نواز شریف کی قرضہ اسکیم اور میری پریشانی

نصرت جاوید  جمعـء 27 دسمبر 2013
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

وزیر اعظم نواز شریف نے نوجوانوں کے لیے قرضے فراہم کرنے کے جس منصوبے کا ا علان کیا ہے، اس کے بارے میں اپوزیشن جماعتوں کے سرکردہ رہنماؤں نے کئی اعتراضات اٹھائے ہیں۔ مختلف معاشی ماہرین اور خاص طورپر بینکنگ کے شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد بھی اس ضمن میں صرف تکنیکی بنیادوں پر بے تحاشا تحفظات کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ ان مخالفین کے علاوہ قوم کو پارسائی کی راہ پر دھکیلتے رہنے کا اپنے تئیں ذمے دار بنے لکھاری بھی اس وجہ سے بہت پریشان ہیں کہ نوجوانوں کی کاروباری صلاحیتوں کو فروغ دینے کے نام پر نواز شریف جیسا غازی پرہیزگار رہنما پاکستان کی آیندہ نسلوں کو ’’سود‘‘ کی لت لگاکر ’’اللہ کے خلاف جنگ‘‘ کی طرف دھکیل رہا ہے۔ مریم نواز شریف صاحبہ جو اس پروگرام کو بڑی لگن کے ساتھ کامیاب دیکھنا چاہ رہی ہیں، ایسے الزامات سے بہت پریشان ہوگئیں۔ انھیں چند جید پارساؤں کو بذات خود فون کرکے اپنے ایمان کی مضبوطی کا یقین دلانا پڑا۔

ایک سطحی سا رپورٹر ہوتے ہوئے میں وزیر اعظم کی متعارف کردہ قرضہ اسکیم کے تکنیکی پہلوؤں سے ہرگز آشنا نہیں۔ اپنے ’’کمزور ایمان‘‘ کی وجہ سے میں اس منصوبے کے دینی حوالوں سے حلال یا حرام ہونے کا فیصلہ بھی نہیں کرسکتا۔ مگر کل رات میری اس منصوبے سے وابستہ ایک اہم شخصیت سے ایک سماجی محفل میں سرسری ملاقات ہوگئی۔ انھوں نے مجھے ایک دستاویز فراہم کی جو واضح طورپر یہ ظاہر کرتی تھی کہ اب تک کم از کم 60لاکھ پاکستانی نوجوان اس منصوبے کے ذریعے کوئی کاروبار کرنے کے لیے سرمایہ کاری کی رقوم کے حصول کے لیے باقاعدہ درخواستیں دے بیٹھے ہیں۔

ایمان داری کی بات ہے کہ قرض کے امیدواروں کی اتنی بڑی تعداد جان کر میرا وہی حال ہوا جو اساطیری داستانوں میں کسی ایسے کردار کے ساتھ ہوتا نظر آتا ہے جو کوئی واقعہ سن کر پہلے ہنسنا اور پھر رونا شروع کردیتا ہے۔ مثبت انداز سے دیکھئے تو ایک پاکستانی ہوتے ہوئے آپ کو اس بات پر فخر محسوس کرنا چاہیے کہ آپ کے ہاں 60لاکھ کے قریب ایسے نوجوان ہیں جو اپنی صلاحیتیں آزمانے کو بے چین ہیں۔ ان کے ذہن میں مختلف کاروبار چلانے کے ٹھوس Ideasہیں۔ انھیں بروئے کار لانے کی خاطر انھوں نے وزیر اعظم کی قرضہ اسکیم کے فارمز حاصل کیے اور ان میں طے شدہ تمام شرائط کو پورا کرتے ہوئے قرضوں کے حصول کے لیے باقاعدہ درخواستیں بھی جمع کروادیں۔ حکومت اپنی تمام تر خواہش کے باوجود ان میں سے صرف ایک لاکھ افراد کو رقوم دے پائے گی۔ آسان لفظوں میں یوں کہہ لیجیے کہ اوسطاََ 60میں سے ایک نوجوان اپنی صلاحیتوں کو آزمانے کا موقع حاصل کر پائے گا۔ باقی 59کیا کریں گے؟ یہ ہے وہ سوال جس نے مجھے پریشان کررکھاہے۔

میری پریشانی کو پوری طرح سمجھنا ہوتو بس اتنی بات ذہن میں رکھ لیں کہ تقریباََ 20برس سے سماجیات کے کئی ماہرین مسلسل لکھے چلے جارہے ہیں، ان دنوں دُنیا بھر کے معاشروں میں جو خلفشار اور ابتری نظر آرہی ہے، اس کی اصل وجہ Youth Bulgeہے۔ پاکستان ہی کو ذہن میں رکھیے جہاں آبادی کا سب سے بڑا حصہ 40سال سے کم عمر کے نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ جب کوئی ریاست یا معاشرہ نوجوانوں کی ایسی ہیبت ناک تعداد کو باعزت روزگار کے مواقع فراہم کرنے میں ناکام ہوجائے تو وہاں مایوسی پھیل جاتی ہے۔ ’’البرٹ پنٹو‘‘ کو بات بہ بات غصہ آنا شروع ہوجاتا ہے۔ بتدریج یہ غصہ ان افراد کے خلاف اندھی نفرت میں تبدیل ہوجاتا ہے جو کسی نہ کسی صورت اپنے اپنے شعبوں میں کامیاب ہوکر نسبتاََ خوش حال زندگی گزارتے نظر آتے ہیں۔ نفرت کے ان جذبات کو سمجھنا ہوتو انٹرنیٹ پر چلے جائیے اور اپنے ہاں کے چند مشہور لوگوں کے ان فیس بک اور ٹویٹر اکاؤنٹس پر چلے جائیے جو انھوں نے اپنی دانست میں عوام سے اپنے کام پر Feedbackکے حصول کے لیے کھول رکھے ہیں۔ آپ کو وہاں سوائے نفرت بھری مغلظات کے اور کچھ نہیں ملے گا۔

دُنیا بھر کے کئی ملک ہیں جہاں چند کائیاں سیاستدانوں نے نوجوانوں کے دلوں میں اُمڈتے اس نفرت بھرے Rageکو اپنی سیاسی قوت میں تبدیل کرنا چاہا۔ حال ہی میں ہمارے ہمسایے بھارت میں اروند کیجری وال نے اسی رواج کو اپناتے ہوئے ’’عام آدمی پارٹی‘‘ بناڈالی اور دلی کی اسمبلی کے لیے اپنے نامزد کردہ امیدواروں کے ذریعے کئی بڑے نام والے سیاستدانوں کو ذلت جیسی شکست سے دو چار کردیا۔ اس جماعت کو اکثریت تو نہ مل پائی مگر کانگریس کی مکارانہ معاونت سے اس کا بانی اب دلی کا وزیر اعلیٰ بن گیا ہے۔ اپنے عہدے کا حلف لینے تک وہ پروٹوکول والے ٹھاٹھ باٹ کو حقارت سے ٹھکراتا ہوا لوگوں کو حیران کرتا رہا۔ مگر اس کا اصل امتحان اب شروع ہوا ہے۔ نسبتاََ پڑھے لکھے نوجوانوں کا جو 24/7کی خبروں پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں ایک اور بڑا مسئلہ غیر منطقی توقعات بھی ہوتی ہیں۔ یہ توقعات پوری نہ ہوپائیں تو مایوسی مزید گہری ہوکر خوفناک ہوجاتی ہے۔

اروند کیجری وال اور اس کی جماعت کے مستقبل سے مجھے Academicحد تک کچھ دلچسپی ضرور ہے۔ مگر اس کی کامیابی یا ناکامی میرا مسئلہ نہیں۔ مجھے اصل خوف تو پاکستانی 59لاکھ کی اس بے پناہ تعداد سے آرہا ہے جو خود کو باصلاحیت سمجھتی ہے۔ جسے یقین ہے کہ اسے حکومت کچھ رقم فراہم کردے تو وہ دن رات محنت کے ذریعے اپنے لیے باعزت روزگارکے امکانات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے خود کو اس معاشرے کا ایک نسبتاََ مطمئن حصہ محسوس کرسکتی ہے۔ اپنے اندر چھپے امکانات کے حصول کی ساری امیدیں کھو دینے کے بعد یہ 59لاکھ لوگ کیا محسوس کریں گے یہ سوچنے سے بھی خوف آرہا ہے۔ ذہن میں خیال آتاہے تو بس اتنا کہ شاید ان کی ایک بڑی تعداد طاہر القادری کی اس تحریک کا حصہ بن جائے جو 29دسمبر سے وہ اس ملک میں ’’جعلی جمہوریت‘‘ کے خاتمے کے لیے شروع کررہے ہیں۔

شیخ رشید کی زندگی میں رب نے کئی برسوں سے فقدانِ راحت کے چند لمحے بھی نہیں آنے دیے۔ مگر گزشتہ چند مہینوں سے وہ کسی نہ کسی ٹی وی پر اکیلے بیٹھے غریب کے دُکھوں پر دلوں میں پلتی نفرتوں کو بھڑکانے والی نوحہ خوانی فرماتے رہتے ہیں۔ عمران خان نے خیبرپختون خواکے نوجوانوں کو گزشتہ ایک ماہ سے نیٹو سپلائی روکنے پر مامور کررکھا ہے۔ اب وہ پنجاب اور سندھ کے اداس لوگوں کو مہنگائی کے خلاف سڑکوں پر لانے کی کوششوں میں مصروف ہوگئے ہیں۔ پاکستان کے Youth Bulgeنے غصے سے بھری ایک پوری نسل پیدا کردی ہے۔ اس نسل کے نوجوانوں میں توانائی صرف غصہ (Rage)کی صورت ہی نظر آرہی ہے۔ اس غصے کو تباہی اور تخریب کی راہ پر لگانے کو تو بہت لوگ تیار بیٹھے ہیں مگر نوجوان نسل کی مجموعی طاقت کو مثبت اور معاشرے کے لیے مفید راہوں پر لگانے کے لیے فی الحال کوئی سیاسی جماعت یا رہنما آمادہ بھی نظر نہیں آرہا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔