مساجد و مدارس کا تحفظ لازم (پہلا حصہ)

اشفاق اللہ جان ڈاگیوال  جمعرات 10 دسمبر 2020
ashfaqkhan@express.com.pk

[email protected]

مملکت خداداد پاکستان کے گوشے گوشے میں پھیلی ہوئی مساجد اورمدارس کو اسلامی دنیا میں نمایاں مقام حاصل ہے، یہ ایک وسیع نیٹ ورک ہے، الحمدللہ جس کا نظام و انصرام مسلمانان پاکستان اپنی مدد آپ کے تحت جاری و ساری رکھے ہوئے ہیں۔

انھیں مساجد و مدارس کی بدولت اللہ رب العزت کے نور سے اس پاک سرزمین کا چپہ چپہ روشن ہے۔ قیام پاکستان کے وقت وطن عزیز میں مساجد و مدارس زیادہ بڑی تعداد میں موجود نہ تھی تاہم اس وقت کے اکابرین ملت امید کی کرن بن کر نمودار ہوئے اور اپنی مخلصانہ محنت اور پرعزم جدوجہد کے ذریعے شرک و الحاد کی آندھیوں میں علوم و معارف کے لیے چراغ روشن کیے، جو شمع ہدایت بن کر پاکستان کے ارض و سماء کو مینارہ نور بنائے ہوئے ہیں۔ یہ وہ قلعے ہیں جن کی بدولت پاکستان میں اسلام کی جڑیں مضبوط ہیں اور ان جڑوں کے ساتھ اہل پاکستان کے دل جڑے ہوئے ہیں۔

انھیں کمزور کرنے کے لیے مختلف ادوار میں ان مراکز کو نشانہ بنایا گیا، انھیں جھوٹے پروپیگنڈے میں الجھایا گیا، طرح طرح کی پابندیوں کے ذریعے انھیں کنٹرول کرنے کہ کوشش کی گئی لیکن الحمد للہ آج تک کوئی کوشش کامیاب نہ ہو سکی۔ کلمہ طیبہ کے نام پر بنے پاکستان میں روز اول سے لے کر آج تک کبھی حکومتی سطح پر وسائل مہیا کرنا تو دور کی بات،  کبھی ان اداروں کی جانب غیر متعصبانہ نظر سے دیکھا بھی نہیں کہ ان مدارس نے شرح خواندگی میں کیا کردار ادا کیا، غریب اور نادار پاکستانیوں کو مفت تعلیم، رہائش اور دوسری ضروریات زندگی مہیا کرنے میں کیا کردار ادا کیا۔

کبھی عصری علوم کے اداروں جن پر اربوں روپے قوم کے خرچ ہوتے ہیں اور قوم ہی کے بچوں سے لاکھوں روپے فیس لیتے ہیں کا موازنہ ان مدارس سے کیا۔ اگر تعصب کے عینک اتار کر دیکھا جائے تو پتا چلے کہ اگر حکومت قرآن وحدیث کے علم کے حصول میں آسانیاں پیدا کرے تو پوری دنیا سے لاکھوں طلباء پاکستان کے مدارس میں داخلہ لیں سکیں، اس کے برعکس پاکستان کی ایسی کونسی یونیورسٹی ہے جس میں داخلے کا کوئی غیر ملکی طالب علم سوچ بھی سکتا ہے؟

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان لوگوں کو جو مدارس چلا تے ہیں اور ان کی مالی امداد کرتے ہیں حکومت ان کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی، الٹا ان کے لیے مشکلات پیدا کر نا کہاں کی دانشمندی ہے؟ حکومت خود تو مندروں اور گرجا گھروں کے لیے زمین دے اور مسلمانوں کو مساجد اور مدارس کو زمین دینے اور امداد دینے سے روکیں۔

کچھ تو اسپتال کے ساتھ معاونت پر سینٹر بنیں اور کسی کو رب کی رضا کی خاطر اپنا مال خرچ کرنے کی اجازت بھی نہیں، کبھی ان پالیسی ساز لوگوں نے سوچا ہے کہ ایک دن مرنا ہے اور رب العالمین کے حضور پیش ہوکر حساب بھی دینا ہے۔

موجودہ حکومت جس روز سے اقتدار میں آئی ہے اسی روز سے دانستہ یا غیر دانستہ طور پر ایسے اقدامات سامنے آرہے ہیں جن سے مذہبی طبقے میں تشویش پیدا ہوئی،گزشتہ دنوں پاکستان کی پارلمینٹ نے ایف اے ٹی ایف کی ایماء پر پاکستان کے انھی مدارس و مساجد کے حوالے سے ایک قانون پاس کیا گیاجس سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ بیرونی طاقتوں کی ایماء پر بنائے گئے اس قانون سے مساجد و مدارس کی سالمیت اور خود مختاری کے لیے خطرات جنم لے چکے ہیں۔ ہماری دینی قیادت نے اس قانون کو ان مراکز کی آزادی و خود مختاری کو ایک بار پھر نقصان پہنچانے کی کوشش قرار دیا ہے۔

اس قانون کو جس عجلت میں پاس کیا گیا اور اس عمل میں اپوزیشن کو جس طرح بلڈوز کیا گیا اس سے شکوک وشبہات یقین بن گئے۔ پارلیمنٹ نے  ایف اے ٹی ایف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ایک ہی رات میں متعدد بل پاس کر کے انھیں ایکٹ کی شکل دی، ان میں ایک ایکٹ وقف جائیدادوں سے متعلق تھا، اس کی زد میں دینی مدارس و جامعات، مساجد اور دیگر ادارے آتے ہیں، اس کی بابت وسیع مشاورت ہونا چاہیے تھی لیکن حکومت نے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت انتہائی عجلت میں جو ایکٹ پاس کیا ہے۔

اس کے بارے میں ملک کی دینی قیادت تحفظات کا شکار ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے اس بل کے جواب میں کچھ ترامیم تجویز کی تھیں،لیکن اپوزیشن نے واک آؤٹ کر دیا تھا، اس لیے وہ ترامیم پیش نہ ہو سکیں۔ اسپیکر قومی اسمبلی اگر چاہتے تو وہ ترامیم کسی سرکاری ممبر کے ذریعے پیش کرا سکتے تھے لیکن انھوں نے بھی جانبداری کا مظاہرہ کیا۔جے یو آئی اور جماعت اسلامی کے اراکین پارلیمنٹ نے اس بل کی شدید مخالفت کی اور اسے پاکستان کی مساجد و مدارس کے خلاف سازش قرار دیا، پھر تنظیمات مدارس نے بھی اسے مسترد کردیا لیکن حکومت ابھی تک ٹس سے مس ہوتی نظر نہیں آرہی۔

یہ قانون ہے کیا اور اس کے کیا اثرات رونما ہوں گے؟ یہ بات سمجھنا نہایت ضروری ہے۔ پارلیمنٹ نے ایف اے ٹی ایف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اور اس کے ملحقات کے لیے ”وقف پراپرٹیز ایکٹ 2020‘‘ پاس کیا ہے، اس قانون کی پہلے شق کے مطابق یہ ایکٹ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی حدود میں وقف جائیداد ایکٹ 2020 کہلائے گا، اس کا دائرہ کار وفاقی دارالحکومت کی حدود تک محدود ہوگا اور یہ فوری طور پر نافذ العمل ہوگا۔

(جاری ہے)

ظاہر ہے کہ آگے چل کر چاروں صوبوں، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے لیے بھی اس کی روشنی میں ایسے ہی ایکٹ بنیں گے۔ اس کی شق 3 میں کہا گیا ہے: (۱) ”چیف کمشنر اسلام آباد و وفاقی دارالحکومت علاقہ جات کے لیے ناظمِ اعلیٰ اوقاف کا تقرر کرے گا اور بذریعہ حکم ایسی تمام وقف املاک جو اسلام آباد و وفاقی دارالحکومت کی علاقائی حدود کے اندر واقع ہیں، بشمول اس سے متعلق تمام حقوق، اثاثہ جات، قرضہ جات، واجبات اور ذمہ داریاں اس کے زیر اختیار دے سکتا ہے۔

(۲) کسی شخص کا ناظم اعلیٰ کے طور پر تقرر نہیں کیا جائے گا تاوقتیکہ وہ ایک مسلمان ہو اور ایسی قابلیت کا حامل ہو جیسا کہ وفاقی حکومت کی جانب سے صراحت کی گئی ہو، (۳) ناظمِ اعلیٰ، اوقاف اسلام آباد و وفاقی دارالحکومت : ناظمِ اعلیٰ کے نام سے ایک واحد کارپوریٹ ادارہ ہوگا جو دوامی تسلسل اور مخصوص مہر کا حامل ہو گا اور وہ اپنے کارپوریٹ کے نام سے مقدمہ دائر کر سکے گا اور اس کے خلاف بھی مقدمہ ہو سکے گا، (۴) ناظمِ اعلیٰ، وفاقی حکومت کی نگرانی میں اپنے فرائض سر انجام دے گا‘‘۔

مندرجہ بالا دفعہ تین (۲) میں ناظمِ اعلیٰ کی مطلوبہ کوالیفکیشن میں اْس کا مسلمان ہونا لازمی قرار دیا گیا ہے، کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ایکٹ صرف مسلمانوں کے اوقاف سے متعلق ہے اور غیر مسلموں کے اوقاف پر ان قوانین کا اطلاق نہیں ہو گا اور نہ اْن پر ایسی پابندیاں عائد ہوں گی جو اس قانون کا تقاضا ہیں؟ مذکورہ ایکٹ میں دفعہ 21 کی شق 2 کے تحت ناظمِ اعلیٰ کے دائرئہ اختیار کے بارے میں درج ہے: ”ناظمِ اعلیٰ اوقاف کسی ایسی وقف جائیداد کے بارے میں‘ جسے انتظامیہ نے اپنے کنٹرول میں نہیں لیا یا اْس کا ایسا ارادہ نہیں، وقف کے اہتمام، کنٹرول اور دیکھ بھال کے بارے میں ایسی ہدایات جاری کر سکتا ہے۔

جنھیں وہ ضروری سمجھے، بشمول ایسے خطابات یا لیکچرز پر پابندی کے بارے میں جو پاکستان کی خودمختاری اور یکجہتی کے بارے میں متعصبانہ ہوں یا مختلف مذہبی فرقوں یا گروہوں کے بارے میں نفرت انگیزی کے جذبات پر مبنی ہوں، اسی طرح ایسے شخص کو اپنے خطابات یا لیکچرز کے ذریعے جماعتی سیاست میں ملوث ہونے سے روک سکتا ہے، اوقاف کا ناظم ایسے احکامات اور ہدایات کی تعمیل کرائے گا‘‘۔ اس میں محکمئہ اوقاف کے ایک افسر کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ ازخود یہ فیصلہ کرے گا کہ آیا کوئی خطبہ، خطاب یا لیکچر ملکی خود مختاری اور سالمیت کے منافی ہے۔

مذہبی اور گروہی فرقہ واریت پر مبنی ہے اور اس سے جماعتی سیاست کا تاثر ملتا ہے، یہ تو اس کے ہاتھ میں ایسا ہتھیار آجائے گا کہ جسے جب چاہے جائز و ناجائز استعمال کرتا پھرے، وہ اپنے اس عمل کے بارے میں خود کسی کو جوابدہ نہیں ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ علماء اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ماہرین پر مشتمل ایسا بااختیار کمیشن ہو، جس کے پاس یہ افسر شکایت درج کرے اور اپنی شکایت کے ساتھ ثبوت و شواہد بھی پیش کرے، وہ کمیشن متعلقہ عالم یا خطیب کا موقف سن کر فیصلہ کرے۔ قرآن وحدیث اور فقہ اسلامی کی بیشتر تعلیمات ایسی ہیں‘ جنھیں سن کر کوئی شخص از خود رائے قائم کر سکتا ہے کہ اس سے فلاں کو ہدف بنایا گیا ہے۔

مذکورہ بالا ایکٹ کی دفعہ 9 بعنوان ”متفرق معلومات‘‘ میں کہا گیا ہے: ”دفعہ 9 کے تحت وقف یا ناظمِ وقف رپورٹنگ اتھارٹی کو اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ نمبر 7 مجریہ 2010ء‘کے تحت بیان کردہ طریقہ کار کے مطابق اپنے ذرائع کو واضح کرے گا‘‘۔ اندیشہ ہے کہ اس کی رُو سے دینی اداروں کو عطیات دینا ایک مشکل امر بن جائے گا اور رفاہی اداروں کے لنگر خانے‘ جن کی وزیر اعظم تحسین کرتے ہیں‘ بند ہو جائیں گے یا یہ قانون ایسا ذریعہ بن جائے گا کہ Pick & Choose کے ذریعے جسے چاہیں گے۔

ہدف بنائیں گے۔ اسلامی قانون اور جدید فلسفئہ قانون یہ ہے کہ آپ بے قصور ہیں تاوقتیکہ آپ کا قصور ثابت نہ ہو جائے، منی لانڈرنگ کے قانون کا وقف پر مبنی دینی مدارس و جامعات، مساجد اور رفاہی اداروں پراطلاق بے چینی کا سبب بن سکتا ہے یوں حکومت کے بارے میں لوگوں کے ذہنوں میں بد اعتمادی بڑھے گی۔

اس قانونکو  دینی طبقات قبول نہیں کریں گے، بنیادی طور پر فیٹف کے نام پر منظور کردہ وقف املاک سے متعلق موجودہ قانون مساجد، دینی مدارس اور اسلامی تعلیمات کو فروغ دینے کے لیے قائم دیگر اداروں پر غیر ضروری قواعد و ضوابط لاگو کر کے ان اداروں کے لیے املاک وقف کرنے کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے ۔  وقف کا اسلامی تعلیمات میں بہت اہم مقام ہے، وقف خالصتاً اﷲ کی رضا و خوشنودی کے لیے قائم کیا جاتا ہے۔  موجودہ وقف کا قانون بنیادی انسانی حقوق سے بھی متصادم ہے۔  یہ ہے وہ تبدیلیاں جن پر سوالیہ نشان نظر آرہا ہے۔  دینی حلقوں میں بے چینی بڑھے گی، اس لیے بہتر ہے حکومت اس قانون کی اصلاح کرے اور بیرونی دباؤ  سے نکلے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔