پاکستان بھی تو کچھ کرے

عابد محمود عزام  جمعـء 27 دسمبر 2013

عالمی ثالثی عدالت کا فیصلہ آجانے کے بعد کشن گنگا ڈیم کو کافی اہمیت اور شہرت حاصل ہوگئی ہے۔ ’’کشن گنگا ندی‘‘ سنسکرت زبان کا لفظ ہے، جو دریائے نیلم کے لیے بولا جاتا ہے۔ بھارت نے 2007 میں 330 میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کے لیے 3600 کروڑ روپے کی مالیت کے ساتھ مقبوضہ کشمیر میں دریائے نیلم پر کشن گنگا ڈیم کی تعمیر شروع کی، جس کی تکمیل 2017 میں ہونی ہے۔ یہ بھارتی منصوبہ پاکستان کے نقصان میں ہے، اس لیے پاکستان نے اس ڈیم کی تعمیر پر اعتراضات اٹھائے کہ بھارت کی جانب سے کشن گنگا دریا کا رخ موڑنا اور پاور ہاؤس کے گیٹ نچلی سطح پر نصب کرنا سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی ہے اور اس سے پاکستان کا نیلم جہلم بجلی گھر 30 فیصد پیداوار اور وادی نیلم کا ایک حصہ دو ہزار کیوسک پانی سے ہمیشہ کے لیے محروم ہو جائے گا۔ پاکستان نے بات چیت کے ذریعے معاملہ سلجھانے کی کوشش کی، لیکن بھارت کی جانب سے معقول جواب نہ ملنے پر مئی 2010 کو عالمی ثالثی عدالت میں کشن گنگا پن بجلی گھر کی تعمیر کے خلاف درخواست دائر کردی۔ جس کے بعد عالمی ثالثی وفد نے متنازع کشن گنگا بجلی گھر کا معائنہ کرکے 2011 میں بھارت کو اس منصوبے پر کام کرنے سے روک دیا، لیکن بھارت نے پاور پلانٹ ٹنل کی تعمیر جاری رکھی۔

رواں سال فروری میں ہیگ کی بین الاقوامی عدالت نے زیر تعمیر کشن گنگا ہائیڈرو الیکٹرک پروجیکٹ کے سلسلے میں یہ تو تسلیم کیا کہ یہ پروجیکٹ پاکستان کے لیے نقصان دہ ہے، لیکن اس بات کو نہیں مانا کہ بھارت کے اس پروجیکٹ سے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔ گزشتہ دنوں عالمی ثالثی عدالت نے کشن گنگا ڈیم کیس کے حوالے سے سنائے جانے والے فیصلے میں بھارت کو ڈیم سے متعلق دیگر معاملات سے روکتے ہوئے کشن گنگا ڈیم سے فی سیکنڈ 9 مکعب میٹر پانی چھوڑنے کا حکم دیا ہے اور کہا کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں کشن گنگا ڈیم بنا تو سکے گا، مگر وہ پاکستان کو آدھا پانی دے گا اور بھارت کشن گنگا پن بجلی منصوبے کے لیے بنائے جانے والے ڈیم میں پانی کا لیول انتہائی سطح کے نیچے نہیں لے جاسکے گا۔ ابھی عالمی عدالت کے اس فیصلے کو چوبیس گھنٹے بھی نہ گزرے تھے کہ بھارت نے آزاد کشمیر کے دو دریاؤں نیلم اور جہلم کا پانی روک لیا اور کہا کہ وہ دریا کشن گنگا پر بجلی پراجیکٹ کی تعمیر کے معاملے پر سندھ طاس معاہدے کی کوئی خلاف ورزی نہیں کررہا، جب کہ سندھ طاس کونسل پاکستان کے چیئرمین کا کہنا ہے کہ کشن گنگا ڈیم کے حوالے سے بھارتی اقدام سندھ طاس معاہدے کی صریحاً خلاف ورزی ہے، بھارت سندھ طاس معاہدے کے تحت دریائے نیلم کا رخ کسی صورت نہیں موڑ سکتا، کشن گنگا پروجیکٹ پر عالمی ثالثی عدالت نے پاکستان کے اٹھارہ کروڑ عوام کی حق تلفی کی ہے۔

واضح ہو کہ 1960 میں پاکستان کے صدر ایوب خان اور بھارتی وزیراعظم نہرو کے دستخط سے پاکستان اور بھارت کے مابین دریاؤں کی تقسیم پر ہونے والا سندھ طاس معاہدہ (انڈس واٹر ٹریٹی) اگرچہ پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے، اس کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ کشن گنگا ڈیم کی تعمیر سے بھارت سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوا ہے۔ اس معاہدے کے تحت دونوں ممالک کے درمیان چھ بڑے دریاؤں کی تقسیم عمل میں آئی تھی، جو بھارت سے پاکستان کی طرف بہتے ہیں۔ اس معاہدے میں یہ واضح ہے کہ کچھ شرائط کے ساتھ تین مغربی دریاؤں (سندھ، جہلم اور چناب) کے پانی پر پاکستان کا حق ہوگا اور دیگر تین مشرقی دریاؤں (راوی، ستلج اور بیاس) کا حق دار بھارت ہوگا۔ پاکستان میں داخل ہونے والے تمام دریاؤں کے پانی اور ان ذیلی دریاؤں کے پانی پر جو اپنی قدرتی گزرگاہوں سے ہوتے ہوئے مرکزی ستلج اور مرکزی راوی میں ضم ہوجاتے ہیں، پاکستان میں داخل ہونے کے بعد پاکستان کا حق ہوگا اور بھارت کسی بھی طرح ان کا بہاؤ روکنے کا مجاز نہیں ہے ۔ اب پاکستانی حق پر بھارت کا ڈیم تعمیر کرنا کس طرح معاہدے کی خلاف ورزی شمار نہیں ہوگا؟

یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ کشن گنگا ڈیم کے حوالے سے بھارت کے حق میں ہونے والے عالمی عدالت کے فیصلے کو ہماری حکومت نے بہت بڑی فتح قرار دیا ہے، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ کشن گنگا کیس پر عالمی عدالت کی جانب سے ہونے والا فیصلہ پاکستان کی 60 سے 65 فیصد، جب کہ بھارت کی 30 سے 35 فیصد فتح ہے۔ عالمی عدالت نے بھارتی حکومت کو کشن گنگا ڈیم کی تعمیر سے روکا نہیں، بلکہ اس کا ڈیزائن تبدیل کرنے کا کہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ مقدمہ جیتنے کے باوجود پاکستان کو دریائے نیلم کا پورا پانی نہیں مل سکے گا۔ یہ فیصلہ پاکستان کے نیلم جہلم ہائیڈرو پراجیکٹ کو کم از کم 10 فیصد تک نقصان پہنچائے گا اور پاکستان کو اپنے اہم ترین منصوبے نیلم جہلم پاور پروجیکٹ پر نظرثانی کی ضرورت بھی پیش آسکتی ہے۔

اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنے دریاؤں کو بھارتی تسلط سے آزاد کرانے کے لیے فوری طور پر معاہدہ سندھ طاس کے ثالث کو ساتھ ملا کر مستقل بنیادوں پر مذاکرات کے ذریعے بھارت کی آبی جارحیت کو روکنے کا کوئی حل نکالا جائے اور بھارت کی طرف سے متنازع ڈیموں کی تعمیر بند کر دینے کا عملی مظاہرہ کیے جانے تک یہ مذاکرات جاری رہنے چاہیے۔ اگر جلد ہی بھارتی منصوبوں کا توڑ نہ کیا گیا توہمارا زرعی شعبہ مکمل تباہی سے دوچار بھی ہوسکتا ہے۔ بھارت سے تمام متنازع پروجیکٹ کی تعمیر رکوانے کے لیے باضابطہ طور پر عالمی عدالت میں پٹیشن بھی دائر کی جائے، تاکہ عالمی عدالت اور دیگر ادارے بھارت کو آبی جارحیت سے باز رکھنے کے لیے دباؤ ڈالیں۔ اس کے ساتھ سب سے ضروری یہ ہے کہ پاکستان کو بھی بھارت کی طرح پانی کا ذخیرہ کرنے اور پانی سے بجلی بنانے کے لیے بہت تیزرفتاری کے ساتھ جنگی بنیادوں پر پیش رفت کرنا ہوگی، چاروں صوبوں کو ہوش مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تمام اختلافات جلد از جلد ختم کرکے اس معاملے کو آگے بڑھانا چاہیے، کیونکہ اب مزید تاخیر اور لیت و لعل کی کوئی گنجائش نہیں۔

ہمارے ساتھ آزاد ہونے والے بھارت نے آزادی کے بعد سو سے زاید ڈیم سمیت سیکڑوں بجلی پیدا کرنے والے ہائیڈرو الیکٹرک پراجیکٹ تعمیر کرلیے ہیں، جب کہ درجنوں میگا پراجیکٹ زیر تعمیر ہیں۔ تقریباً 14 ڈیم تو صرف پاکستان کے ملکیتی دریاؤں پر بنالیے ہیں، لیکن ہم سیاسی چپقلش اور حکومتوں کی نااہلی کے باعث اپنی ضرورت کے مطابق بھی ڈیم نہیں بناسکے ہیں اور ایک طویل عرصے سے کالا باغ ڈیم کو سیاست کی بھینٹ چڑھا کراپنی جیبیں بھری جا رہی ہیں۔ حالانکہ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ پانی کی اہمیت و ضرورت بھی بڑھتی جارہی ہے، آنے والے دنوں میں دنیا میں پانی کے مسئلے پر جنگیں بھی ہوسکتی ہیں۔ اس سب کے باوجود اب تک جتنی بھی حکومتیں آئیں، سب نے عملی اقدام کے بجائے صرف نعرے لگائے۔ حکمران طبقے نے بھارتی آبی جارحیت کا راگ الاپنے کے سوا کچھ نہیں کیا، حالانکہ صرف شور مچانے سے تو کچھ نہیں ہوگا، جس طرح بھارت نے دوراندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سیکڑوں ڈیم تعمیر کرلیے ہیں، اس طرح پاکستان بھی تو کچھ عملی اقدام کرے۔ جب تک غور و فکر اور مستقل و مضبوط بنیادوں پر کام نہیں کیا جاتا، ملک میں پانی اوربجلی کی کمی کا روگ اسی طرح رہے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔