برقی گاڑیوں کے میدان میں احتیاط سے قدم رکھنے کی ضرورت

ایکسپریس ٹریبیون رپورٹ  پير 14 دسمبر 2020
حکومت ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ کیلیے چین، جاپان اور کورین کمپنیوں سے اشتراک پر غور کرے

حکومت ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ کیلیے چین، جاپان اور کورین کمپنیوں سے اشتراک پر غور کرے

 کراچی:  عالمی سطح پر برقی گاڑیوں کی مارکیٹ وسعتاختیار کررہی ہے، تاہم اس میدان میں قدم رکھنے کے لیے احتیاط کی ضرورت ہے۔ حالیہ دنوں میں وزیر برائے صنعت و پیداوار حماد اظہر نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے صنعت و پیداوار میں الیکٹرک وھیکلز پالیسی کا ڈرافٹ پیش کیا تھا۔

اس منصوبے میں 1800 سی سی کی الیکٹرک اور ہبرڈ گاڑیوں کی پروڈکشن پر قابل اطلاق ٹیکسوں میں 50 فیصد چُھوٹ اور 1800 سی سی سے اوپر کی گاڑیوں کے لیے ٹیکس میں 25 فیصد چھوٹ کی تجویز شامل تھی۔ علاوہ ازیں رجسٹریشن اور ری نیول فیس معافی کی تجویز بھی دی گئی تھی۔ اگر ہم برقی گاڑیوں کی مارکیٹ پر نظر دوڑائیں تو صرف ناروے ایک ایسا ملک ہے جہاں عام گاڑیوں کے مقابلے میں برقی گاڑیوں کی مارکیٹ مستحکم رہی ہے۔ امریکی ریاست کیلے فورنیا میں وفاقی حکومت ابتدائی دو لاکھ برقی گاڑیوں کی فروخت پر سبسڈی دے رہی ہے۔

برقی گاڑیوں کا انقلاب صرف ایک پالیسی سے نہیں لایا جاسکتا۔ اس کے لیے موجودہ آٹوموبائل انڈسٹری میں مکمل سپلائی چین اور وینڈرز اور اوریجنل ایکوپمنٹ مینوفیکچررز کی شمولیت سے بڑی تبدیلی لانی ہوگی۔ اس کے ساتھ ساتھ الیکٹرک وھیکلز پالیسی میں بیٹری، موٹر اور الیکٹریکل سسٹمز پر مشتمل روایتی انجن کے گرد بنے ہوئے ایکوسسٹم کی تبدیلی کا حل ہونا بھی ضروری ہے۔

خوش قسمتی سے الیکٹرک بیٹری مینوفیکچرنگ پر تین ایشیائی ممالک چین، جاپان اور جنوبی کوریا کی اجارہ داری ہے۔ اگر وزارت صنعت و پیداوار اور وزارت سائنس و ٹیکنالوجی ان ممالک کی کمپنیوں سے اشتراک کرتے ہوئے بیٹری اور اسٹوریج ٹیکنالوجی پر توجہ دیں تو پھر کوئی مناسب حل سامنے آسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔