متحدہ عرب امارات میں کورونا ویکسینیشن جاری، بحرین میں آغاز کی تیاریاں

ویب ڈیسک  منگل 15 دسمبر 2020
دونوں عرب ممالک نے چین کی کورونا ویکسین منظور کی ہے، فوٹو : فائل

دونوں عرب ممالک نے چین کی کورونا ویکسین منظور کی ہے، فوٹو : فائل

ابوظہبی/ منامہ: متحدہ عرب امارات اور بحرین نے چین کی تیار کردہ کورونا ویکسین کی منظوری دیدی ہے جس کے بعد امارات میں ویکسینیشن کے عمل کا آغاز ہوگیا ہے جب کہ بحرین میں ویکسینیشن کے لیے شہریوں کی رجسٹریشن جاری ہے۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق متحدہ عرب امارات میں چینی کمپنی سینو فارم کی کورونا ویکسین ٹرائل کے آخری مرحلے میں 86 فیصد تک مؤثر پائی گئی جس کے بعد اس ویکسین کو منظور کرلیا گیا تھا۔

گزشتہ دو روز سے متحدہ عرب امارات میں چین کی کورونا ویکسین کے ٹیکے شہریوں کو لگانے کا آغاز ہوگیا ہے۔ ویکسین مفت فراہم کی جارہی ہے اور پہلے مرحلے میں افواج، طبی عملے، 60 سے زائد عمر کے شہریوں اور مختلف امراض میں مبتلا افراد کو ترجیحی بنیادوں پر لگائی جا رہی ہیں۔

یہ خبر پڑھیں : دنیا کی پہلی کورونا ویکسین برطانیہ کی 90 سالہ خاتون کو لگا دی گئی

ادھر بحرین نے بھی چین کی کورونا ویکسین کی منظوری دیدی ہے اور شہریوں سے درخواست کی ہے کی ویکسینیشن کے لیے خود کو رجسٹرڑ کروائیں۔ بحرین میں بھی ویکسین مفت فراہم کی جائے گی۔ چین کی ویکسین کے ٹرائل میں بحرین نے بھی حصہ لیا تھا۔

قبل ازیں بحرین نے فائزر اور بائیوٹیک کے اشتراک سے تیار ہونے والی کورونا ویکسین کے ہنگامی بنیادوں پر استعمال کی اجازت دی تھی تاہم ویکسینیشن کے لیے بحرین نے چین کی کمپنی سینوفارم کی ویکسین کا انتخاب کیا ہے۔

یہ خبر بھی پڑھیں : امریکی ادارے ’ایف ڈی اے‘ نے فائزر کی کورونا ویکسین کی منظوری دیدی

دوسری جانب سعودی عرب اور کویت نے دیگر عرب ممالک کے برعکس چین کی کورونا وائرس کے بجائے فائزر اور بائیوٹیک کی ویکسین کو منظور کیا ہے اور جلد ویکسینیشن کا آغاز ہوجائے گا۔ فائزر کی ویکسین کے ٹیکے لگانے کا عمل سب سے پہلے برطانیہ میں شروع ہوا تھا۔

جاپان نے بھی فائزر اور بائیوٹیک کی کورونا ویکسین کی منظوری دی ہے۔ روس مقامی سطح پر تیار کردہ ویکسین استعمال کر رہا ہے جب کہ بھارت بھی یہی ارادہ رکھتا ہے۔ دنیا بھر میں اس وقت درجن بھر سے زائد ویکسین کے ٹرائل آخری مرحلے میں ہیں تاہم صرف امریکی کمپنی فائزر اور چینی کمپنی سینوفارم کی ویکسنز کی منظوری دی جارہی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔