کورونا وائرس پھیلانے کی دھمکی سے بینک لوٹنے کی کوشش

ویب ڈیسک  جمعرات 10 دسمبر 2020
اس نے کہا کہ وہ کورونا کا شکار اور اگر اسے فوراً ڈالر نے دیئے گئے تو وہ وہاں موجود ہر شخص کو اس وائرس سے متاثر کردے گا۔ (فوٹو: فائل)

اس نے کہا کہ وہ کورونا کا شکار اور اگر اسے فوراً ڈالر نے دیئے گئے تو وہ وہاں موجود ہر شخص کو اس وائرس سے متاثر کردے گا۔ (فوٹو: فائل)

جارجیا: امریکا ایک شخص نے بینک کے عملے کو ’ناول کورونا وائرس‘ سے ڈرا کر بینک لوٹنے کی کوشش کی لیکن یہ کوشش ناکام ہوگئی۔

خبروں کے مطابق، امریکی ریاست کی جیورجیا کی کلیٹن کاؤنٹی میں ایک بینک کی برانچ میں ایک ادھیڑ عمر شخص شخص داخل ہوا جو بالکل نہتا تھا۔

اس نے بینک کے عملے سے کہا کہ وہ کورونا وائرس میں مبتلا ہے اور اگر اس کا مطالبہ پورا نہ کیا گیا تو وہ برانچ میں موجود ہر شخص کو اس وائرس سے متاثر کردے گا۔

البتہ عملے نے اس کی دھمکی پر کوئی توجہ نہیں دی بلکہ فوراً پولیس کو کال کردی جس پر وہ شخص وہاں سے خالی ہاتھ فرار ہوگیا۔

اس بارے میں کلیٹن کاؤنٹی شیرف آفس نے اپنے فیس بک پیج پر ایک پریس ریلیز جاری کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ برانچ کی سی سی ٹی وی فوٹیج سے وہ شخص 51 سالہ وکٹر ہارڈلی کرالی کے طور پر شناخت کیا گیا جسے گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا گیا ہے۔

تاہم اس ریلیز میں کئی اغلاط موجود ہیں جنہیں دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ شاید یہ اس شخص کا اصل نام نہیں۔

تفتیش کرنے پر اس شخص نے پولیس کو بتایا کہ وہ کورونا وائرس کی وجہ سے شدید مالی مشکلات کا شکار تھا اور اسے دو ہزار ڈالر کی اشد ضرورت تھی۔ اپنے حالات سے مجبور ہوکر وہ بینک لوٹنے جیسا مجرمانہ اور انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور ہوا۔

اس واقعے سے اگر ایک طرف امریکا میں کورونا وائرس سے پھیلنے والی معاشی بدحالی کا اندازہ ہوتا ہے تو دوسری جانب اس خدشے نے بھی سر اٹھایا ہے کہ آنے والے وقت میں کوئی جرائم پیشہ یا دہشت گرد گروہ کورونا وائرس کو بطور ہتھیار استعمال کرسکتا ہے، جو اس خطرے کو مزید بڑھا سکتا ہے۔

واضح رہے کہ امریکا کورونا وائرس سے بدترین متاثرہ ملک ہے جہاں کورونا وائرس سے روزانہ ایک ہزار سے زیادہ اموات ہورہی ہیں جبکہ وہاں کورونا متاثرین کی مجموعی تعداد ڈیڑھ کروڑ کے قریب پہنچ چکی ہے اور مجموعی اموات کی تعداد 2 لاکھ 82 ہزار کا ہندسہ عبور کرچکی ہے۔ وبائی ماہرین کو خدشہ ہے کہ موجودہ سال کے اختتام تک امریکا میں کورونا وائرس سے اموات کی تعداد تین لاکھ سے بھی زیادہ ہوسکتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔