بھارتی کسان مودی سرکار سے کیوں ناراض؟

سید عاصم محمود  اتوار 13 دسمبر 2020
طبقہ ایلیٹ کے اشاروں پہ ناچتی بھارتی حکومت نے غریب کسانوں پر ظالمانہ وار کر دیا …خصوصی رپورٹ

طبقہ ایلیٹ کے اشاروں پہ ناچتی بھارتی حکومت نے غریب کسانوں پر ظالمانہ وار کر دیا …خصوصی رپورٹ

اواخر ستمبر میں بھارت کی مودی سرکار نے ایسے تین نئے زرعی قوانین بنائے جنھوں نے بھارتی کسانوں کو غم وغصّے میں مبتلا کر دیا۔جلد وہ حکومت کے خلاف پُرزور احتجاج کرنے لگے۔

نئی دہلی پہنچ کر انھوں نے بہت سے راستے بند کر دئیے جس پر پولیس سے ان کا ٹکراؤ بھی ہوا۔یہ سطور قلمبند ہونے تک ان کا احتجاج جاری ہے۔وجہ یہ کہ بھارتی کسان سمجھتے ہیں،نئے زرعی قوانین بنا کر بھارتی حکومت نے انھیں عالمی وقومی کمپنیوں اورکاروباری گروہوں کے رحم وکرم پہ چھوڑ دیا ہے۔مستقبل میں یہ کمپنیاں اور کاروباری ان کا استحصال کر کے خود خوب رقم کمائیں گے جبکہ خصوصاً کروڑوں چھوٹے کسانوں کی حالت زار میں خاص تبدیلی نہیں آئے گی۔

ان زرعی قوانین کے بہ سرعت اور زبردستی  نفاذ سے یہ نظریہ بھی درست ثابت ہوا کہ نریندر مودی بھارتی کارپوریٹ سیکٹر اور عالمی وقومی کمپنیوں کی کٹھ پتلی ہے۔وہ بڑی عیاری ومکاری سے ان کے مفادات کو تحفظ دینے والے قوانین  راتوں رات بنا دیتا ہے۔بھارت کا ایلیٹ طبقہ یا اشرافیہ جیسے قانون بھی بنانا چاہے،مودی سرکار کی مدد سے بنا ڈالتا ہے۔ان نئے زرعی قوانین کے پیچھے بھی بھارتی ایلیٹ طبقے کی لالچ وہوس پوشیدہ ہے۔

غذا منافع بخش بن گئی

دراصل پچھلے پانچ چھ برس سے کھانے پینے کی اشیا عالمی کاروباری سطح پر نہایت منافع بخش بن گئی ہیں۔جس طرح سونا چاندی جمع رکھنے پر ان اشیا کی قیمتیں بڑھنے سے منافع ملتا ہے،اب اشیائے  خورونوش ذخیرہ رکھنے سے بھی ان کی قیمتیں بڑھ جانے کے باعث اچھا منافع ملنے لگا ہے۔یہ عجوبہ جنم لینے کی بنیادی وجہ آبادی میں اضافہ ہونا ہے جبکہ دوسری جانب کھیتوں اور باغات کا رقبہ سکڑ رہا ہے۔جہاں کبھی لہلاتے کھیت اور سرسبز باغات تھے،وہاں اب پتھروں کی عمارتیں سر اٹھائے دکھائی دیتی ہیں۔مذید براں دنیا بھر میں کسان گاؤں اور دیہات چھوڑ کر شہروں کا رخ کر رہے ہیں جہاں سہولیات زندگی زیادہ اور آسانی سے دستیاب ہیں۔

کسانوں کی نقل مکانی مگر پوری دنیا میں غذائی بحران پیدا کر رہی ہے کیونکہ کھیتی کا رقبہ کم ہو رہا ہے اور پیداوار بھی۔یہ ہجرت روکنے کے لیے اب ہر ملک میں حکومت کسانوں کو مختلف مراعات دینے لگی ہیں۔مثلاً پاکستان میں زرعی آمدن انکم ٹیکس سے مبّرا ہے۔حکومت کسانوں کو کھاد ،بیج اور متعلقہ چیزوں پر سبسڈی دیتی ہے۔انھیں بجلی بھی سستے داموں ملتی ہے۔نیز ’’کم ازکم امدادی قیمت‘‘پر حکومتیں کسانوں سے وافر پیدا ہونے والی غذائیں خریدتی ہیں۔مقصد یہ ہے کہ انھیں اپنی محنت کی معقول رقم مل سکے۔حکومتیں منڈیاں بھی قائم کرتی ہیں جہاں کسان یا ان کے نمائندے اشیائے خورونوش لا کر فروخت کرتے ہیں۔مدعا یہ ہے کہ کسانوں کو اپنا مال بیچنے میں آسانی رہے۔

بھارت دنیا کا سب سے بڑا زرعی ملک ہے۔اس مملکت میں سب سے زیادہ رقبے پر کاشتکاری ہوتی ہے۔پھر امریکا اور چین کا نمبر آتاہے۔پچھلے ستر برس سے بھارت کی وفاقی اور ریاستی حکومتیں اپنے کسانوں کی مختلف طریقوں سے سرپرستی کر رہی ہیں۔مثال کے طور پر پاکستان میں تو حکومتیں صرف ایک فصل(گندم)کم ازکم امدادی قیمت پر خریدتی ہیں،بھارت میں ’’23‘‘اشیائے خورونوش خریدی جاتی ہیں۔ان میں گندم، چاول، کپاس، گنا، مکئی، باجرہ، جوار، دالیں، سرسوں، سویابین، مونگ پھلی، ناریل اور پٹ سن شامل ہیں۔مقصد یہی کہ کسان کو اپنی پیداوار کی اتنی رقم ضرور مل جائے کہ وہ  ضروریات پوری کر کے اپنا کام جاری رکھ سکے۔

سرکاری تحفظات خطرے میں

مودی سرکار کے نئے زرعی قوانین کی بدولت اب کوئی بھی کمپنی یا کاروباری کسان سے براہ راست اس کی مصنوعات خرید سکے گا۔بظاہر یہ ایک اچھا اقدام ہے کیونکہ جس خریدار نے اونچی بولی لگائی،کسان اپنی اجناس اسے بیچ دے گا۔یوں اسے مالی فائدہ ہو گا۔مگر سبھی بھارتی کسانوں کو یقین ہے کہ طویل المعیادی لحاظ سے یہ قوانین ان کے لیے سخت نقصان دہ ثابت ہوں گے۔

وجہ یہ کہ کسان سمجھتے ہیں،مودی حکومت مستقبل میں آخرکار کم ازکم امدادی قیمت اور منڈیوں کے نظام ختم کر دے گی تاکہ اپنے اخراجات کم کر سکے۔گویا بھارتی حکومت  نے ستر برسوں سے اپنے کسانوں کو جو تحفظ فراہم کر رکھے ہیں،مودی جنتا ان کا خاتمہ چاہتی ہے۔جب بھی یہ تحفظ ختم ہوئے،نجی کمپنیاں اور کاروباری گروہ کسانوں کا استحصال کرسکتی ہیں۔تب کسان مجبور ہو گا کہ وہ اپنی مصنوعات انہی کو ان کی مرضی کی قیمت پر فروخت کرے۔کم ازکم امدادی قیمت اور منڈیاں ختم ہونے سے وہ اپنا مال فروخت کرنے کا متبادل طریق کار کھو بیٹھے گا۔

کمپنیوں اور کاروباری گروہوں کی تاریخ سے عیاں ہے کہ یہ خفیہ یا ظاہری طور پہ آپس میں تال میل رکھ کر بھی کام کرتے ہیں۔یہ ایک دوسرے سے سازباز کر کے کسی مصنوعہ کی قیمت کم یا زیادہ کر سکتے ہیں تاکہ اپنے مالی مفادات پورے کر لیں۔یہ عمل یا چلن غیر اخلاقی اور غیرقانونی ہے کیونکہ خصوصاً مصنوعہ کی قیمت بڑھنے پر گاہکوں کو مالی نقصان پہنچاتا ہے۔معاشی اصطلاح میں کاروباری گروہوں کا یہ خفیہ باہمی عمل ’’کارٹلائزیشن ‘‘کہلاتا ہے۔تین چار سو سال پہلے یورپی ممالک کے کاروباری گروہوں نے اس عمل کو اپنایا جو اپنا منافع بڑھانا اور منڈی پہ قبضہ کرنا چاہتے تھے۔

پچھلے چند برس سے اشیائے خورونوش کے شعبے میں بھی ’’کارٹل‘‘یا اجتماعی مالی مفاد رکھنے والے کاروباری گروہ جنم لے چکے۔یہ کارٹل عام استعمال کی غذائی اشیا مثلاً آٹا،چینی،پیاز،آلو،ٹماٹر وغیرہ کی بڑی مقدار خرید کر اپنے خفیہ گوداموں میں ذخیرہ کر لیتے ہیں۔

یہ بے محابا خریداری قدرتاً مارکیٹوں میں متعلقہ غذاؤں کی قلت پیدا کرتی ہے۔نتیجتہً ان اشیا کی قیمت راتوں رات دگنی تگنی بڑھ جاتی ہے۔کارٹل پھر دھیرے دھیرے غذائیں منڈیوں میں لاتے ہیں ۔وہ انھیں منہ مانگی قیمت پہ بیچ کر اپنا منافع کئی گنا بڑھا لیتے ہیں ۔یہ طریق کاروبار مگر اخلاقی اور قانونی طور پر ناجائز ہے۔مگر جو انسان پیسے کی ہوس میں مبتلا ہو جائے،اسے پھر موت یاد رہتی ہے نہ قبر،وہ تو اللہ کے احکامات بھی روند ڈالتا ہے۔

کارٹل کا عوام دشمن عمل

کارٹلوں کے عمل کا سب سے بڑا منفی پہلو یہ ہے کہ وہ معاشرے میں مہنگائی بڑھاتا ہے۔کئی غذائیں غریب تو کیا متوسط طبقے کی پہنچ میں نہیں رہتیں۔مثلاً کچھ عرصے سے پاکستان میں چکن،انڈے اور بعض سبزیوں کی قیمتیں عروج پر ہیں۔درست کہ ان اشیا کی قلت سے اور مانگ میں اضافے سے قیمت بڑھی مگر کارٹلوں کے عنصر کو بھی فراموش نہ کیجیے۔اسی لیے دنیا بھر میں حکومتیں کمپنیوں اور کاروباری گروہوں کو کارٹل بنانے سے روکنے کی خاطر سرکاری ادارے بناتی اور قانون سازی کرتی ہیں۔مقصد یہی ہے کہ عوام کو اشیا سستی اور معیاری میّسر آ سکیں۔

بھارت میں یہ خطرہ موجود ہے کہ شعبہ اشیائے خورونوش میں طاقتورکارٹل بن جائیں۔وجہ یہ کہ بھارت کی افرادی قوت کا ’’42‘‘فیصد حصّہ زراعت سے وابستہ ہے۔اور اس چالیس فیصد میں ’’82‘‘فیصد چھوٹے کسان ہیں جو چند ایکڑ زمین رکھتے ہیں۔اعدادوشمار کی روشنی میں بھارت کی افرادی قوت تقریباً 90کروڑ ہے۔ان میں سے 37کروڑ شعبہ زراعت میں کام کرتے ہیں۔

اور ان سینتیس کروڑ میں سے ’’30‘‘کروڑ سے زائد چھوٹے اور غریب کسان ہیں۔اگر مودی سرکار نے بھارتی کسانوں کو حاصل سرکاری تحفظات ختم کر دئیے اور امکان بھی یہی ہے،تو کروڑوں چھوٹے غریب کسان نجی کمپنیوں اور کاروباری گروہوں کے کارٹلوں کے رحم وکرم پہ آ سکتے ہیں۔مثل ہے کہ بڑی مچھلی چھوٹی مچھلی کو کھا جاتی ہے۔اگر غذائی شعبے میں کاروباری افراد کو کارٹل بنانے کی چھوٹ مل گئی تو وہ آخرکار چھوٹے کسانوں کو مجبور کر دیں گے کہ وہ ان کی شرائط اور اصولوں پر اپنی مصنوعات فروخت کریں۔گویا طویل المعیاد طور پہ نئے زرعی قانون بھارتی کسانوں کے لیے زہر ِقاتل کی حیثیت بھی رکھتے ہیں۔

ان قوانین کا ایک اہم وقتی فائدہ ضرور ہے،یہ کہ بھارتی کسانوں نے کمپنیوں اور کاروباری افراد کو براہ راست اپنی غذائیں فروخت کرنا شروع کیں تو درمیان سے کمیشن ایجنٹ المعروف بہ دلال(آڑھتی)نکل جائیں گے۔یہ کمیشن ایجنٹ بھی چھوٹے کسانوں کا استحصال کرتے ہیں۔نہایت کم قیمتوں پہ غذائی مصنوعات چھوٹے کسانوں سے خریدتے اور پھر منڈی لے جاکر زائد قیمت پہ بیچ کر خوب منافع کماتے ہیں۔کسان کو اپنی محنت کا صحیح پھل نہیں مل پاتا۔نئے قوانین آنے سے رفتہ رفتہ کمیشن ایجنٹ مٹ سکتے ہیں۔عین ممکن ہے کہ احتجاج کرتے کسانوں میں یہ ایجنٹ بھی شامل ہوں کہ ان کے مفادات بھی خطرے میں پڑ چکے۔

مسئلہ مگر یہی کہ مودی سرکار نے23غذاؤں پر کم ازکم امدادی قیمت اور منڈیاں ختم کر دیں تو خاص طور پہ چھوٹا کسان اپنی بقا کا متبادل راستہ کھو بیٹھے گا۔وہ مجبور ہو گا کہ اپنی مصنوعات کارٹلوں کو ان کی مرضی کی قیمت پر فروخت کرے ۔یا پھر اپنا مال خود شہر لے کر جائے جو ایک کٹھن کام ہے۔کسان کاشتکاری کرے یا مصنوعات بیچنے کا صبرآزما دھندا؟اسی لیے احتجاج کرتے بھارتی کسانوں کا مودی سرکار سے اہم ترین مطالبہ یہ ہے کہ حکومت تحریری طور پہ ضمانت دے ،وہ مستقبل میں کم از کم امدادی قیمت اور منڈیوں کا نظام ختم نہیں کرے گی۔

اس طرح چھوٹے کسانوں کو حاصل تحفظات برقرار رہیں گے۔اور پھر نئے زرعی قوانین کا فائدہ ہو گا۔تب کارٹل وجود میں آئے بھی تو وہ مجبور ہوں گے کہ کسانوں کی مرضی کے مطابق قیمتوں پر غذائیں خرید لیں۔اگر وہ نہیں لیتے تو کسان حکومت کو اپنا مال بیچ دے گا۔

خالصتان تحریک کو بڑھاوا ملا

ایک پہلو یہ بھی مدنظر رہے کہ اشیائے خورونوش کی روزبروز بڑھتی قلت کے باعث ان کی عالمی قیمتیں بھی بڑھ رہی ہیں۔کئی ممالک ایسے ہیں جہاں کسان مطلوبہ مقدار میں غذائیں پیدا نہیں کر پاتے۔لہذا ان ملکوں کی حکومتیں اور نجی شعبہ غذائیں درآمد کرتا ہے۔بھارت،امریکا،چین اور پاکستان جیسے ممالک میں اشیائے خورونوش کی ذخیرہ اندوزی اس لیے بھی ہوتی ہے کہ عالمی منڈیوں میں انھیں منہ مانگی قیمت پر بیچ کر خوب رقم کمائی جا سکے۔یہ عمل مگر زرعی ممالک میں غذاؤں کی قیمتیں بڑھا کر مصنوعی مہنگائی پیدا کرتا ہے۔

مودی سرکار کے نئے زرعی قوانین پہ سب سے زیادہ احتجاج پنجاب،چندی گڑھ اور ہریانہ میں ہوا جہاں بیشتر کسان سکھ ہیں۔ان ریاستوں میں زرعی پیداوار بہت زیادہ ہے۔لہذا وہ کم از کم امدادی قیمت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حکومت کو اپنی پیداوار نسبتاً اچھے داموں پر فروخت کر دیتے ہیں۔لیکن نئے قوانین سے کم ازکم امدادی قیمت کے خاتمے کا خطرہ سامنے آیا تو سکھ کسان احتجاج کرنے لگے۔

سکھوں کی جماعت،اکالی دل مودی حکومت کی اتحادی تھی۔وہ نئے قوانین پہ بحث ومباحثہ کرنا چاہتی تھی۔نریندر مودی مگر اکثریت کے بل بوتے پر غرور وتکبر میں آ  گیا۔اس نے سکھ رہنماؤں کے مشوروں کو گھاس تک نہ ڈالی اور پارلیمنٹ سے قانون منظور کروا لیے۔آمریت اور تکبر کے مظاہرے پر اکالی دل حکومت سے الگ ہو گئی۔ظاہر ہے،وہ سکھ کسانوں کی مخالفت مول لے کر اپنے ووٹ بینک میں کمی نہیں چاہتی تھی۔

بھارت میں آباد کئی سکھ ہندو حکمران طبقے کی ناروا پالیسیوں کے سبب مشرقی پنجاب اور چندی گڑھ میں آزاد مملکت’’خالصتان‘‘کا قیام چاہتے ہیں۔مودی سرکار اب زبردستی ان پہ زرعی قوانین ٹھونس رہی ہے۔اس روش سے عام سکھوں میں علیحدگی پسند تحریک کو تقویت ملے گی۔خصوصاً سکھ کسانوں کو احساس ہو گا کہ خالصتان بنا کر وہ اپنی غذائیں اندرون وبیرون ممالک زیادہ بہتر قیمت پر بیچ کر مذید منافع کما سکیں گے۔ابھی تو ایلیٹ اور کارپوریٹ طبقوں کے مفادات کا نگران بھارتی حکمران ٹولہ ان پہ ظلم وجبر کرنے میں مصروف ہے۔

اسی باعث پنجاب کے سابق وزیراعلی،پرکاش سنگھ بادل سمیت کئی سکھ کھلاڑیوں نے مودی سرکار کی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اپنے قومی ایوارڈ واپس کر دئیے۔سکھ قوم میں ہندوانتہاپسندوں سے نفرت بڑھ رہی ہے جو مستقبل میں رنگ دکھلا سکتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔