انوکھے معیاراتِ حسن

 اتوار 13 دسمبر 2020
خوبصورت دکھائی دینے کیلئے کیا کیا اذیتیں جھیلنا پڑتی ہیں۔ فوٹو: فائل

خوبصورت دکھائی دینے کیلئے کیا کیا اذیتیں جھیلنا پڑتی ہیں۔ فوٹو: فائل

Fat Camp- Mauritinia
آپ نے آج تک جہاں بھی سنا ہوگا دبلی پتلی لڑکیوں کو خوبصورت کہتے سنا ہوگا ۔ مگر آج یقیناً آپ یہ جان کر حیرت زدہ رہ جائیں گے کہ خطہ زمین پر ایک ایسی جگہ بھی ہے جہاں لڑکیوں کا موٹاپا ان کے حسن کا معیار ہے۔ جی ہاں !مغربی افریقی ملک موریتانیا میں موٹاپا معیارِ حسن تصور کیا جاتا ہے اور لڑکیوں کو شادی کے لئے تیار کرنے (موٹا) کے لئے باقاعدہ کیمپس میں بھیجا جاتا ہے۔ ان کیمپوں میں انھیں روزانہ سولہ ہزار سے زائد کیلوریز دی جاتی ہیں جو کہ کسی مرد باڈی بلڈر کے مقابلے میں چار گنا زائد خوراک ہے۔

بیٹیوں کو پیدا ہوتے ہی زیادہ غذاء دی جاتی ہے اور سات سے چودہ برس کی لڑکیوں کو کیمپ میں بھیج دیا جاتا ہے جہاں انھیں بھاری اور ٹھوس غذائیں کھلائی جاتی ہیں جیسے کہ لیٹرز کے حساب سے بکری کا دودھ، چکنائی میں پکے کھانے اور خاص اجزاء سے تیار کئے جانے والے پکوان اور ستم بالائے ستم یہ کہ اگر کوئی لڑکی اتنی زیادہ مقدار میں خوراک کھانے سے انکار کرے تو اسے باقاعدہ ڈرایا اور بعض صورتوں میں مارا بھی جاتا ہے۔ یہاں تک کے انھیں بھوک بڑھانے کی دوائیاں بھی دی جاتی ہیں۔ اور جو لڑکی جتنی زیادہ موٹی ہوگی لڑکے کے نزدیک وہ شادی کے لئے اتنی ہی موزوں اور خوبصورت ہوگی۔Brass

Neck- Mayanmmar
تصویر میں نظر آنے والی یہ خواتین جن کی گردنوں میں لوہے کی تاروں جیسا کچھ دکھتا ہے ان کا تعلق میانمار کے ایک خاص قبیلے سے ہے جو کہ اپنی منفرد پہچان اور صدیوں سے جاری روایت کو برقرار رکھتے ہوئے لمبی گردن والے اس رواج کو اپنائے ہوئے ہیں۔ میانما رکے اس قبیلے کا نام ’کیان قبیلہ‘ ہے۔ یہاں کی روایات کے مطابق جس لڑکی کی گردن جتنی زیادہ لمبی ہوگی وہ اتنی ہی حسین ہوگی۔ اس لمبی گردن کے حصول کے لئے شروع کی جانے والی جدو جہد پانچ برس کی عمر سے شروع ہو جاتی ہے جس میں گردن کے گرد پیتل کی انگوٹھی نما لمبی تاریں ڈالی جاتی ہیں۔ جب تاریں چھوٹی پڑنے لگیں تو بڑی تاریں ڈال کر انھیں بدل دیا جاتا ہے۔ اس قبیلے کی عورتیں خوبصورتی کی جو قیمت چکاتی ہیں وہ یقیناًناقابلِ یقین ہے۔

Ta-Moko- Newzealand
آپ نے اکثر لوگوں کو اپنے جسم کے مختلف حصوںپہ ٹیٹو بنواتے دیکھا ہوگا۔ مختلف ثقافتوں میں اس کے متنوع معانی اور اہمیت ہے۔ نیوزی لینڈ کے مقامی قبائل میں جسم پہ ٹیٹو بنوانے کا رواج تقریباً ایک ہزار سالوں سے چلا آرہا ہے ۔ ان مستقل نشانوں کو مقامی لوگ Ta-Mokoکے نام سے پکارتے ہیں جن کی خاصیت یہ ہے کہ انھیں سیاہ یا پھر نیلے رنگ سے چھیدواتے ہیں۔ یہ زیادہ تر منہ پہ بنائے جاتے ہیں جیسے ہونٹوں پر، تھوڑی ا ور گالوں پر۔ ان ٹیٹوز کو بنانے کے لئے خاص قسم کے نوکیلے اوزاروں کا استعمال کیا جاتا ہے۔ تاریخی اعتبار سے اس کے پس منظر میں جھانکا جائے تو قدیم یورپی تہذیب میں ایسے نشانات ان لوگوں کے منہ پر ہوتے جنھیں معاشرتی طور پر معزز سمجھا جاتا تھا۔ اور ایسے افراد کسی بھی شعبے کے ماہرین تصور کئے جاتے ۔ ان نشانات کو خواتین مین خوبصورتی کی علامت کے ساتھ ہمت و استقلال کی علامت بھی تصور کیا جاتا۔

Clay Plates in Lower Lips- Ethopia
آپ نے یہ تو سن رکھا ہوگا کہ مٹی کے برتنوں میں کھانے سے لذت بڑھ جاتی ہے، مگر شاید ہی کسی کو مٹی کی پلیٹیں ہونٹوں میں رکھے دیکھا ہو۔ یقیناً آپ بھی چونک گئے ہوں گے، اتھوپیا کہ ’مرسی‘ قبیلے میں خوبصورتی کا معیار سب سے جدا ہے۔ سخت مٹی کی پلیٹوں کو نچلے ہونٹ میں دبانا جس سے زیریں ہونٹ بڑا اور موٹا دکھے ایک رواج ہے۔ اس مقصد کے لئے جیسے ہی لڑکیاں بلوغت کی عمر کو پہنچتی ہیں ان کے نیچے کے سامنے والے دو دانت نکال کر نیچے والے ہونٹ میں ایک سوراخ کیا جاتا ہے جس میں سخت مٹی کی بنی ایک پلیٹ رکھی جاتی ہے۔ یوں ہونٹ جتنا موٹا اور لٹکا ہوتا ہے اس لڑکی کو اتنا ہی خوبصورت اور جاذبِ نظر تصور کیا جاتا ہے۔

Lotus Feet – China
کنول کے پھول کی خوبصورتی کے بارے میں تو آپ نے سن رکھا ہوگا مگر کنول کے پھول کی مانند پائوں کو خوبصورتی کا معیار قرار دینے کے رواج سے آپ یقینا نا واقف ہوں گے۔ شاید آپ کو یہ سن کر بے پناہ حیرانی ہوکہ قدیم چینی ثقافت میں لڑکیوں کے پائوں کو باندھنا ایک رسم تھی۔ سنہری کنول جیسے پائوں کی خاطر لڑکیوں کو اپنے انگوٹھے اور انگلیوں کی قربانی دینا پڑتی۔ اچھے رشتوں کی امید پر چکائی جانے والی یہ قیمت درحقیقت بہت بھاری تھی۔

چھ سے سات برس کی عمر کو پہنچتی بچیوں کے پائوں مائیں کپڑے سے اس طرح باندھ دیتیں کہ چھوٹے چھوٹے کنول کے پھول نما جوتوں میں پورے آ جائیں۔ جس سے پائوں کے بڑھنے کا امکان ہی نہ رہتا اور یوں کنول کی شکل میں دکھنے والے پائوں کا حصول ممکن ہوتا۔ گو کہ اس حوالے سے متضاد رائے بھی پائی جاتی ہے کہ یہ روایت ایک خوبصورت جھانسے کے سوا کچھ نہ تھی جس سے خواتین کو گھروں تک محدود کر دیا جاتا اور ان سے کام لیا جاتا۔ وجوہات چاہے جو بھی ہوں، لیکن درحقیقت یہ ایک تکلیف دہ عمل تھا جس پر بالا آخر چینی حکومت نے 1940ء میں پابندی عائد کر دی۔ لیکن اس کے باوجود چین کے کئی دیہاتوں میں ابھی تک یہ رواج جاری ہے جس کہ مطابق چھوٹے پائوں اعلٰی حیثیت و مرتبے اور خوبصورتی کی علامت ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔