لاہور نے مسترد نہیں مایوس کیا

ایاز خان  منگل 15 دسمبر 2020
ayazkhan@express.com.pk

[email protected]

لاہور نے پی ڈی ایم کو مسترد نہیں کیا البتہ مایوس ضرور کیا ہے۔آخری معرکے سے پہلے یہ فائنل شو ڈاؤن تھا۔ مریم نواز نے پورے شہر میں ریلیاں نکال کر لوگوں کو اس میں شرکت کی دعوت دی مگر ن لیگ کے گڑھ نے توقعات کے مطابق لبیک نہیں کہا۔ ن لیگ نے گوجرانوالہ کے جلسے میں جوماحول بنایا تھا اس نے مریم بی بی کی توقعات اور امیدوں کو بہت بڑھا دیا تھا۔ پی ڈی ایم کو پہلا جھٹکا پشاورمیں لگا تھا جب توقعات سے بہت کم لوگ وہاں جلسے میں شریک ہوئے تھے۔ حالت ملتان کے جلسے میں بھی یہی ہو سکتی تھی مگر حکومت اور انتظامیہ کی غلط حکمت عملی نے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی عزت رکھ لی اور اس نے گھنٹہ گھر کو ’’ فتح‘‘ کر لیا۔ اس کے بعد پورے پاکستان کی نظریں لاہور پر تھیں۔ ہفتہ دس دن پہلے تک حکومت بھی پریشان لگ رہی تھی۔

خدشہ تھا کہ ملتان والی غلطی دہرائی جائے گی اور ن لیگ لاکھوں کا ہجوم اکٹھا کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔ جلسے کے انعقاد سے پہلے عمران خان کے 2011 کے جلسے سے اس کا موازنہ کیا جا رہا تھا۔ ن لیگ کو یہ زعم تھا کہ مریم نواز کی شخصیت اتنی پرکشش ہے کہ اہل لاہور کھچے چلے آئیں گے۔ 13 دسمبر سے ایک دن پہلے نئے وزیر داخلہ شیخ رشید نے ایک بات کہی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ لیڈر کال دیتا ہے اور لوگ امڈتے چلے آتے ہیں۔ وہ گھر گھر جا کر لوگوں سے اپیل نہیں کرتا کہ جلسے میں ضرور آنا۔ 13 دسمبر کی شام ان کی بات سمجھ میں آگئی۔

عمران خان کے نو سال پہلے جلسے کے مقابلے میں یہ کچھ بھی نہیں تھا۔ اس ایک دن پر کئی دن سے نظریں تھیں۔ ن لیگ کے حمایتی تجزیہ نگاروں کا بھی یہی خیال تھا کہ پورا لاہور مینار پاکستان کا رخ کرے گا اورآزادی فلائی اوور سمیت پورے علاقے میں لوگوں کے سر ہی سر ہوںگے۔ مریم نواز نے جلسے کی کامیابی کے لیے پورے شہر کی خاک چھانی تو اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ انھیں کوئی انجانا خوف ضرور تھا۔ ملتان کے جلسے کی کامیابی کا کریڈٹ پیپلز پارٹی لے گئی۔ لاہور کی ’’ناکامی‘‘ مریم نواز اور ن لیگ کے حصے میں آئی ہے۔

اپنے گھر میں پذیرائی کم ملے توتشویش میں مبتلا ہونا یقینی ہوتا ہے۔مریم سمیت ن لیگ کی پوری قیادت اسی لیے وضاحتیں دے رہی ہے، سیاستدان اپنی ناکامی کا کبھی اعتراف نہیں کرتا۔ مخالفین بھی اپنی کامیابی کا دعویٰ کرتے دیر نہیں لگاتے۔ یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ مریم نے بہت محنت کی مگر انھیں اتنا صلہ نہیں ملا جس کی وہ توقع کر رہی تھیں۔ انھوں نے شو کیا ’’پاور شو‘‘نہیں کر سکیں۔

حکومت کی حکمت عملی اس بار ٹھیک رہی۔ نہ کوئی کنٹینر لگا اور نہ ہی کوئی راستہ بلاک ہوا۔ حکومت نے اپنی اس حکمت عملی سے پیسہ بھی بچایا اور توانائیاں بھی بچالیں۔سارا خرچہ اپوزیشن کا کرایا، جلسے کے شرکا جاتے جاتے پلاسٹک کی کرسیاں بھی ساتھ لے گئے۔  جلسے میں رکاوٹ ڈالنے کے بجائے سارا زور کورونا پر رکھا گیا۔ کورونا کی بیماری ایک حقیقت ہے ۔مریضوں اور اموات کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ عوام کے سامنے اعداد و شمار رکھے جاتے رہے۔

موسم نے بھی اچانک تیور بدل لیے۔اور کسی حد تک دوسری لہر نے بھی لوگوں کو جلسہ گاہ تک نہ جانے کی وجہ فراہم کر دی۔ممکن ہے کہ کورونا کا خوف تعداد میں کمی کا باعث بنا ہو۔اداروں کے خلاف بیانیے نے بھی کردار ادا کیا۔پارلیمنٹ سے استعفوں کا وقت سے پہلے اعلان بھی کنفیوژن کا باعث بنا ۔ استعفے کسی بھی تحریک کے آخر میں ہونے والا اعلان ہوتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس تحریک کو لیڈ کرنے والے دو مرکزی قائدین نواز شریف اور فضل الرحمان غیر منتخب ہیں۔ مریم نواز کا بھی یہی اسٹیٹس ہے۔ بلاول اور ان کی پارٹی سندھ میں برسر اقتدار ہے۔

نواز شریف اور مولانا فضل الرحمان جس حد تک جا چکے ہیں انھیں سسٹم ڈی ریل ہونے سے بھی فرق نہیں پڑتا۔ بلاول اور ان کی پارٹی البتہ ایسا کوئی کام نہیں کرے گی جس سے سسٹم کو کوئی خطرہ ہو ۔ جلسوں ، دھرنوں اور لانگ مارچوں سے حکومتیں گھر بھجوانے کا سلسلہ شروع ہوا تو پھر اسے روکنا ممکن نہیں ہو گا۔ جلسے کے انتظامات میں بھی کوتاہیاں، خامیاں تھیں۔خود مریم نواز کو اپنی تقریر کے دوران کارکنان کو بدنظمی سے روکنا پڑا۔جلسے کی میزبان ن لیگ تھی مگر اختیار جے یوآئی (ف) کے پاس تھا۔جے یوآئی ف کے ورکرز نے نواز شریف کے ترجمان محمد زبیر کے ساتھ بھی بدتمیزی کی اور انھیں اسٹیج پر چڑھنے سے روکتے رہے۔عبدالمالک بلوچ اور ثمینہ خالد گھرکی ناراض ہو کر واپس چلے گئے۔

لاہور کے جلسے کے بعد وزیراعظم عمران خان کے اعتماد میں ضرور اضافہ ہوا ہو گا لیکن انھیں زیادہ خوش نہیں ہونا چاہیے۔ انھیں جو مہلت ملی ہے اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ گورننس کے معاملات بہتر کر کے مہنگائی اور بیروزگاری میں کمی سے عوام کو ریلیف دینے پر اپنی توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ انھیں سب سے زیادہ پنجاب پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ پنجاب اگر ان کے ہاتھ سے نکل گیا تو پھر حکومت کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ کپتان کو پرویز الٰہی سے قریبی رابطہ رکھنا پڑے گا۔ ان کو ناراض کر کے وہ پنجاب میں زیادہ دیر اقتدار پر قابض نہیں رہ سکیں گے۔

پرویز مشرف ماضی میں یہ غلطی کر کے اس کا خمیازہ بھگت چکے ہیں۔ کپتان کے ماضی میں کس کے بارے میں کیا خیالات تھے ان کو ماضی کا حصہ بنا دینا ہی بہتر ہے۔ چوہدری برادران وضع دار لوگ ہیں، وہ دوسروں کو عزت دیتے ہیں اور جوا ب میں ان کا تقاضا بھی یہی ہوتا ہے۔ کپتان کو اپوزیشن کے حوالے سے بھی اپنا رویہ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔معاشی استحکام کی بنیاد سیاسی استحکام سے پڑتی ہے۔ سیاسی استحکام نہ ہو تو معاشی استحکام بھی ممکن نہیں۔ دور جانے کی ضرورت نہیں، اپنے ہمسائے بنگلہ دیش کو ہی دیکھ لیں۔ وہاں ایک حکومت آتی تھی تو اس کی اپوزیشن سڑکوں پر آجاتی تھی۔

نئے الیکشن کے بعد اپوزیشن حکومت سنبھالتی اور ہارنے والی پارٹی پھر سڑکوں پر چلی جاتی۔ یہ سلسلہ ختم ہوا تو معاشی استحکام بھی آ گیا اور ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو گیا۔ پاکستان میں ون پارٹی رول ممکن نہیں۔ البتہ انتخابی اصلاحات کے ذریعے یہ ممکن بنایا جا سکتا ہے کہ ہارنے والی پارٹی یا پارٹیاں 5سال آرام سے حکومت کو چلنے دیں اور اگلے انتخابات کا انتظار کریں۔ محمود خان اچکزئی کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے ۔موصوف جہاں بھی جاتے ہیں داستان چھوڑ آتے ہیں۔ کراچی میں اردو سپیکنگ کو ناراض کیا تو لاہور میں پنجابیوں کو۔ انھیں افغانستان سے اتنی محبت ہے تو وہاں چلے جائیں۔ اب نواز شریف اقتدار میں نہیں ہیں جو انھیں پورے خاندان سمیت ’’نوکری‘‘ پر رکھ لیں گے ۔

اپوزیشن لانگ مارچ کو فروری تک موخر کر کے ایک قدم پیچھے ہٹی ہے۔ حکومت کو بھی ایک قدم پیچھے ہٹنے کی ضرورت ہے۔ ضروری نہیں کہ لاہور نے اس بار ن لیگ کو مایوس کیا ہے تو اگلی بار بھی مایوس کر ے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔