لڑائی کے بغیر فتح

شیخ جابر  جمعـء 27 دسمبر 2013
shaikhjabir@gmail.com

[email protected]

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ جاپان میں بہت ماہر لڑاکا رہا کرتا تھا۔ وہ مارشل آرٹس کا ایک جانا مانا نام اور بڑا استاد تھا۔ اس نے اپنی تمام عمر بہت بڑے استاد فن ماسٹر یوشیبا سے ’’ایکیڈو‘‘ سیکھنے میں صرف کی۔ ازاں بعد وہ خود بھی ایک بڑا استاد فن ثابت ہوا۔ اس تمام تر عرصے میں ایک بہت ہی عجیب معاملہ یہ پیش آیا کہ اسے اپنی عام زندگی میں کبھی اپنے لڑائی بھڑائی کے اس فن کو استعمال کرنے کا موقع نہیں ملا۔ وہ اتنا اچھا انسان تھا اور اس وقت کا معاشرہ ایسا تھا کہ لڑائی کی نوبت ہی نہیں آتی تھی، لڑائی جھگڑا تو دور کی بات ہے اس کی کبھی کوئی بدمزگی یا کبھی کسی سے تلخ کلامی کی نوبت بھی نہیں آئی تھی۔

وہ ایک خاص طرز کی زندگی بسر کرنے کا عادی تھا، سب کا احترام کرتا تھا اور سب کے کام آنے کی کوشش کرتا تھا۔ جب اس کے دل میں یہ خیال آیا کہ اسے اپنے فن کے عام استعمال کا کبھی موقع نہیں مل سکا، تو اس نے ٹھان لی کہ اب ضرور کسی نہ کسی موقع پر اپنے فن کو اکھاڑے (ڈوجو) کے باہر بھی آزمائے گا۔ لیکن یا للعجب یہ خواہش دل ہی دل میں انگڑائیاں لیتی رہی، فن کے استعمال کا موقع پھر بھی نہیں مل سکا۔ یوں تو اس خلش سے جان چھڑانا کچھ مشکل اس لیے بھی نہ تھا کہ کہیں بھی کسی بھی بہانے سے کسی سے بھی لڑ پڑتا۔ ایک یا زائد افراد سے بھڑ کر دل کی بھڑاس نکال لیتا لیکن قدیم فراست اور اقدار کے حامل اس فن کی اپنی ہی اخلاقیات ہیں، بڑی مضبوط، بڑی توانا۔ اس فن کے سیکھنے والے پہلے اخلاق اور ادب سیکھتے ہیں، پھر اکتساب فن ہوتا ہے۔ وہ سیکھتے ہیں کہ معاشرے کا ہم پر کیا حق ہے۔ شاید یہ ہی سبب ہے کہ اس طرح کے فنون کے حامل افراد کے کبھی کہیں جھگڑے دیکھنے میں نہیں آئے۔ ’’ایکیڈو‘‘ کے فن کے ماہر اور استاد کی شرافت اور تربیت سے بعید نہیں تھا کہ محض اپنے فن کی آزمائش یا نمائش کے لیے کسی سے جھگڑ بیٹھے۔

القصہ مختصر دن گزرتے رہے، زندگی گزرتی رہی اور یہ کسک اس کے دل میں پنپتی رہی۔ اسے کبھی موقع ہی نہیں مل سکا کہ وہ کبھی کہیں اپنی حسرت پوری کرسکے۔ پھر ایک دن ایسا ہوا کہ وہ ٹرین میں سفر کر رہا تھا، یہ شہر ہی میں چلنے والی ٹرین تھی، رات کا وقت تھا۔ اس نے دیکھا کہ بوگی میں ایک بدمست شرابی داخل ہوا۔ اس کا ڈیل ڈول اور جسامت عام افراد کی نسبت زیادہ تھی۔ اس نے بوگی میں داخل ہوتے ہی بدتمیزی، گالم گلوچ اور مار پیٹ شروع کردی۔ یہ سب کچھ دیکھ کر ماہر لڑاکا کا دل خوشی سے جھوم اٹھا۔ اس نے سمجھ لیا کہ یہ ہی وہ موقع ہے جس کا اسے عرصے سے انتظار تھا، اور یہ ہی وہ بدمست ہاتھی ہے جس پر اپنے فن کی آزمائش کی جائے گی۔

جوں جوں وہ اس کی جانب بڑھ رہا تھا اس کی بدمستی، ہاتھا پائی اور گالم گلوچ میں اضافہ ہوتا جارہا تھا۔ ٹرین کا ہر فرد اس کی شرارتوں کے مقابلے میں خود کو عاجز پاتا تھا۔ ادھر وہ سب سے لڑتا بھڑتا ہمارے ہیرو کی جانب چلا آرہا تھا۔ یہ تیار بیٹھا تھا، جانتا تھا کہ اسے کس طرح ایکشن میں آنا ہے۔ لیکن اچانک ایک حیرت انگیز واقعہ رونما ہوتا ہے۔ ایسا واقعہ جس نے اس ماہر لڑاکا کی زندگی کا رخ ہی تبدیل کردیا، اس کے دیکھنے اور سوچنے کا انداز اور زاویے ہی تبدیل ہوگئے۔

ہوا یوں کہ جوں ہی وہ بدمست شرابی اس کے نزدیک پہنچا، اس ماہر لڑاکا کی سیٹ سے اگلی سیٹ پر بیٹھا مسافر تیزی سے کھڑا ہوا۔ اس نے شرابی کو فوراً اپنی جانب متوجہ کیا۔ ’’اے بھائی! کیا ہوگیا ہے تمھیں؟ لگتا ہے صبح سے شراب پینے کے علاوہ تم نے کچھ نہیں کیا؟ شاید تم بہت پریشان ہو؟ ادھر آؤ میرے پاس بیٹھو‘‘۔ اس نے محکم لہجے میں شرابی کو حکم دیا اور بازو سے پکڑ کر اپنے پاس بٹھا لیا۔ اگرچہ مسافر اپنے قد اور جسامت وغیرہ کی بنا پر کم تھا، لیکن نہ جانے اس میں کیا تھا جو وہ ماحول پر چھایا ہوا لگتا تھا۔ ’’ہاں میرے بھائی۔! اب مجھے بتاؤ… آخر بات کیا ہے…؟‘‘ ایکیڈو کا ماہر لڑاکا ہکا بکا یہ سب دیکھتا رہا۔ اس مسافر نے شرابی سے باتیں شروع کردیں۔ اگلے چند منٹوں میں شرابی مسافر کے گلے میں بانہیں ڈالے دھاڑیں مار مار کر رو رہا تھا۔

ماہر لڑاکا حیران رہ گیا۔ عین اس لمحے اس پر یہ راز کھلا کہ ماسٹر ’’یوشیبا‘‘ اور دیگر بڑوں نے جس ’’ایکیڈو‘‘ اور جس مارشل آرٹس کی تعلیم دی ہے، یہ اس کا عملی مظاہرہ تھا۔ یہ طریقہ مارشل آرٹس کی معراج اور اصل روح ہے۔ طاقت، تشدد، ظلم و ستم، تعدی، ضد، ہٹ دھرمی کبھی بھی کہیں بھی مسائل کا حل قرار نہیں پاتے۔ دیکھا یہ گیا ہے کہ جب بھی آپ معاملات کو انسانی سطح پر دیکھنے، جانچنے اور حل کرنے کی کوشش کریں گے تو نتیجہ فساد کے علاوہ کچھ بھی برآمد نہیں ہوتا۔ جب صرف یہ سوچ لیا جائے کہ میں بھی انسان ہوں، سامنے والا بھی میرے جیسا ہی انسان ہے تو پھر ہم سامنے والے سے زیادہ طاقت حاصل کرکے اسے مزا چکھانے کے منصوبے بناتے رہیں گے۔ اگر وہ ماہر مکے باز ہے تو ہم تلوار سونت لیں گے۔ وہ تلوار لے آیا تو ہم پستول خرید لائیں گے۔ اس کے پاس پستول ہے تو ہم توپ لے آئیں گے۔ وہ توپ خرید رہا ہے تو ہم بم بنا لیں گے۔ اس کے پاس بھی اگر بم آگیا ہے تو ہم ایٹم بم یا نیپام بم بنا لیں گے۔ غرض یہ سوچ اور دوڑ دونوں کی تباہی اور اس زمین کی تباہی سے کم کسی چیز پر رکنے اور ٹکنے والی نہیں۔

اگر ہم اس تمام تر معاملے کو انسانی سطح سے بلند ہو کر صرف اور صرف الوہی سطح پر دیکھنے والے بن جائیں تو ہمیں نظر آئے گا کہ ہمارا معاملہ کسی عام یا خاص فرد سے نہیں ہے۔ فرد کے پیچھے ہمیں اس کا، ہمارا اور ساری کائنات کا خالق، مالک اور پالن ہار نظر آئے گا۔ ہم دیکھیں گے کہ یہ سب اس کا کنبہ ہے۔ ہم یہ جان لیں گے، اگر میں نے اس کنبے کے کسی فرد یا کسی شے کو کسی بھی طرح کا نقصان پہنچانے کا سوچا بھی تو یہ میری بدبختی کے آغاز کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔

ہم دیکھتے ہیں کہ روایتی معاشروں میں یہ سوچ، یہ فکر اور یہ اقدار عام تھیں۔ لیکن کانٹ کے فلسفہ روشن خیالی سے جنم لینے والا انسان خود سے اوپر اٹھ کر سوچنے کی صلاحیت سے محروم ہوگیا ہے۔ آپ متذکرہ بالا واقعے پر غور کریں۔ وہ کیسا معاشرہ تھا، وہ کیسے افراد تھے، جہاں ایک لڑاکا زندگی بھر لڑائی کو ترسا۔ جب لڑائی کا موقع آیا بھی تو اسے لڑائی کے بجائے محبت کا درس ملا۔ دنیا بھر کی روایتی تہذیبوں اور معاشروں کا مطالعہ کیجیے، آپ کو نظر آئے گا کہ ان تہذیبوں کا طاقت ور ترین آدمی عاجزی کا پیکر ہوا کرتا تھا۔ جاپان کے ’’سیمورائی‘‘ ہوں یا چین کے ’’شاؤلن‘‘ یہ عجیب و غریب طاقتوں اور صلاحیتوں کے حامل ہوا کرتے تھے۔ لیکن ان کی طاقتوں اور صلاحیتوں سے کبھی کسی کو کوئی خطرہ نہیں تھا۔ آج کی طاقت نے تو بحر و بر میں فساد بپا کر رکھا ہے۔ کبھی ویت نام پر حملہ، کبھی ایٹم بم مار دینا، کبھی عراق پر تو کبھی افغانستان پر حملہ، ڈرون حملے وغیرہ۔

امن کے نام پر دہشت گردی اور انسان کشی کا وہ بازار گرم کیا ہے کہ الامان۔ سوچ کی یہ ہی کجی ہے جس سے وہ خود بھی محفوظ نہیں۔ ’’فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن‘‘ نے 16 ستمبر کو سال گزشتہ میں وقوع پذیر ہونے والے جرائم کی رپورٹ شایع کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق 2012 میں 1,214,462 تشدد آمیز جرائم رپورٹ ہوئے۔ 14,827 قتل، 84,376 زنا بالجبر، 354,520 ڈکیتیاں، 760,739 سنگین تشدد کے واقعات، 721,053 گاڑیاں چوری ہوئیں وغیرہ۔ ایف بی آئی کا کہنا ہے کہ جرائم کے واقعات اس سے گزشتہ برس یعنی 2011 کے مقابلے میں 0.7 فیصد زیادہ ہیں۔ ایک اور خبر کے مطابق امریکا میں قتل کے جرائم کسی بھی ترقی یافتہ ملک کے مقابلے میں زیادہ ہیں، مثال کے طور پر جاپان میں 0.4 فیصد، جرمنی میں 0.8 فیصد، آسٹریلیا میں 1.0، فرانس میں 1.1، برطانیہ میں 1.2، جب کہ امریکا میں یہ شرح فی ایک لاکھ افراد 4.7 تھی۔

طاقتور ہر دور اور ہر خطے میں رہے ہیں۔ انسانی تاریخ اور صدیوں کا تجربہ گواہ ہے کہ اخلاقیات اور روحانیت سے عاری طاقت فساد اور بگاڑ کا سبب بننے کے علاوہ کچھ نہیں کر پاتی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔