If I were you!!

شیریں حیدر  اتوار 13 دسمبر 2020
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

’’ میں نے دکاندار سے کافی بحث کی مگر وہ سترہ سو پر اڑ گیا اور میں پندرہ سو پر… اس نے کہا کہ نہ آپ کا پندرہ سو اور نہ میرا سترہ سو، سولہ سو پر سودا طے کر لیتے ہیں مگر میں اپنی ضد پر اڑی رہی!! ‘‘ کوئی ایک بتاتی ہے ۔

’’ اگر میں تمہاری جگہ پر ہوتی تو میں سترہ سو روپے میں بھی لے لیتی، تم نے اتنی پیاری قمیص اپنی ضد میں صرف سو روپے پر اڑ کر چھوڑ دی ‘‘ جواب میں دوسری کہتی ہے۔

’’ میرے کزن نے سب کی نظر بچا کر میرے ہاتھ سے چائے کا کپ لیتے ہوئے، ہولے سے میرا ہاتھ پکڑ لیا!! ‘‘

’’ If I were you کس کے ایک تھپڑ سب کے سامنے لگاتی، اس نے نظر بچا کر کام کیا میں سب کی نظروں کے سامنے اسے بے نقاب کرتی!! ‘‘ جواب ملتا ہے۔

’’ باس نے تو آج سب کے سامنے وہ بے عزتی کا سیشن کیا ہے کہ کیا بتاؤں، اس کی نظر میں تومیری عزت دو کوڑی کی ہے ہی، آج اس نے سب کے سامنے مجھے دو کوڑی کا کر دیا ہے! ‘‘

’’ اتنا سب کچھ برداشت کرنے کی کیا ضرورت ہے، میں تیری جگہ پر ہوتا تو اس کے منہ پر استعفٰی مار کر آتا ! ‘‘ مشورہ ملتا ہے ۔

’ میری ساس اتنی نامعقول عورت ہے کہ اسے میرے ہر کام میں کیڑے نظر آتے ہیں، ذرا سی بھی برداشت نہیں ہے اس میں، ہر آئے گئے کے سامنے مجھے پھوہڑ ثابت کر کے جانے اس کی کون سی حس کو تسکین ملتی ہے ‘‘

’’ If I were you کب سے ایسی ساس کو طلاق دے چکی ہوتی!! ‘‘ مشورہ دینے والی سمجھتی ہے کہ ہر سسرالی رشتے کو طلاق دی جا سکتی ہے۔

’’ میری امی اتنی ظالم ہیں، لگتا ہی نہیں کہ میں ان کی سگی اولاد ہوں ‘‘

’’ اگر میں ہوں نا تمہاری جگہ پر تو کب سے اپنے ابو کی دوسری شادی کروا دی ہوتی!! ‘‘ مخلصانہ مشورہ دیا جاتا ہے ۔

’’ میرے سارے استادوں کو مجھ سے اللہ واسطے کا بیر ہے، جتنی بھی محنت کر لوں ان سے تعریف نہیں کی جاتی! ‘‘

’’ اگر میں تمہاری جگہ پر ہوں تو کب سے اس اسکول کو دفعان کر کے کسی اور جگہ داخلہ لے لیتا! ‘‘

یہ اور اسی نوعیت کے فقرے ہم سب اپنی روزمرہ زندگی میں بولتے اور سنتے ہیں۔ کہیں پر ہم پہلا فقرہ بولتے ہیں اور کہیں پر جوابی فقرہ۔ بہت سی صورتحال ایسی ہوتی ہیں کہ جن کا اگر بعد میں اپنے ذہن میں جائزہ لیں تو ہم سمجھتے ہیں کہ اگر ذرا سے بھی چالاک ہوتے تو اس صورت حال میں ہم اس سے بہتر بات کہہ سکتے تھے یا بہتر عمل کر سکتے تھے۔ کبھی کبھار ہم اپنی ایسی کوئی صورتحال اپنے کسی مخلص سے شئیر کریں تو وہ ہمیں ایسا مشورہ دیتے ہیں کہ ہم واقعی خود کو بے وقوف سمجھتے ہیں کہ جو کچھ ہمارا دوست کہہ رہا ہے وہ ہمارے ذہن میں کیوں نہیں آیا۔

کیا ہم نے کبھی سوچا کہ جو ہمیں یہ کہہ رہا ہے کہ وہ ہوتا تو اس سے مختلف رد عمل کرتا… کیا ان کا پالا کبھی ایسی صورتحال سے نہیں پڑا کہ جس کے بار ے میں وہ آپ کو بتائیں تو آپ کہیں کہ آپ اس کی جگہ پر ہوتے تو ایسا کرتے یا ویسا کرتے۔ حقیقت یہی ہے کہ ہم سب کا واسطہ زندگی میں بار ہا ایسی صورتحال سے پڑتا رہتا ہے کہ ہم فوری رد عمل کے طور پر جو کچھ کہتے یا کرتے ہیں بعد ازاں ہمیں خود اپنی ہی نظروں میں بے وقوف ثابت کر دیتا ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ہم میں سے ہر کوئی فوری طور پر ایسے ہی رد عمل کا مظاہرہ کرتا ہے، دنیا میں بہت کم تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو کہ حاضر جواب ہوتے ہیں یا ان کا رد عمل ہر طرح کی صورتحال میں بہترین ہوتا ہے، ایسی صورت حال وہ ہوتی ہیں کہ جن کی ہم عموماً توقع نہیں کر رہے ہوتے ہیں۔

جن حالات سے ہمارا ہر روزواسطہ پڑتا ہے، ان میں بھی بعض اوقات ہم ایسے بد حواس ہوجاتے ہیں کہ ذہن میں سوچا ہوا جواب بھی بھول جاتا ہے۔ ایسے رویے ہمارے والدین ، اساتذہ، باس اور دوستوں کی طرف سے ہو سکتے ہیں۔ ہر روز کی ڈانٹ ہمیں ان رویوں کا عادی بنا دیتی ہے اور اس سے ہمیں فرق بھی نہیں پڑتا، ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکالنے کے عادی ہو جاتے ہیں۔ جہاں ڈانٹ کے جواب میں خاموشی اختیار کرنے میں بہتری ہو، وہاں یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ ڈانٹ پڑتی کیوں ہے ۔ پھر خود سے سوال کریں کہ کیا ہم خود کو تبدیل نہیں کر سکتے ؟ کون کون سی ایسی باتیں ہیں جو زندگی کو تلخ بناتی ہیں، کیا ہم اپنی اصلاح کر سکتے ہیں یا زندگی کو تلخیوں کے ساتھ بتانا زیادہ پسند کرتے ہیں۔

کسی حاضر جواب سے مل کر ہم ایک احساس کمتری میں مبتلاہو جاتے ہیں کہ ایسا جلد اور کرارا جواب ہمارے ذہن میں کیوں نہ آیا!! حاضر جوابی بسا اوقات بد تمیزی پر منتج ہوتی ہے۔ بہت سے رشتے، تعلق اور دوستیاں اس حاضر جوابی کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں۔ دوسروں کو عزت دے کر عزت کروائی جاتی ہے، عزت صرف خود سے بڑوں کے لیے ہی نہیں بلکہ خود سے چھوٹوں کے لیے بھی ہونی چاہئے۔ وہ ہماری تقلید کرتے ہیں اور ہمیں وہی لوٹاتے ہیں جو کہ ہم ان کو دیتے ہیں ۔ اپنی بڑائی کے زعم میں خود سے چھوٹوں کو رگید دینا، کسی کو ایسی تلخ بات کہہ دینا کہ جو آپ اپنے سے چھوٹوں سے تو کجا، خود سے بڑوں سے بھی سننا پسند نہ کریں، ایسا بھونڈا مذاق جو کسی کا دل بھی دکھائے اور آپ اپنے لیے برداشت نہ کر سکیں… یہ سب حاضر جوابی نہیں بلکہ منافقت والے رویے کے ضمن میں آتا ہے ۔

یہ سمجھ لینا کہ فقط عورت کی زبان اسے جہنم میں لے جا سکتی ہے اور مرد اس سے محفوظ ہیں، نہ ہی ایسا ہے کہ جہنم میں مرد نہیں ہوں گے۔ زبان جسم میں گوشت کا وہ چھوٹا سا ٹکڑا ہے جوکہ آپ کے پورے وجود سے زیادہ وزن رکھتی ہے۔ زبان کی دھار محاورات میں مشہور ہے کہ ہر تلوار سے تیز ہے۔ یہ آدمی کو ایک لفظ کی غلطی سے عرش سے فرش پر لا پٹختی ہے۔ اسے قابو میں رکھنے والا سب سے مضبوط ہوتا ہے ۔

جب کبھی کسی بات کا فوری جواب نہ بن پڑے اور بعد میں اندازہ ہو کہ آپ کو اپنی ساس کو، والدین کو، اساتذہ کو، باس کو، بیوی یا شوہر کو، سڑک کے کنارے چھیڑنے والے کو، ریڑھی والے کو یا کسی بھی ایسے شخص کو کہ جس سے آپ کا پالا پڑا اور آپ کے ذہن میں اس کی تلخ بات کا فوری کوئی جواب نہ آیا، اس پر پچھتائیں نہیں۔ اللہ کا شکر ادا کریں کہ اس نے آپ کو اپنے الفاظ سے کسی کو تکلیف پہنچانے سے بچا لیا، کسی کا دل آپ کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ کے باعث دکھا نہیں۔ جو کچھ آپ بعد میں کہنے کا سوچ رہے ہوتے ہیں، وہ آپ کبھی بھی کہہ نہیں سکتے کیونکہ وہ وقت گزر گیا۔ اس پر پچھتائیں بھی نہیں کہ وہ آپ کے حق میں اچھا ہی ہوا۔ کمان سے نکلا ہوا تیر اور زبان سے نکلے ہوئے الفاظ کبھی واپس نہیں کیے جا سکتے، چاہے آپ روایتاً کہہ بھی دیں کہ آپ اپنے الفاظ واپس لیتے ہیں۔

اگر آپ کا کوئی دوست آپ کو بتائے کہ اس نے کن حالات میں کیا کیا، اسے جھٹلا کر اور غلط کہہ کر اس کا دل نہ توڑیں۔ مت کہیںکہ میں ہوتا تو ایسا کرتا، ویسا کہتا۔ اگر آپ اس کے ساتھ مخلص ہیں تو اس کی پوری بات سن لیں، اس کے دل کا بوجھ ہلکا ہو جاتا ہے۔ بعد میں اسے پچھتاوے میں مبتلا نہ کریں بلکہ کہیں ، ’’If I were you,  میں بھی یہی کرتا۔ اس طرح کے حالات میں اس سے اچھا جواب کوئی ہو ہی نہیں سکتا تھا، اگر میں تمہاری جگہ پر ہوتا تو میں بھی ایسا ہی کہتا / میں بھی خاموش ہی رہتا/ میں بھی یونہی برداشت کرتا/ میں بھی احترام کے باعث پلٹ کر جواب نہ دیتا ! ‘‘ اچھا دوست وہی ہے جو کہ دوست کے اس عمل کی تائید کرے جو کہ اسے غلطی یا گناہ سے بچائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔