حکومت کی بچوں والی حرکتیں

محمد حسان  اتوار 13 دسمبر 2020
ان حرکات کا کوئی مثبت، تعمیری یا عملی پہلو نظر نہیں آتا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ان حرکات کا کوئی مثبت، تعمیری یا عملی پہلو نظر نہیں آتا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

آپ نے بچوں کو اکثر دیکھا ہوگا کہ جب وہ اپنے آپ کو عدم توجہ کا شکار محسوس کرتے ہیں تو کچھ ایسی حرکتیں کرتے ہیں جن سے لوگ ان کی طرف متوجہ ہوجانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ چاہے وہ حرکتیں تعمیری ہوں یا تخریبی، سنجیدہ ہوں یا شرارت پر مبنی، لیکن وہ آخرکار اپنے اصل مقصد یعنی لوگوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کروانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ ایسا ہی کچھ ہمیں پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ اور وزیراعظم پاکستان عمران خان کی حرکتوں سے محسوس ہوتا ہے کہ وہ بھی اکثر و بیشتر ’’حرکات‘‘ صرف لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کےلیے کررہے ہوتے ہیں، کیونکہ ان حرکات کا کوئی مثبت، تعمیری یا عملی پہلو نظر نہیں آتا۔ ویسے تو معذرت کے ساتھ اگر آپ تحریک انصاف کے دیگر رہنماؤں کی جانب نظر دوڑائیں تو آپ کو ایک سے بڑھ کر ایک ’’ہیرا‘‘ نظر آئے گا لیکن آج ہم ان سب رہنماؤں کے رہنما وزیراعظم پاکستان کی باتوں تک محدود رہتے ہیں۔

گزشتہ دنوں ایک بڑی مزیدار خبر نظر سے گزری کہ وزیراعظم عمران خان نے ٹوئٹر پر سب کو ’اَن فالو‘ کردیا۔ بے اختیار ہنسی آئی کہ شاید جن لوگوں کو خان صاحب ٹوئٹر پر فالو کررہے تھے ان لوگوں نے بھی خان صاحب سے ’این آر او‘ مانگ لیا ہوگا، جو انہیں اَن فالو کردیا گیا۔ وزیراعظم صاحب ہر مہینے میں ایک بار یہ اعلان ضرور کرتے ہیں، چاہے کوئی کچھ کہے نہ کہے، کرے نہ کرے، وہ اپنے اس ڈائیلاگ کو جاری رکھتے ہیں کہ ’چاہے کچھ بھی کیوں نہ کرلو، این آر او نہیں ملے گا‘۔ وزیراعظم سے گزارش ہے کہ مشرف کے دور حکومت سے جاری پالیسیوں کی طرح اب این آر او کو بھی ختم کردیں، کیونکہ مشرف کا دور بھی ختم ہوئے کافی عرصہ بیت چکا ہے۔ اب ڈائیلاگ پرانا محسوس ہونے لگا ہے یہاں تک کہ اب یہ ڈائیلاگ خان صاحب کے ’ری مکس‘ اسٹائل میں بھی دل کو کچھ بھاتا نہیں ہے۔ ویسے بھی اپوزیشن سمیت ہر پاکستانی کی یہ تمنا ہے کہ اگر ایسی کوئی بات حقیقتاً ہے تو برائے مہربانی ہمیں بھی ضرور بتائیے کہ این آر او مانگ کون رہا ہے؟ جبکہ آپ خود بھی ’بنا اجازت‘ کسی کو این آر او دینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ بات ہورہی تھی ٹوئٹر پر سب کو اَن فالو کرنے کی، تو اس ’حرکت‘ پر خان صاحب کو بس یہ ہی کہہ سکتے ہیں کہ ’یہ والی کچھ زیادہ ہی ہوگئی ہے‘۔

باقی آج کل خان صاحب کا اصل زور ملکی اور غیر ملکی میڈیا میں ایک خاص حوالے سے خبروں میں اِن رہنے پر ہے۔ یہ بھیرویں وہ دنیا کو پہلے بھی کورونا کی پہلی لہر کے موقع پر سنا چکے ہیں جس کو اب انہوں نے اقوام متحدہ کے کورونا سے متعلق حالیہ ہنگامی اجلاس میں بھی دہرایا۔ انہوں نے کہا کہ قرضوں میں ریلیف کورونا کے خاتمے تک جاری رکھا جائے۔ پسماندہ ملکوں کے قرضے معاف اور کم ترقی یافتہ ملکوں کےلیے رعایتی قرضے کی سہولت دی جائے اور کورونا سے نمٹنے کےلیے 500 ارب ڈالر کا خصوصی پیکیج مختص کیا جائے۔ اب صاف نظر آرہا ہے کہ معاشی لحاظ سے بے حال حکومت کو بچانے کا یہ آخری جوا ہے، جو خان صاحب اب باقاعدہ طور پر کھیلنے پر آمادہ ہیں۔ کورونا کی آڑ میں اپوزیشن کے سیاسی جلسوں پر پابندی اور مقدمات بنانے کی کوشش جاری ہے اور ساتھ اپنی حکومت کی ناکام معاشی پالیسی جو صرف مانگے تانگے پر چل رہی ہے، اس کے غبارے میں کورونا کو بنیاد بنا کر ہوا بھرنے کی تیاری ہے۔ ویسے حکومت سے پوچھو تو ہم بہت زیادہ ترقی کررہے ہیں اس حکومت کے دور میں، لیکن کورونا کی آڑ میں ہم پسماندہ ملکوں کی صف میں شامل ہیں تاکہ ہم اپنا قرضہ معاف کروا سکیں۔ پہلے ہی ہم نے مانگنے کے سارے ریکارڈ توڑے ہوئے ہیں تو برائے مہربانی کورونا کو بھی اپنے مانگنے کا ایک ذریعہ نہ بنائیے۔

کیا حکومتیں اس طرح بچوں والی حرکتیں کرکے چلتی ہیں؟ اگر آپ کے پاس ہر فیلڈ سے متعلق ماہرین کی کمی ہے تو آپ اپوزیشن کو این آر او دینے کی باتیں چھوڑ کر ان سے حکومت اور معیشت چلانے کا گُر ہی سیکھ لیجئے یا اگر اس بات کو آپ کی ’غیرت‘ گوارا نہ کرے تو جس طرح دیگر مذہبی مسائل پر آپ وحدت امت کےلیے ہر مکتبہ فکر کے علما کا اجلاس کرتے رہتے ہیں بالکل اسی طرح کا ایک اجلاس آپ معیشت پر بھی بلا لیجئے، جس میں پاکستان کے معاشی ماہرین کو دعوت دے کر ان کے مشورے سے معیشت کو بہتر بنانے کی کوئی سعی کرلیں اور اسی طرح دیگر انتظامی ماہرین کو بلاکر بھی آپ انتظامی امور کے حوالےسے مشاورت کرسکتے ہیں۔ کیونکہ آپ کے وزرا اور ان کی کارگزاری کو تو پوری پاکستانی قوم دیکھ ہی چکی ہے، حتیٰ کہ آپ خود بھی اپنی ٹیم کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کرچکے ہیں کہ آپ کو ٹھیک لوگ میسر نہیں آپائے۔ کیا کیجئے کہ پاکستان ہے بھی تو ہمارا اور ہم اب اسے آپ کے ہاتھوں میں دے بھی چکے ہیں۔ اب اتنا حق تو ہمارا بھی بنتا ہے کہ کم از کم ایک مشورہ ہی دے دیں آپ کو۔ امید ہے آپ بچوں والی حرکتوں پر نظرِ ثانی ضرور کریں گے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

محمد حسان

محمد حسان

بلاگر گزشتہ 12 سال سے میڈیا اور پبلک ریلیشنز کنسلٹنٹ کے طور پر ملکی اور بین الاقوامی اداروں سے منسلک ہیں۔ انسانی حقوق، سیاسی، معاشی اور معاشرتی موضوعات پر لکھنے کا شغف رکھتے ہیں۔ آپ انہیں ٹوئٹر اور فیس بُک پر BlackZeroPK سے سرچ کر سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔