بلدیاتی انتخابات …حکام سنجیدہ فیصلے کریں

ایڈیٹوریل  جمعـء 27 دسمبر 2013
پنجاب اور سندھ کی حکومتیں جنوری میں بلدیاتی انتخابات کرانے کے لیے تیار نہیں ہیں. فوٹو: فائل

پنجاب اور سندھ کی حکومتیں جنوری میں بلدیاتی انتخابات کرانے کے لیے تیار نہیں ہیں. فوٹو: فائل

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے پارلیمانی امور اور الیکشن کمیشن کے حکام سندھ اور پنجاب میں بلدیاتی انتخابات جنوری میں نہ کرانے پر متفق ہوگئے ہیں، کمیٹی نے بلدیاتی انتخابات مارچ میں کرانے کی سفارش کی ہے اور التوا کے لیے دونوں صوبائی حکومتوں کو سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کی تجویز دیدی ہے۔

قائمہ کمیٹی کا اجلاس جمعرات کو چیئرمین میاں عبدالمنان کی زیرصدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا ۔ اس موقع پر پنجاب اور سندھ میں بلدیاتی انتخابات کا جائزہ لیا ۔بلاشبہ قائمہ کمیٹی نے تاریخوں میں توسیع کے ذریعے مناسب راستہ نکال لیا کیونکہ جس قسم کی صورتحال میں بلدیاتی انتخابات کرائے جانے کے اقدامات کیے جارہے تھے اس میں بھی سیاسی جماعتوں اور متعلقہ اداروں کے رویہ رفتار کار سے نیم دلانہ اور اقدامات ’’انتظار کرو اور دیکھو‘‘ wait & see کی عکاسی ہورہی تھی اور تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کا ردعمل محتاط تھا اور ان کی کوشش تھی کہ الیکشن کی تاریخوں میں توسیع کی جائے۔

پنجاب اور سندھ کی حکومتیں جنوری میں بلدیاتی انتخابات کرانے کے لیے تیار نہیں ہیں اور وہ پچھلے دو تین ماہ سے ایسا تاثر دے رہی تھیں لیکن عدالت عظمیٰ کے حکم کے باعث مجبور تھیں‘ اب ایک نئی پیش رفت سامنے آئی ہے کہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے پارلیمانی امور اور الیکشن کمیشن پنجاب اور سندھ میں بلدیاتی انتخابات جنوری کے بجائے مارچ میں کرانے پر متفق ہوئے ہیں‘ اب یہ معاملہ ایک بار پھر عدالت عظمیٰ کے پاس جائے اور اس کے فیصلے کی روشنی میں ہی بلدیاتی انتخابات کی تاریخ متعین ہو گی۔بہرحال جو بھی اتفاق رائے سامنے آیا ہے اسے جمہوری اور بلدیاتی انتخابات کے اصولوں کی روشنی میں آیندہ کی تیاری سے مشروط کیا جائے، الیکشن ہونے چاہئیں،اس سے معاملات اور جمہوری عمل میں سبک رفتاری آئیگی،روزمرہ کے امور کی انجام دہی کا بہت سارا بوجھ بلدیاتی اداروں کے سر جائے گا جو اسے اٹھانے کی اہل بھی ہیں،ضرورت صرف ان کو بجٹ دینے اور سسٹم کو مستحکم کرنے کی ہے۔

الیکشن کمیشن حکام کی جانب سے کمیٹی کو بتایا گیا کہ سندھ میں 18 اور پنجاب میں 30 جنوری کو بلدیاتی انتخابات ہونا ہیں لیکن اس عرصے کے دوران پنجاب کے لیے 30 کروڑ اور سندھ کے لیے 3 کروڑ بیلٹ پیپرز کی چھپائی ممکن نہیں، اس کے علاوہ حلقہ بندیوں کے خلاف تقریباً چار ہزار درخواستیں الیکشن کمیشن کو موصول ہوئی ہیں جن پر ابھی فیصلے آنا باقی ہیں۔ چیئرمین کمیٹی میاں عبدالمنان نے کہا کہ جنوری میں سندھ اور پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں، انتخابات کے لیے 4 لاکھ بائیو میٹرک مشینیں درکار ہیں جس کے لیے بجٹ کی ضرورت ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ سندھ اور پنجاب میں بلدیاتی انتخابات مکمل تیاری کے بعد خیبرپختونخوا کے ساتھ ہونے چاہئیں ۔ادھر ق لیگ نے سندھ میں 18جنوری کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات کو ٹوپی ڈرامہ قرار دیتے ہوئے اس کے بائیکاٹ کا اعلان کردیاہے۔ سندھ میں موجودہ بلدیاتی نظام اورحلقہ بندیوں پر اپوزیشن نے اعتراض کیا ہے اور کئی جماعتیں اس پر عدالت میں پہنچ چکی ہیں، وہ مائل بہ احتجاج ہیں کہ سندھ کا بلدیاتی نظام عوام کی امنگوں کے مطابق نہیں۔

قومی وطن پارٹی کے چیئرمین آفتاب احمد خان شیرپاؤکے مطابق صوبائی حکومت بلدیاتی انتخابات کے انعقاد اورصوبے کے بنیادی مسائل کے حل میںسنجیدہ نہیں جب کہ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ عوام بلدیاتی انتخابات میں دھاندلی کے لیے حکمرانوں کے تمام حربوں کو ناکام بنا دینگے۔پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے بلدیاتی انتخابات عدلیہ کی زیرنگرانی کرانے اورحلقہ بندیاں الیکشن کمیشن کے ذریعے کرانے کے لیے سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں ایک درخواست تحریک انصاف پنجاب کے صدر کی جانب سے دائرکی گئی جس میں مؤقف اختیارکیا گیاکہ بلدیاتی انتخابات کے لیے سرکاری افسران صوبائی حکومت کی مرضی کے مطابق حلقہ بندیاںکررہے ہیں جس سے دھاندلی کاخدشہ ہے ۔

دریں اثنا کاغذات نامزدگی جمع کروانے کے آخری دن بھی پنجاب میں ریٹرننگ آفیسرز کے پاس پورا دن امیدواروں کا رش لگا رہا۔اس موقع پر امیدواروں کو متعلقہ ریٹرننگ آفیسروں کے دفتر معلوم نہ ہونے کے حوالے سے خاصی پریشانی رہی اور وہ کچہری آ کر اپنی یونین کونسلوں کے ریٹرننگ آفیسرز اور ان کے دفاتر بارے چکر لگاتے رہے۔ سندھ کے 6 اضلاع میں دو ہزار سے زائد کاغذات نامزدگی جمع کرائے گئے، یہ نامزدگیاں پینل کے بجائے انفرادی طور پر جمع ہوتی رہیں۔ اعلان کے مطابق یہ سلسلہ 29 دسمبر تک جاری رہیگا تاہم اب دیکھنا یہ ہے کہ نئی تاریخوں کے اعلان کے بعد الیکشن کمیشن کی طرف سے مزید کیا اقدامات ہوتے ہیں۔ سندھ ، پنجاب اور پختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کا ایک ساتھ انعقادصوبائی حکومتوں کے لیے ٹیسٹ کیس بن چکا ہے۔ اس مشن میں کامیابی کے جمہوری فوائد اجتماعی اور ملک گیر ہوں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔