کیا لکھوں، کیا نہ لکھوں

ڈاکٹر منصور نورانی  پير 14 دسمبر 2020
mnoorani08@gmail.com

[email protected]

گیارہ جماعتوں پر مشتمل پی ڈی ایم کا اتحاد اپنی تمام کشتیاں جلا کر آج کل معرکہ آرائی میں مصروف ہے، وہ بظاہر مہنگائی اور بیروزگاری کے ایشو کو بہانہ بنا کر عوام کو حکومت کے خلاف اکسانے کی کوششوں میں سرگرداں ہے۔ پس پردہ وہ اپنے اوپر نیب کے کیسوں سے جان بخشی کی کوئی تدبیر نکالنے کی کوششوں میں تگ و دو کرتا دکھائی دیتا ہے۔

اُسے اچھی طرح معلوم ہے کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ ابھی تک حکومت کی پشت پر موجود ہے اور پاکستانی سیاست میں جب تک کسی حکومت کو یہ آشیرواد حاصل رہتی ہے، دنیا کی کوئی طاقت اُسے ہلا نہیں سکتی۔ وہ بے شک ایک دو سیٹوں کی اکثریت سے قائم ہو یا پھر دوسری جماعتوں کی بیساکھیوں کے سہارے چل رہی ہو۔

ہاں اگر اسٹیبلشمنٹ ناراض ہو جائے اور وہ چاہے دو تہائی اکثریت سے حکومت کر رہی ہو لیکن اُسے بیدخل ہونے میں دیر نہیں لگا کرتی۔ کہنے کو وزیر اعظم صاحب اپوزیشن کے حالیہ تحریک کو غیر ملکی سپورٹ کا طعنہ دے رہے ہیں لیکن حقیقت حال اس کے بالکل برعکس ہے۔ میاں نوازشریف کے ہٹانے میں گرچہ کچھ خفیہ ہاتھ ضرور ملوث تھے لیکن ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ امریکا بہادر کا ہماری سیاست میں کتنا عمل دخل ہے، وہ اگر کسی سے ناراض ہو جائے تو پھر وہ مزید برسراقتدار نہیں رہ سکتا۔

سابق وزیر اعظم میاں نوازشریف نے اپنے دوسرے دور حکومت میں جب امریکی صدر کلنٹن کے حکم کے تابعداری سے انکارکیا تھا تبھی اُن کی بیدخلی کا پروانہ لکھا جا چکا تھا۔ شروع شروع میں تو اُن کے حکومت جو دو تہائی اکثریت کے زور پر قائم تھی اندر سے توڑنے کی کوششیں کی گئیں، لیکن پھر جب اس میں کامیابی حاصل نہ ہوئی تو12 اکتوبر 1999 کے آپریشن کے ذریعہ اُن کا کام کر دیا گیا۔ یہ وہ حربہ ہے جو ہماری قومی سیاست میں ہمیشہ آزمایا جاتا رہا ہے۔

وطن عزیز کے سب سے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کی شہادت کے پیچھے بھی ایسے ہی عوامل کار فرما تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک اُن کی شہادت کے اسباب و محرکات کسی کے سامنے نہیں آ پائے اور نہ اُن کے اصل قاتلوں کا پتا لگایا جا سکا۔

ایسا ہی کچھ ہم نے جنرل محمد ضیاء الحق کی ہلاکت کے موقعہ پر بھی دیکھا تھا۔ اُنہیں کس نے ایک سازش کے تحت راستے سے ہٹایا، وہ راز آج تک قوم کے سامنے ظاہر نہیں ہو سکا۔ ہم سول حکمرانوں کے بارے میں ایسا سوچا کرتے ہیں لیکن جنرل ضیاء توکوئی سویلین حکمراں نہیں تھے، لیکن اُن کے ساتھ بھی وہی کچھ ہوا جو سویلین حکمرانوں کے ساتھ ہوتا آیا ہے۔

تو بات ہو رہی تھی موجود سیاسی منظرنامے کی۔ مولا نافضل الرحمٰن شروع دن سے موجودہ سیاسی سیٹ اپ کے خلاف رہے ہیں۔ اُنہوں نے 2018 کے انتخابات کے فورا ًبعد ہی اِس حکومت کو تسلیم کرنے سے انکارکر دیا تھا۔ اُنہوں نے اپوزیشن کے دیگر پارٹیوں کو بھی یہی مشورہ دیا تھاکہ اسمبلیوں میں جانے سے انکار کر دو اور نئے انتخابات کا مطالبہ کر دو، لیکن پاکستان پیپلز پارٹی اُن کے اِس مقصد کی راہ میں حائل ہو گئی۔ پیپلز پارٹی کو معلوم تھاکہ نئے الیکشن میں بھی اُس کی پوزیشن ایسی ہی رہے گی، بلکہ اِس کے کامیابی کم تو ہو سکتی ہے لیکن زیادہ نشستیں اُسے ہرگز نہیں مل سکتیں۔

اُس کے حصہ میں وہی سندھ صوبے کی حکومت ہی آئے گی، پھر وہ میاں نوازشریف کو اقتدار دلانے کی بھلا کیوں کوششیں کرے۔ یہیں سے مولانا اور پیپلز پارٹی کے راستے جدا ہو گئے۔ میاں نواز شریف چونکہ اُن دنوں وہ اپنی دختر نیک اختر کے ساتھ جیل کے سلاخوں کے پیچھے تھے لہذا وہ کوئی پلان نہیں دے سکے۔ یوں مولانا مایوس ہو کر ایک جانب ہوگئے لیکن میدان سیاست میں اپوزیشن کو یکجا کرنے کی کوششیں ضرورکرتے رہے۔

2019میں لانگ مارچ کا پروگرام بھی بنایا مگر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے طرف سے حمایت نہ ملنے کے باوجود وہ اسلام آباد میں دھرنا دینے ضرور پہنچ گئے۔ کہنے کو وہ دھرنا انھوں نے کسی یقین دہانی پر ختم کیا تھا، مگر جاننے والے جانتے ہیں کہ سخت سردی اور بارشوں کی وجہ سے وہ اپنے طور پرکسی خفت یا شرمندگی سے بچنے کے لیے خود دھرنے سے واپس ہوئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک وہ کوئی جواب طلب نہیں کر سکے۔

حالیہ پی ڈی ایم کی تحریک بھی لگتا ہے ایسے ہی کسی انجام سے دوچار ہو گی۔ دیکھنے کو بظاہر وہ بہت متحد اور سرگرم دکھائی دیتی ہے، لیکن اُن کے پاس صرف استعفیٰ دینے سے زیادہ بڑا کوئی آپشن باقی نہیں رہا ہے اور جب یہ مرحلہ آئے گا تو ہم پورے وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ اُن ساری پارٹیوں کے بہت سے ارکان اِس طرح استعفیٰ دینے سے انکارکر دیں گے۔

اپوزیشن کا جو حال ہے وہ ہم سب کو پتا ہے۔ وہ سینیٹ کے چیئرمین کے خلاف عدم اعتماد کے کسی تحریک کو کامیاب کروانے میں جب کامیاب نہ ہو سکی تو پھر ایساکیونکر کر سکے گی۔ وہ اپنے اُن ارکان کا بھی پتا نہیں لگا سکی جنھوں نے اُس تحریک کو ناکامی سے دوچار کروایا تھا۔ ہمیں تو ایسا لگتا ہے کہ پی ڈی ایم میں پھوٹ پڑنے کے آثار اُس کے کامیابی سے زیادہ ہیں۔ اِسی لیے ہمیں ابھی سے اُس کا انجام بہت بھیانک دکھائی دے رہا ہے۔ محترمہ مریم نواز کی مقبولیت اور پذیرائی بہرحال اپنی جگہ ضرور ہے اور وہ آیندہ کی قومی سیاست میں مسلم لیگ کی قیادت کرتی بھی دکھائی دیتی ہیں، لیکن پیپلزپارٹی کے لیے یہ شاید کوئی نیک شگون نہ ہو۔ پھر بھلا وہ کیونکر ایسا کوئی کام کرے گی جس کا  وصول کنندہ کوئی اور ہو۔

سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری بہت ہی مشاق اورذہین سیاست داں ہیں، وہ آج کل کیوں خاموش ہیں، اگر پی ڈی ایم کی کامیابی سے اُنہیں بھی کوئی فائدہ حاصل ہونا ہوتا تو وہ شاید اِس طرح خاموش نہیں رہتے۔ پھر جس پارٹی میں اعتزاز احسن جیسے لیڈر موجود ہوں اور جو عمران حکومت کے بہی خواں بھی ہوں تو سوچا جائے کہ وہ اپنی پارٹی کے لوگوں کو کیونکر استعفیٰ پر آمادہ کریں گے۔

وہ تو پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ آئین و دستور میں ایسی کوئی شق نہیں ہے جوحکومت کو ضمنی الیکشنوں سے روک سکے۔ یہ اور بات ہے کہ جب پی ٹی آئی کے 32 ارکانِ اسمبلی نے 2014 میں اپنے استعفیٰ ایک ساتھ جمع کرکے اسپیکر صاحب کو دے دیے تھے تو ایاز صادق کو اُن سب استعفوں کی منظوری سے یہ کہہ کر روکا گیا کہ اتنی بڑی تعداد میں ضمنی الیکشن کرانا کوئی آسان نہیں ہو گا۔ لوگ اِسے نہیں مانیں گے۔

اب آپ خود ہی سوچ لیں پی ڈی ایم کے لیے یہ استعفے والا آپشن کس طرح کامیاب ہو پائے گا۔ ہمیں تو مارچ سے پہلے حکومت جاتی دکھائی نہیں دے رہی، بلکہ مارچ کے بعد وہ مزید مضبوط ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔