پی ڈی ایم کے غبارے سے ہوا نکالی جا سکتی ہے

تنویر قیصر شاہد  جمعـء 11 دسمبر 2020
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

یہ بد قسمت ماہِ دسمبر ہے۔ اس سرد موسم میں قائد اعظم ؒ کے پاکستان نے اپنی تاریخ کے دو بڑے سانحات دیکھے ہیں۔

تقریباً پچاس سال قبل قائد اعظم ؒ کا دیا گیا پاکستان، جسے دُنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت ہونے کا اعزاز بھی حاصل تھا، اِسی دسمبر کے مہینے میں ٹوٹ کر دو لخت ہو گیا۔ اور پاکستان کا وہ مشرقی خطہ جہاں مسلم لیگ اور پاکستان کی بنیادیں رکھی گئی تھیں، ہم سے جدا ہو کر ’’بنگلہ دیش‘‘ بن گیا۔

یہ ایک ایسا اشکبار اور خونریز المیہ تھا کہ آج ہمارے ہر قسم کے حکمران اس المیے کو یاد کرنے اور اس کی وجوہ تلاش کرنے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں : قافلے کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا ! یہ دسمبر ہی ہے جس کی 27 تاریخ کو محترمہ بینظیر بھٹو، جو عالمِ اسلام کی پہلی منتخب خاتون وزیر اعظم ہونے کا بے نظیر اعزاز رکھتی تھیں، دن دیہاڑے قتل کر دی گئیں۔ وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اُسی شہر میں بیدردی سے ماری گئیں جہاں کچھ سال پہلے اُن کے منتخب وزیر اعظم والد صاحب کو پھانسی کے گھاٹ اُتارا گیا تھا۔

محترمہ بینظیر بھٹو کا بہیمانہ قتل دراصل پاکستان کے ملی وجود پر ہاتھ ڈالنے کے مترادف تھا۔ یہ سوچ کر دل دہل دہل جاتا ہے کہ اگر بی بی صاحبہ کے المناک قتل پر آصف علی زرداری سینے پر صبر کی سِل رکھ کر اور پاکستان کے وسیع تر مفاد میں ’’پاکستان کھپے‘‘ کا جرأتمندانہ نعرہ بلند نہ کرتے تو نجانے مملکتِ خداداد کا حشر کیا ہوتا۔ اﷲ پاک نے مگر آصف علی زرداری کے دل میں فوری طور پر پاکستان کی سالمیت اور سلامتی کا خیال ڈال دیا۔ اس حوالے سے ہم  ان کے شکر گزار ہیں ۔

اور ا ب پھر ستمگر دسمبر ہمارے سروں پر منڈلا رہا ہے ، ایک بڑی آزمائش بن کر ۔ گیارہ جماعتوں کے متحدہ و متفقہ اپوزیشن اتحاد ’’پی ڈی ایم‘‘ اور حکومتِ وقت کے درمیان شدید قسم کی کشیدگی اور ناراضی پائی جا رہی ہے ۔ فریقین میں سے کوئی بھی مصلحت اور مصالحت کے لیے تیار ہے نہ مصافحے اور معانقے کے لیے قدم آگے بڑھانے پر آمادہ ۔ اگر حکومت عوام کے لیے کوئی ایک آدھ ریلیف ہی کا باعث بنی ہوتی تو عوام ’’پی ڈی ایم‘‘ کو ٹھینگا دکھا دیتے لیکن عوام تو حکومت مخالف جلسوں میں جوق در جوق آ رہے ہیں اور پولیس کا تشدد بھی برداشت کر رہے ہیں ، کیس بھی بھگت رہے ہیں اور اس شدید سردی میں حوالاتوں کے یخ بستہ فرش پر راتیں بھی گزار رہے ہیں۔

ملتان میں ’’پی ڈی ایم‘‘ کے کارکنوںسے مقامی اور پنجاب  پولیس نے جو متشدددانہ سلوک کیا ہے، اس کی سیاہ باز گشت ابھی تک ہواؤں اور فضاؤں میں ہے۔ کوئی یقین نہ کرے تو جا کر سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی اور اُن کے دونوں صاحبزادگان سے پوچھ لے۔ اب پورے ملک کی نظریں مینارِ پاکستان میں 13 دسمبر کے جلسے پر ٹکی ہیں ۔ لاہور کا جلسہ روکنے کے لیے حکمران پورا زور لگا نے کے ساتھ سارے ہتھکنڈے اور طریقے بھی بروئے کار لا رہے ہیں ۔ ’’پی ڈی ایم‘‘ قیادت کا دعویٰ ہے کہ تیرہ دسمبر کا جلسہ روکنے یا ناکام بنانے کے لیے حکمران اور پنجاب پولیس اب تک اپوزیشن کے سیکڑوں کارکنوں کے خلاف ’’بے بنیاد‘‘ کیس بنا چکی ہے۔ لاہور کے  مینارِ پاکستان کے تاریخی میدان میں پانی چھوڑ دیا گیا ہے۔

اپوزیشن کے ہر قسم کے سہولت کاروں کے گرد گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے اور حتیٰ کہ ’’پی ڈی ایم‘‘ کے مقررین کے لیے ساؤنڈ سسٹم کا بندوبست کرنے والے ایک مشہور بٹ صاحب کو گرفتارکیا لیکن گزشتہ روز وہ عدلیہ سے رجوع کرکے رہا ہوگئے۔ خان صاحب کی حکومت سے ان اقدامات کی توقع نہیں رکھی جاتی تھی۔ انھیں تو بڑے پَن کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا، جیسا کہ نواز شریف نے اپنے اقتدار میں عمران خان کے احتجاجی اور دھرنا مظاہروں سے کیا تھا۔ وزیر اعظم عجب بات کہہ رہے ہیں: ہم 13 دسمبر کا جلسہ روکیں گے نہیں اور اجازت بھی نہیں دیں گے۔ اس بیان پر سوشل میڈیا میں، لطائف کی ایسی  بھرمار ہے کہ خدا کی پناہ۔

افسوس تو یہ ہے کہ ستمگر دسمبر کے ان افسردہ اور تناؤ کے شکار ایام میں وزیر اعظم عمران خان صاحب بڑے پَن کا مظاہرہ کرنے سے قاصر رہے ہیں۔ گزشتہ روز وزیر اعظم نے جن صحافیوں سے تفصیلی ملاقات فرمائی ہے، اس میں بھی ایک اخبار نویس نے نہایت شائستگی کے ساتھ اُن سے یہی گزارش کی کہ ’’آپ بڑے ہیں، آپ کو راستہ دینا چاہیے، آپ ہی کو اپوزیشن سے مکالمہ کرنے میں پہل کرنی چاہیے ، اسی اسلوب میں شائد اصلاحِ احوال کا کوئی راستہ نکل آئے ۔‘‘ لیکن وزیر اعظم صاحب کی سُوئی مبینہ این آر او نہ دینے پر اٹکی ہُوئی ہے۔

وزیر اعظم کی ’’اصول پسندی‘‘ سے خدشہ ہے کہ ملک میں انتشار اور عدم استحکام میں اضافہ ہو جائے گا اور اسے معمولی خیال نہیں کیا جانا چاہیے۔ حیرانی کی بات ہے کہ وزیر اعظم صاحب ماضی قریب میں پنجاب کی جن سیاسی شخصیات پر سخت زبان میں سنگین الزامات لگاتے رہے ہیں، اقتدار کی خاطر اُن سے اتحاد کر لیا لیکن اب ملک کے وسیع تر مفاد کی خاطر ’’پی ڈی ایم‘‘ سے مصافحہ کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ یہ بھی عجب رنگ کا تضاد ہے۔ ہمہ رنگ دباؤ مگر اسقدر زیادہ ہے کہ وزیر اعظم اب بین السطور ’’نیشنل ڈائیلاگ‘‘ کی طرف آتے بھی نظر آ رہے ہیں لیکن دودھ میں مینگنیاں ڈال کر۔ 13دسمبر کا جلسہ بلاشبہ اُن کے اعصاب پر منفی اثرات ڈال رہا ہو گا۔ وہ مگر پُر اُمید ہیں کہ : جیت میری ہی ہو گی۔

حکمرانوں پر جب متنوع دباؤ بڑھ رہے ہوتے ہیں تو عوامی توجہ تقسیم کرنے کے لیے وہ اپنی مخالف قوتوں پر الزامات بھی عائد کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ ساری دنیا میں یہی چلن ہے۔ آسان اور آزمودہ طریقہ یہ ہے کہ تہمت لگا دی جائے کہ اپوزیشن کو ’’غیر ملکی فنڈز‘‘ مل رہے ہیں اور ’’غیر ملکی ہاتھ ملکی سلامتی کے درپے‘‘ ہے۔ جناب وزیر اعظم کی طرف سے کچھ ایسا ہی تازہ الزام ’’پی ڈی ایم‘‘ قیادت پر بھی لگایا گیا ہے ۔

گزشتہ روز اخبار نویسوں سے ملاقات کے دوران انھوں نے ’’انکشاف‘‘ کیا : ’’اپوزیشن تحریک کے پیچھے غیر ملکی ہاتھ ہو سکتا ہے ۔ اسی وجہ سے انھیں اعتماد مل رہا ہے۔ اس سب کے پیچھے ایک پلان ہے۔ لیبیا اور عراق میں بھی یہی ہُوا تھا۔‘‘ ممکن ہے ایسا ہی ہو کہ وزیر اعظم کے پاس معلومات کے ذرایع وسیع ہوتے ہیں۔ یہ بات بھی مگر یاد رکھنے والی ہے کہ جب عراق اور لیبیا تباہی کے دہانے پر کھڑے تھے، صدام حسین اور کرنل قذافی تب بھی اپنی اپوزیشن پر عرصہ حیات تنگ کرنے سے باز نہیں آ رہے تھے۔

کیا یہ حیرت انگیز بات نہیں ہے کہ اِدھر خان صاحب نے بین السطور اور ملفوف انداز میں اپوزیشن پر ’’غیر ملکی ہاتھ‘‘ کا الزام لگایا، اُدھر وزیر اعظم صاحب کی ایک وزیر، ڈاکٹر شیریں مزاری، نے انٹرویو دیتے ہُوئے زیادہ کھلے الفاظ میں اپوزیشن پر الزامات کی بوچھاڑ کرتے ہُوئے یوں کہا ہے: ’’ پی ڈی ایم کو غیر ملکی فنڈنگ ہو رہی ہے۔ اس کے شواہد ملے ہیں۔ فنڈنگ پی ڈی ایم میں موجود لوگوں کو ہو رہی ہے۔ ہمیں ابتدائی شواہد مل گئے ہیں۔‘‘ ویری گڈ۔

یہ تو پی ٹی آئی حکومت کے لیے سنہری موقع ہونا چاہیے کہ ’’غیر ملکی فنڈنگ‘‘ کے شواہد فوری طور پر قوم کے سامنے رکھ دیے جائیں تا کہ ’’پی ڈی ایم‘‘ کے غبارے سے ہوا نکالی جا سکے۔ یوں 13 دسمبر کے جلسے کا دھڑن تختہ بھی کیا جا سکتا ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔