس کا کوئی نعم البدل نہیں ہے، اس لیے دس لاکھ روپے کا اعلان بھی مضحکہ خیز ہے۔ یہ لوگ کسی حادثے میں جاں بحق نہیں ہوئے ہیں بلکہ میرے خیال میں ان بدنصیبوںکا قتل ہوا ہے۔ کیا ملک میں قتل کر کے معافی مانگنے کا ریٹ دس لاکھ روپے ہیں۔ اگر قصاص کے قانون کو ہی دیکھ لیں تو پھر بھی دس لاکھ روپے بہت کم ہیں۔ یہ اعلان ہی کے پی حکومت کی سوچ کا عکاس ہے،کس قدر بے حسی ہے۔

خیبر ٹیچنگ اسپتال کے واقعہ کے اگلے دن میں انتظار کرتا رہا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کب اپنی ہی کے پی حکومت کے خلاف ایکشن لیتے ہیں۔ کب اس واقعہ کی مذمت پر ٹوئٹ کرتے ہیں۔ میں انتظار کرتا رہا کہ کب وہ حکومتی ترجمان جو سندھ کے اسپتالوں کی تصاویر ٹوئٹ کرتے تھکتے نہیں ہیں، وہ اس سانحہ پر خاموش کیوں ہیں۔ ان کے ٹوئٹر ہینڈل اس واقعہ پر خاموش کیوں ہیں۔ وہی  وزیراعظم عمران خان جو قوم کو سمجھاتے تھے کہ کوریا کے وزیر اعظم نے ایک کشتی ڈوبنے پر وزارت عظمیٰ سے استعفیٰ دے دیا تھا۔

وہ اس واقعہ پر اپنی ہی حکومت کے ایک بھی عہدیدار سے استعفیٰ لینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ان کی اس خاموشی کو کیا نام دیا جائے؟ چلیں آپ ذرا منظر نامہ بدل لیں اور یہ فرض کریں کہ کے پی میں اپوزیشن کی کسی جماعت کی حکومت ہے اور ایسا سانحہ رونما ہو گیا ہے۔ اب کیا ہو گا؟ تحریک انصاف کے عہدیدار اب تک کتنے ٹوئٹ کر چکے ہوتے۔ نیب حرکت میں آ چکا ہوتا۔ اگر چیف جسٹس ثاقب نثار ہوتے تو اب تک سو موٹو بھی ہو چکا ہوتا۔ وزیر اعلیٰ کو ہٹانے کا مطالبہ زور پکڑ چکا ہوتا۔ قتل کا پرچہ درج کرنے کے مطالبے زور پکڑ رہے ہوتے۔ قائد تحریک انصاف عمران خان لواحقین کے گھر پہنچ چکے ہوتے۔ پریس کانفرنس پر پریس کانفرنس ہو رہی ہوتیں۔ آکسیجن کی خرید و فروخت میں کرپشن کی کہانیاں سامنے آ چکی ہوتیں۔ دھرنے کی تیاری شروع ہو گئی ہوتی۔

لیکن اب ایسا کچھ نہیں ہے کیونکہ اپنی حکومت ہے۔ ایک پراسرار خاموشی ہے۔مجھے اپوزیشن سے بھی بہت گلہ ہے۔ بالخصوص کے پی کی اپوزیشن نے بھی مجھے بہت مایوس کیا ہے۔ میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ کے پی کی اپوزیشن جماعتیں اس سانحہ پرکیوں خاموش ہیں۔ ان کی کیا مجبوریاں ہیں؟ یہ ٹھیک ہے کہ ملک کے سیاسی منظر نامے پر بڑے بڑے مسائل چل رہے ہیں۔ لیکن کے پی کی صوبائی اپوزیشن جماعتوں نے بھی عوام کو بہت مایوس کیا ہے۔ سمجھ سے باہر ہے کہ وہ کیوں خاموشی ہیں۔

میں حیران ہوں کہ پنجاب میں تو دوائیاں مہنگی خریدنے پر نیب انکوائری کر رہا ہے۔ سندھ میں نیب متحرک ہے تو پھر کے پی کا نیب کیوں متحرک نہیں ہے۔ کیا آکسیجن کا بروقت ٹینڈر نہ ہونا نیب کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا۔ پنجاب میں تو آتا ہے۔ کیا ایسا نہیں لگ رہا ہے کہ مرکزی حکومت نے کے پی حکومت کو اس سانحہ پراین آر او دے دیا ہے۔ کیا این آر او نہ دینے کی گردان صرف اپوزیشن کے لیے ہے۔ خیبرپختونخوا کے غریب عوام کو دکھانے اور ان کی اشک شوئی کے لیے ہی کوئی جھوٹا سچا ایکشن کر لیا جاتا۔ کے پی کے وزیر اعلیٰ کو ہی کوئی سخت ایکشن لینا چاہیے تھا۔ لیکن کچھ نہیں۔

کے پی میں تو تحریک انصاف یہ بھی نہیں کہہ سکتی کہ ہم تو اب آئے ہیں۔ وہاں ان کی دوسری مرتبہ حکومت بنی ہے۔ اب ان کی حکومت کو مسلسل آٹھ سال ہو گئے ہیں۔ اب وہ نظام کی خرابی کی ذمے داری اپوزیشن پر نہیں ڈال سکتے۔ اب تمام تر خرابی کے وہ خود ذمے دار ہیں۔ اگر اسپتال میں آکسیجن خریدنے کا ٹینڈر بروقت نہیں ہوا تو اس کی ذمے داری ماضی کے کرپٹ حکمرانوں پر نہیں ڈالی جا سکتی۔ اب اس ذمے داری کا بوجھ تحریک انصاف کو خود ہی اٹھانا پڑے گا۔

کیا ان آٹھ سالوں میں کے پی کاہر اسپتال بین الا قوامی معیار کے مطابق نہیں ہو جانے چاہیے تھے؟ کیا ان میں عالمی معیار کا علاج نہیں ملنا چاہیے؟کیا صرف ہیلتھ انشورنس دینا کافی ہے؟ اس انشورنس کی بنیاد پر اسپتال سے علاج کے لیے اسپتال کو ٹھیک کرنا بھی حکومت کی ذمے داری نہیں؟ بہر حال حکومت کو اس سانحہ کے ذمے داران کو این آر او نہیں دینا چاہیے۔ سخت ایکشن وقت کا تقاضا ہے۔ باقی حکومت کی مرضی، جو اس کا دل چاہے وہ کرے۔ ہم کیا کر سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔