ٹیکسٹائل سیکٹر کی برآمدات

ایم آئی خلیل  جمعـء 27 دسمبر 2013

پاکستان کو جی ایس پی پلس کا درجہ ملنے کے بعد پاکستانی ٹیکسٹائل سیکٹر نے بڑے پیمانے پر بھارت سے روئی کی درآمد شروع کردی ہے۔ ٹیکسٹائل ملز کی جانب سے روئی کی زیادہ سے زیادہ خریداری کی بنا پر ملکی روئی کی قیمتوں میں بھی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ گزشتہ ہفتے بیلجیم کے دارالحکومت برسلز میں ہونے والے یورپی یونین پارلیمنٹ کے اجلاس میں پاکستان کو جی ایس پی پلس کا درجہ دے دیا گیا۔ پاکستان اپنی معیشت کی بحالی اور نائن الیون کے بعد سے دہشت گردی کی لپیٹ میں آجانے کے باعث ترقی یافتہ ممالک سے اس بات کا مطالبہ کرتا رہا ہے کہ اسے ’’ایڈ نہیں ٹریڈ‘‘ کی سہولت مہیا کی جائے۔ پاکستانی مصنوعات پر 9.6 فیصد کسٹم ڈیوٹی عائد تھی۔ یکم جنوری 2014 سے 2017 تک یعنی 4 سال کے لیے پاکستان یورپی یونین کے 27 ملکوں کو بغیر کسٹم ڈیوٹی ایکسپورٹ کرسکے گا۔

جس سے فوری طور پر ایک ارب ڈالر کی ایکسپورٹ بڑھے گی، جس میں بتدریج اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ عمومی ترجیحی اسکیم GSP پلس کے حصول کے سلسلے میں پاکستانی سفارتکاروں نے یورپ میں مقیم ان پاکستانیوں کا تعاون حاصل کیا جو کہ یورپ کی مختلف سیاسی پارٹیوں میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں، کم یا زیادہ اثر و رسوخ رکھتے ہیں اور چھوٹے یا بڑے عہدوں پر فائز ہیں۔ ان جماعتوں کے پاکستانی ممبروں نے اپنی اپنی جماعت کے یورپی پارلیمنٹ کے ممبران سے پاکستانی سفارتکاروں، وزرا اور حکام کی ملاقاتیں کرانے کا اہتمام کیا۔ سابقہ حکومت بھی یورپی یونین کے ممبر ممالک کو اس بات کا احساس دلاتی رہی ہے کہ پاکستان مختلف معاشی مسائل کا شکار ہے۔

دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اہم کردار ادا کرنے کے باعث معاشی بدحالی کا شکار ہے۔ گزشتہ کئی سال سے آنے والے سیلاب اور دیگر قدرتی آفات کے باعث توانائی بحران و ملک میں امن و امان کے مخدوش حالات کی بنا پر بیرونی قرضے اور شرح سود ملکی معیشت پر بوجھ بنتے چلے جا رہے ہیں۔ بیروزگاری اور دیگر معاشی مسائل کے حل کے لیے پاکستان کو ’’ایڈ نہیں ٹریڈ‘‘ کی ضرورت ہے تاکہ ملک اپنے پیروں پر کھڑا ہوسکے۔ پاکستان کی سفارتی اور نجی سطح پر کوششوں کے نتیجے میں پاکستان کے حق میں 406 ووٹ پڑے اور پاکستان کو جی ایس پی پلس کا درجہ یکم جنوری 2014 سے دے دیا گیا۔

پاکستان جوکہ فیبرک پیدا کرنے والا تیسرا بڑا ملک ہے اور کپاس پیدا کرنے والا چوتھا بڑا ملک ہے۔ پاکستان اپنی ٹیکسٹائل مصنوعات کی خاطر امریکا، مصر اور بھارت سے روئی بھی برآمد کرتا ہے۔ حالیہ ہفتے میں امریکی ڈالر کی قدر میں بھی کچھ کمی واقع ہوئی ہے، اس کے ساتھ ہی ٹیکسٹائل مصنوعات کی برآمدات میں اضافے کی توقع کے باعث بھارت سے روئی کی درآمدات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ روئی کی درآمد کے نئے معاہدے کیے جا رہے ہیں اور مزید معاہدے کیے جانے کے امکانات واضح ہیں۔ اس کے ساتھ ہی بھارت میں بھی روئی کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس وقت اس بات کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ یورپی یونین کی جانب سے تجارتی مراعات ملنے کے بعد پاکستان کی ٹیکسٹائل صنعتوں کو کم ازکم 10 لاکھ بلینز روئی کی مزید ضرورت ہوگی۔ جسے پورا کرنے کے لیے بھارت سے درآمدی معاہدے کیے جارہے ہیں۔ درآمدی روئی واہگہ اور کراچی کے راستے پاکستان پہنچائی جائے گی۔

پاکستان کو ایک بہترین موقع اس وقت میسر آئے گا جب جرمنی میں منعقد ہونے والے دنیا کے سب سے بڑے ٹیکسٹائل میلے میں پاکستان شرکت کرے گا۔ بتایا جاتا ہے کہ ٹیکسٹائل مصنوعات سے متعلق یہ دنیا کا سب سے بڑا تجارتی میلہ ہوتا ہے۔ اس ٹیکسٹائل فیئر میں ریکارڈ سوا دو سو سے زائد ٹیکسٹائل ملز کی شرکت کو یقینی بنایا جارہا ہے۔ اس طرح امید کی جا رہی ہے کہ پاکستان کو جی ایس پی پلس اسٹیٹس ملنے کے بعد بڑے پیمانے پر برآمدی آرڈرز حاصل ہوں گے۔

ادھر جیسے ہی جی ایس پی پلس کی خبر آئی تھی ان ہی دنوں حکومت کی طرف سے یہ اعلان کیا گیا کہ پنجاب خصوصاً فیصل آباد کی انڈسٹری کو ڈھائی ماہ کے لیے گیس کی سپلائی بند کی جا رہی ہے۔ یہ خبر سنتے ہی ٹیکسٹائل ملز مالکان کے چہرے مرجھا گئے۔ ان ٹیکسٹائل ملز میں کام کرنے والے مزدوروں کی تعداد 15 سے 20 لاکھ بتائی جاتی ہے۔ ان سب کا بیروزگار ہونا یقینی تھا۔ اس سے قبل بھی گزشتہ برسوں میں ایسا ہوتا رہا ہے کہ موسم سرما کے دوران کئی کئی دن تک پنجاب کی مختلف انڈسٹریز کو گیس کی سپلائی معطل کردی جاتی رہی ہے۔ لوڈشیڈنگ کا دورانیہ بڑھادیا جاتا رہا ہے۔ جس کی وجہ سے برآمدی آرڈرز شدید متاثر ہوا کرتا تھا۔ اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے توانائی بحران کو حل نہ ہوتا ہوا دیکھ کر بہت سے ٹیکسٹائل ملز مالکان بیرون ملک بنگلہ دیش، سری لنکا، ملائیشیا وغیرہ منتقل ہوگئے۔

بنگلہ دیش کو کئی سال قبل جی ایس پی پلس کا درجہ مل چکا تھا۔ جس کے باعث بنگلہ دیش پاکستان سے روئی، دھاگا اور سادہ کپڑے وغیرہ خرید کر گارمنٹس اور دیگر مصنوعات تیار کرکے برآمد کرتا رہا ہے جس سے وہاں روزگار میں اضافے کے ساتھ ان کی برآمدات میں بھی اضافہ ہوتا رہا اور بنگلہ دیشی ٹکا بھی مضبوط ہوتا چلا گیا۔ اب جب کہ پاکستان کی برآمدات میں اضافے کی بھرپور توقع کی جا رہی ہے۔ ایسے میں کئی پاکستانی ملز مالکان جوکہ بیرون ملک چلے گئے تھے واپسی کا عندیہ دے رہے ہیں۔ لیکن ایک چیز جوکہ بار بار ان کے پیش نظر ہے وہ توانائی کا بحران ہے۔ جس کا فوری حل ابھی تک تلاش نہیں کیا جاسکا۔ اگرچہ حکومت نے جی ایس پی پلس کا درجہ ملنے کے بعد 85 ایم ایم سی ایف ڈی اضافی گیس فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ جس سے ٹیکسٹائل ملز مالکان اور مزدوروں کو کچھ ڈھارس بندھی ہے۔

پاکستان میں ٹیکسٹائل انڈسٹری ملک کے 35 لاکھ سے زائد مزدوروں کو روزگار فراہم کرتا ہے۔ پاکستان دھاگا برآمد کرنے والا اہم ملک ہے۔ خطے کے کئی ممالک جوکہ اس سے قبل ٹیکسٹائل مصنوعات کی برآمدات میں پاکستان سے بہت پیچھے تھے۔ مثلاً سری لنکا، ویتنام، بنگلہ دیش وغیرہ وہ پاکستان سے دھاگا برآمد کرکے اس سے کپڑے اور تیار شدہ ملبوسات گارمنٹس وغیرہ بڑے پیمانے پر برآمد کرنے لگ گئے۔ جب کہ پاکستان گارمنٹس کی تیاری میں ابھی بھی بہت ہی پیچھے ہے۔ پاکستان کے صنعتکاروں کو اس طرف بھرپور توجہ دینا ہوگی۔ تیار شدہ مصنوعات ملبوسات ہر قسم کے گارمنٹس کی مارکیٹنگ کی طرف بھرپور توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

غیرملکی تاجر پاکستان سے تیار شدہ ملبوسات مثلاً جیکٹس، پینٹیں وغیرہ منگوا کر اپنی کمپنی کا مونو گرام لگاتے ہیں۔ پرائس ٹیگ چسپاں کرتے ہیں اور کئی گنا زیادہ رقم بٹورتے ہیں۔ اور پاکستان سے انتہائی سستے داموں گارمنٹس اور دیگر ٹیکسٹائل مصنوعات منگوا کر ایک طرح سے پاکستانی تاجروں کا استحصال کر رہے ہوتے ہیں۔ اب ان تمام باتوں کا بغور جائزہ لے کر حکومتی معاونت کے ساتھ پاکستانی تاجروں کو اپنے حق کے حصول کے لیے تگ و دو کرنا پڑے گی۔ پاکستانی برانڈ کو کامیاب کرنے کی بھرپور کوشش کرنا ہوگی تاکہ پاکستان کو بھی زیادہ سے زیادہ زرمبادلہ حاصل ہوسکے، تجارتی خسارہ کم ہو، روپیہ مضبوط ہو اور معیشت بحالی کی جانب گامزن ہوسکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔