بُک شیلف

بشیر واثق / محمد عثمان جامعی  اتوار 13 دسمبر 2020
جانیے دلچسپ کتابوں کے احوال۔ فوٹو: فائل

جانیے دلچسپ کتابوں کے احوال۔ فوٹو: فائل

قرآن مجید ( پوٹھوہاری ترجمہ کے ساتھ)

مترجم: محمد شریف شاد، ملنے کا پتہ:پیسہ اخبار، نیو انار کلی، لاہور (03335183848)


اللہ تعالیٰ کا کلام قرآن مجید دنیا کی واحد کتاب ہے جس کے ترجمے دنیا کی تقریباً ہر زبان میں کئے جا چکے ہیں ، اور یہی وہ واحد کتاب ہے جو اپنی طوالت کے باوجود حرف بحرف ذہن و قلب میں محفوظ ہو جاتی ہے، اور پھر اس کی تلاوت سامعین پر وجد طاری کر دیتی ہے چاہے سامع کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو، جیسا کہ کفار مکہ حضور صاحب لولاکﷺ کی زبان مبارک سے قرآن کی تلاوت سن کر کانوں میں انگلیاں دے لیا کرتے تھے تاکہ وہ قرآن کی تلاوت سے متاثر نہ ہو سکیں ۔ محمد شریف شاد نے قرآن مجید کا پوٹھوہاری زبان میں ترجمہ کر کے اسلام کی انتہائی شاندار خدمت سر انجام دی ہے، انھوں نے پوٹھوہاری زبان میں یہ بامحاورہ ترجمہ مولانا فتح محمد جالندھری کے اردو ترجمہ سے کیا ہے جو کہ ہر مکتبہ فکر کا سند یافتہ ہے ۔

پوٹھوہاری لب و لہجہ بہت شیریں ہوتا ہے اس لئے ترجمہ پڑھتے ہوئے ایک لطف سا محسوس ہوتا ہے ۔ ترجمہ بہت آسان زبان میں کیا گیا ہے جس سے پڑھنے والا بڑی آسانی سے مطالب سمجھ لیتا ہے اور یہی ترجمہ کی سب سے بڑی خوبی ہوتی ہے، گویا ترجمہ کرنے کا حق ادا کیا گیا ہے ۔آخر میں مختلف علماء کرام کی طرف سے دیا گیا سرٹیفکیٹ بھی شائع کیا گیا ہے تاکہ صحیح ہونے کی سند رہے ۔ قرآن مجید مجلد اور آرٹ پیپر پر شائع کیا گیا ہے، طباعت انتہائی واضح اور دیدہ زیب ہے، کم نظر والے بھی آسانی سے پڑھ سکتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان کے اس کارخیر میں برکت پائے، انھیں جزائے خیر دے اور ان کے لئے نجات کا ذریعہ بنائے،آمین۔

آثار محبت
مصنف: صوفی شوکت رضا سرکار، ہدیہ:800 روپے، صفحات:432
ناشر: ادبستان، پاک ٹاور، سلطانی محلہ
کبیر سٹریٹ، اردو بازار، لاہور(03004140207)


تصوف کی بھی اپنی ہی رمزیں ہیں جو اس راہ پر چلتا ہے اس کے لئے حیرتوں کے دروازے وا ہونے لگتے ہیں، حالانکہ حیران ہونے کی کوئی بات نہیں کیونکہ یہی اصل دنیا ہے جسے ہماری ظاہری عقل سمجھنے سے قاصر ہے مگر فکر اور دانش کی بھٹی میں خود کو جھونکنے والے ان رازوں کے آگاہ ہونے لگتے ہیں ،اور پھر اللہ کے اذن سے وہ دوسروں کو بھی آگاہی دینے لگتے ہیں، مگر صرف انھیں جو اس کی طلب اور جستجو رکھتے ہیں۔

اسی لئے کہا گیا ہے کہ کتاب سے علم ضرور حاصل کرو مگر اس علم کی حقیقت تک پہنچنے کے لئے کوئی استاد ضرور پکڑو تا کہ گمراہی سے بچے رہو، اور پھر تصوف کی راہ تو ہے ہی بہت گنجلک، کیونکہ جو اس راہ پر چلتا ہے اس کا نفس ہی اسے روکتا اور گمراہ کرتا ہے اور ابلیس اور اس کے چیلے چانٹے تو بالخصوص ایسے فرد کی تاک میں ہوتے ہیں کہ کب اس کی راہ کھوٹی کریں ۔ صوفی شوکت رضا سرکار کے بیانات ایک بہت بڑا خزینہ ہیں ، ان کے بیانات معرفت کی بلندیوں کو چھو لیتے ہیں اور اس کے ساتھ دل کو بھی چھو لیتے ہیں ۔ غور وفکر کی دعوت دیتے ہیں ۔ عبدالمتین ملک کہتے ہیں ’’ لفظ آثار اثر کی جمع ہے اور اس سے مراد احادیث رسول ﷺ کی سنت اور صحابہ کرام کی باتیں اور ان کے کام ہیں ۔

’آثار محبت‘ تین حصوں پر مشتمل ہے ۔ پہلے حصے میں قرآن و حدیث میں درج چند عنوانات کی سرکار نے اپنے انداز میں تعریفات فرمائی ہیء یعنی ہم اس کو لفظ ’ تلمبع‘کہہ سکتے ہیںکہ احادیث، قرآنی آیات کو کلام میں لانا، حصہ دوم میں محبت کے سات سو درجات بیان کئے گئے ہیں جو بابا فریدالدین گنج شکرؒ کے ایک قول کے مطابق بہ طریق تصوف بیان ہوئے ہیں۔ دوسرا حصہ دین و دنیا کے اہم موضوعات کی تعریفات پر مبنی ہے ۔ حصہ سوم میں محبت کے بارے میں اشعار و قطعات ہیں ۔ ‘‘ راہ سلوک کے متلاشیوں کے لئے یہ کتاب بہت اہم ہے اس سے انھیں غور و فکر کا موقع ملے گا اس لئے انھیں اس کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔ مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔

سہ ماہی مجلہ’’ اقبال‘‘
تحقیقی و تنقیدی جائزہ
مصنف: طالب حسین ہاشمی، قیمت:600 روپے، صفحات:288
ناشر:ادبستان، پاک ٹاورسلطانی محلہ
کبیر سٹریٹ اردو بازار ، لاہور(03004140207)


شاعر مشرق علامہ اقبال کی شخصیت، افکار اور کلام پر تحقیق و تنقید سالہا سال سے جاری ہے، عجب بات یہ ہے کہ یہ سلسلہ رکنے میں نہیں آ رہا، حالانکہ دنیا بھر میں جتنے بھی شاعر اور فلاسفر ہوئے ہیں ان کی شخصیت اور افکار پر ایک حد تک کام ہوا ہے مگر حضرت اقبال کی فکر کی اتنی پرتیں اور پہلو ہیں کہ ختم ہونے میں نہیں آ رہیں، شاید اس کی وجہ ان کے افکار کا زمان و مکان سے ماورا ہونا ہے، سہ ماہی مجلہ ’’ اقبال‘‘ میں حضرت اقبال کے کلام اور افکار پر روشنی ڈالی جاتی ہے ، زیر نظر کتاب اسی مجلہ کا تنقیدی و تحقیقی جائزہ ہے۔

پروفیسر بریگیڈیر ( ر) ڈاکٹر وحید الزمان طارق کہتے ہیں ’’ یہ مصنف کا ایم فل اقبالیات کا مقالہ ہے جو انکی کاوش کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ محقق نے بڑی محنت اور عرق ریزی سے سہ ماہی مجلہ ’’ اقبال‘‘ کے مضامین کا خلاصہ پیش کیا ہے اور عظیم قلمکاروں مثلاً ڈاکٹر سید عبداللہ، ڈاکٹر وحید قریشی، جسٹس ایس اے رحمان، پروفیسر عبدالشکور احسن، پروفیسر ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار، پروفیسر خواجہ زکریا، پروفیسر ڈاکٹر شاہد اقبال کامران، حنیف شاہد، اور پروفیسر ڈاکٹر نعیم بزمی کی تحقیقاتی تحریروں کو متعارف کروایا ہے۔ جہاں تک مجلہ میں شائع ہونے والے مضامین کا تعلق ہے ان کی مفصل فہرست اور مختصر جائزے نے مستقبل کے محققین کے لیے علامہ اقبال کی شخصیت اور فکر کی جہتوں کو واضح کر دیا ہے۔‘‘

اسی طرح پروفیسر ڈاکٹر ارشاد شاکر اعوان کہتے ہیں ’’ طالب حسین کے سندی مقالہ مجلہ ’’ اقبال ‘‘ (اردو) کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ (۱۰۰۲ تا۶۱۰۲) از اول تا آخر پڑھنے کے بعد بغیر کسی خوف و تردید کہا جا سکتا ہے کہ مجلہ ’’ اقبال‘‘ بزم اقبال لاہور کا اس سے بہتر تحقیقی مطالعہ شاید ہی پیش کیا جا سکتا تھا۔

صاحب مقالہ نے ’’بزم اقبال‘‘ کے قیام کے اسباب و وجوہ سے لے کر مجلہ اقبال کے اجراء کی ضرورت و اہمیت تک کے جملہ احوال درج کرنے کے بعد مجلہ اقبال میں شائع ہونے والے تحقیقی مقالات کا ماحصل، مقالہ نگاروں کا تعارف ، مجلہ کے مختلف شماروں میں مطبوعہ کتب بحوالہ اقبال پر تبصروں اور مبصرین کی فہرست اور مجلہ اقبال کی خدمات کا تذکرہ، مجلہ اقبال کی پچہتر سالہ اشاعتی تفصیل دیتے ہوئے مقالہ کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے۔‘‘ اقبال شناسی کے لئے بہترین کتاب ہے ۔ مجلد کتاب کو دیدہ زیب ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔

بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے
مصنف: ڈاکٹر اے آر خالد، قیمت: 1500روپے، صفحات:232
ناشر: قلم فائونڈیشن انٹرنیشل ، یثرب کالونی
والٹن روڈ ، لاہور کینٹ (03000515101)


دنیا جتنی تیزی سے پھل پھول رہی ہے اتنی ہی تیزی سے سکڑ بھی رہی ہے، سکڑ اس طرح رہی ہے کہ ایک ملک کے حالات دوسرے پر اثر انداز ہوتے ہیں، ایک ملک کی معیشت بحران کا شکار ہوتی ہے تو ہمسایہ ممالک خود کو بچانے کے لئے تگ و دو شروع کر دیتے ہیں، بلکہ اب تو دنیا اتنی سکڑ چکی ہے کہ دور دراز ممالک کے بگڑتے حالات بھی بحرانی کیفیت کا باعث بننے لگتے ہیں ۔

ایسے میں کسی بھی ملک کے کرتا دھرتائوں یا رہنمائوں کے لئے ضروری ہے کہ عالمی سطح پر آنے والی تبدیلیوں پر گہری نظر رکھیں، دانشوروں کے لئے ضروری ہو جاتا ہے کہ وہ دور رس اثرات کے حامل مشوروں سے نوازیں، بالخصوص قلم قبیلے کی ذمہ داری بہت بڑھ جاتی ہے کیونکہ اللہ تعالٰی نے جو فکری گہرائی انھیں عطا کی ہے وہ دوسرے طبقوں کے نصیب میں نہیں آئی ۔

ڈاکٹر اے آر خالد بھی قلم قبیلے کے ایسے ہی روشن شناس فرد ہیں، ان کی دانش حال کا چلن دیکھ کر مستقبل کی پیش گوئی کر سکتی ہے، ان کی تجزیہ کاری ناصرف حکمرانوں کے لئے مشعل راہ بلکہ نوجوان نسل کو بھی ان کے افکار کا مطالعہ کرنا چاہیے تاکہ ان کے لئے دانش کے نئے در وا ہوں ، غور وفکر کے نئے دروازے کھلیں ۔ زیرتبصرہ کتاب میں ڈاکٹر صاحب کے وہ کالم شامل کئے گئے ہیں جو خارجہ امور پر روشنی ڈالتے ہیں، وہ ہر کالم میں فکر کے دیئے جلاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

کالموں کے عنوان سے ہی قاری کی دلچسپی بڑھ جاتی ہے جیسے ’ کیا امریکا پاکستان کا دوست ہے؟‘ ’وزیر اعظم کا دورہ امریکہ، خدشات دور کرنے کی ضرورت‘ ’ مسئلہ کشمیر اور مسلمان ممالک کا فرض‘ ’امریکہ اور اس کے حواریوں کی بھارت نوازی ۔ کالموں کے ساتھ تاریخ اشاعت بھی دی گئی ہے تاکہ قاری اس وقت کے حالات کو ذہن میں رکھ کر مطالعہ کرے، خارجہ امور سے دلچسپی رکھنے والوں کو ضرور مطالعہ کرنا چاہیے ۔

سفیر غم
مولف: سید محمد امجد کلیم طاہر نقوی، قیمت: 400 روپے، صفحات:160
ملنے کا پتہ: افضل کاٹیج،301۔ سی ٹو، واپڈا ٹائون، گوجرانوالہ


شاعری میں جہاں حسن و مستی سے واسطہ پڑتا ہے وہیں حزن و ملال کا ذکر بھی دلگیر کر دیتا ہے، غم زندگی اور غم جاناں اس کے اہم موضوعات ہیں ۔ شاعر کی آہ و بقا دل کو چھو لیتی ہے ۔ زیر تبصرہ کتاب میں سید محمد افضل طور کی المیہ شاعری کا جائزہ لیا گیا ہے ۔

پروفیسر رائو محمد اکبر کہتے ہیں ’’ میر کے ہاں غم نے سوز و گداز پیدا کیا اور ان کے کلام کو غزل کا رنگ بخشا ۔ اس سے زندگی میں قاری کو حظ تو حاصل ہوتا ہے لیکن عملی زندگی کی مایوسیاں کم نہیں ہوتیں اور جینے کا احساس پیدا نہیں ہوتا، غم کا مقابلہ کرنے کی سکت پیدا نہیں ہوتی ۔ طور کی زندگی بھی غموں سے بھرپور تھی لیکن آپ غموں کو بھی نعمت غیر مترقبہ شمار کرتے ، قاری کو حوصلہ دیتے اور غم کو اپنانے کی دعوت فکر دیتے نظر آتے ہیں ۔

دیکھے نہ کوئی آنکھ اٹھا کر تیری طرف
پیدا اگر ہوں قلب میں زاہد صفات غم
تجھ کو سکون قلب یقیناً نصیب ہو
پڑھ لے اگر فقیہہ حرم نفسیات غم ‘‘

کتاب کے دو حصے ہیں، پہلے حصے میں جناب طور کی شاعری میں غم کے استعارے اور حزن و ملال کا جائزہ ہے، دوسرے حصے میں ایم اے اردو کی طالبہ آمنہ اسلم کا تحقیقی مقالہ دیا گیا ہے، جس میں آپ کی شخصیت اور فن پر بڑی تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے، محققہ نے تحقیق کا کماحقہ حق ادا کیا ہے ۔

Knock Knock
مصنف: شعور احمد، قیمت:500 روپے، صفحات:192
ناشر: ادبستان، پاک ٹاور، سلطانی محلہ
کبیر سٹریٹ،اردو بازار، لاہور (03004140207)


فکشن نگاری کی بھی اپنی ہی دنیا ہے اور بڑی وسیع دنیا ہے، اس نے حقیقتوں کو استعارے میں بیان کرنے کے وسیع مواقع فراہم کئے ہیں، ورنہ بہت سی حقیقتوں کو بعینہ بیان کرنا بہت مشکل ہوتا ۔ یہ ایسی مدد گار ہے کہ اس کی مدد سے ادیب کچھ بھی تحریر میں لا سکتا ہے، ادیب قاری کو ان دیکھی دنیائوں کی سیر کرا سکتا ہے، فکشن نگاری کا ایک فائدہ یہ بھی ہوا کہ بہت سی تصوراتی اشیاء بعد میں معرض وجود میں آئیں جیسے داستانوں میں اڑن قالین کا تذکرہ ہوائی جہاز کی ایجاد کا موجب بنا۔ ادب کے میدان میں یہ شعور احمد کی پہلی کاوش ہے، پہلی ہونے کے باوجود بہت شاندار ہے۔ پروفیسر ریاض الرحمان قریشی کہتے ہیں
The novel in hand Knock Knock is a mystery shrouded in many cloaks and and th removel of these shrouds is a matter of much surprise for the reader. The writer a novice has done much justice with the topic and resolved the conflict very skillfully , though it has been his first ever mystery thrill.Surely the book will
be laudable profusely .
یہ انگریزی ادب میں خوبصورت اضافہ ہے۔ ناول سے دلچسپی رکھنے والوں کو ضرور مطالعہ کرنا چاہیئے۔ کتاب خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کی گئی ہے۔

شب گزیدہ سحر: پاکستان میں فوج اور بیوروکریسی کی حکم رانی کا آغاز ( 1958۔ 1947 )
مصنف: ڈاکٹر جعفر احمد، طابع: انسٹی ٹیوٹ آف ہسٹاریکل اینڈ سوشل ریسرچ
صفحات:168، قیمت: 500 روپے


کچھ دنوں قبل امریکا کی سابق وزیرخارجہ سے ایک انٹرویو کے دوران ’’ ڈیپ اسٹیٹ‘‘ کا مفہوم پوچھا گیا تو انھوں نے چھوٹتے ہی بہ طور مثال پاکستان کا نام لیا۔ ان کے الفاظ تھے،’’جیسے پاکستان، جہاں بنیادی طور پر فوج اور ایجنسیاں ملک چلاتی ہیں ۔‘‘ اس بحث سے قطع نظر کہ یہ تاثر کس حد تک درست یا غلط ہے، اور اس مباحثے میں پڑے بغیر کہ خود ہیلری کلنٹن صاحبہ کے دیس امریکا میں اسٹیبلیشمنٹ اور کمپنیوں کی لابیاں کس طرح جمہوریت اور سیاست پر اثرانداز ہوتی ہیں، یہ حقیقت رد نہیں کی جا سکتی کہ ہمارے ملک میں اسٹیبلشمنٹ سیاست میں مداخلت پاکستان کے ابتدائی دنوں سے جاری ہے اور بعض اوقات تو یہ اتنی واضح ہوتی ہے کہ آنکھوں میں دھول جھونک کر اس دخل اندازی سے انکار کرنے والوں کو خاموش ہونا پڑتا ہے یا عذرگناہ کے بدتر گناہ میں مبتلا ہونا ان کی مجبوری بن جاتی ہے ۔

حالیہ برسوں میں ’’اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیے‘‘ کے چرچے اور غداری کی اسناد کی تقسیم ازسرنو شروع ہونے کے بعد ملک کی سیاست اور حکومتی معاملات میں غیرآئینی مداخلت کا معاملہ زورشور سے زیربحث ہے، ایسے میں زیرتبصرہ کتاب اس مداخلت کی جڑیں اور ابتدا تلاش کرکے ہمارے سامنے لاتی ہے۔

اس کتاب کے مصنف ڈاکٹرجعفر احمد کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ وہ جامعہ کراچی کے ’’پاکستان اسٹڈی سینٹر‘‘ میں ڈائریکٹر کی حیثیت سے تینتیس سال تحقیق وتدریس کے فرائض انجام دینے کے بعد اب انسٹی ٹیوٹ آف ہسٹاریکل اینڈ سوشل ریسرچ کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے ذمے داریاں نبھا رہے ہیں۔ سماجی علوم کے اسکالر اور محقق کی حیثیت سے وہ متعدد کتب تصنیف وتالیف کر چکے ہیں اور اخبارات میں مضامین کے ذریعے بھی قارئین کو پاکستان کی تاریخ کے مختلف پہلوؤں سے آگاہی فراہم کرتے رہتے ہیں ۔

یہ کتاب بھی ان کے ایسے ہی مضامین کا مجموعہ ہے، جو 1996 اور 1997کے دوران عام انتخابات کے سلسلے میں سامنے آنے والی روزنامہ جنگ کی خصوصی اشاعتوں کا حصہ بنے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ پر تحریر کیے جانے والے یہ مضامین پاکستان کے ابتدائی گیارہ سالوں پر محیط ہیں، جنھیں پڑھ کر لگتا ہے کہ ہماری تاریخ ان گیارہ سالوں ہی میں جامد ہوگئی ہے اور ہم ان ہی برسوں کے سائے میں اب تک زندگی گزار رہے ہیں۔ کتاب کو بجا طور پر ’’شب گزیدہ سحر‘‘ کا عنوان دیا گیا ہے، جس کے الفاظ فیض احمد فیض کے مشہور شعر:

یہ داغ داغ اُجالا، یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں

سے مستعار لیے گئے ہیں۔ ’’شب گزیدہ سحر‘‘ کے اوراق ہمارے سامنے جو حقائق لاتے ہے انھیں جان کر اس نتیجے پر پہنچنا بہت آسان ہو جاتا ہے کہ ہمارا ماضی بھی کوئی تاب ناک نہیں اور سیاست دانوں کی جس مفادپرستی، باہمی عناد، خودغرضی، بدعنوانی، جاہ پرستی اور طاقت ور حلقوں کی جن بے جا مداخلتوں اور سازشوں کا رونا ہم آج روتے ہیں یہ سب قیام پاکستان کے فوری بعد سے شروع ہوگیا تھا۔ ڈاکٹر جعفر احمد نے بہ طور محقق صرف واقعات ہی پیش نہیں کیے بلکہ ایک تجزیہ کار کے طور پر اور معروضی حقیقتوں اور نفسیاتی عوامل کا بھی جائزہ لیا ہے جن کے باعث پاکستان میں جمہوریت کم زور ہوئی اور سیاست سیاہیوں میں لتھڑتی چلی گئی۔ مصنف نے بڑی احتیاط کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسے حقائق بھی بیان کردیے ہیں جن کے ذکر سے مصلحتوں کے باعث گریز کیا جاتا ہے۔ طباعت کی تمام خوبیاں لیے یہ مختصر کتاب پاکستان کی سیاسی تاریخ سے دل چسپی رکھنے والوں کی تفہیم اور علم میں یقیناً اضافے کا باعث بنے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔