کل کے سوداگر

سعد اللہ جان برق  بدھ 16 دسمبر 2020
barq@email.com

[email protected]

منفی، مثبت یا جوڑ توڑ اور ازواج کے سلسلے میں آپ ہمارے کالم پڑھتے رہے ہوں گے بلکہ شاید کچھ لوگ بور بھی ہو گئے ہوں گے کہ یہ کیا ازواج ازواج یا منفی مثبت لگارکھی ہے۔ کوئی کام کی بات کرو، کچھ دانا دانشوری بگھارو، کچھ فلسفہ وغیرہ نکالو۔ ٹرمپ کے ماضی اور جو بائیڈن کے مستقبل کی بات کرو بلکہ ٹرمپ کو کچھ طعنے کوسنے اور جو بائیڈن کو اچھے اچھے مشورے دو۔

مودی کی ایسی تیسی کرو، کشمیر بنے گا پاکستان کے مژدے سناؤ، بھارت کے عنقریب تباہ ہونے کی پیش گوئی کیا کرو۔ ریاست مدینہ کی بات کرو، کچھ صادقوں امینوں کی سناؤ، انصاف یا ففٹی ففٹی پر روشنی ڈالو۔ ’’وژن‘‘ کا بیان بلکہ بیانیہ لکھو۔ اور کچھ نہیں تو اسلام، اسلام اور جمہوریت جمہوریت کی گردان ہی کرؤ۔ لیکن ہم بھی کیا کریں، عادت سے مجبور اور علتوں سے بھرپور ہیں۔ مرشد کے بھی مرید ہیں ع

جانتا ہوں ثواب طاعت و زہد

پر طبیعت ادھر نہیں آتی

بلکہ مرشد سے زیادہ پیر بھائی علامہ اقبال کے بھی پرستار ہیں کہ وہ داغ کے شاگرد تھے اور داغ غالب کے اور بات بھی ایسی کرنی ہے جیسے، گویا یہ بھی میرے دل میں تھا بلکہ یہ ہی میرے دل میں تھا۔ یعنی ع

ایک کانٹا پاؤں میں ہے، ایک کانٹا دل میں ہے

کہ اس وقت دنیا میں جو کچھ چل رہا ہے اور اس کا بہت سا حصہ ہمارے ہاں قیامت برپا کیے ہوئے ہے، یہ سب کچھ ’’جوڑوں‘‘ کے ٹوٹنے کے سبب سے ہو رہا ہے۔ لیکن گھبرایئے نہیں، آج ہم کوئی فضول سی سنجیدہ یا رنجیدہ بات بلکہ نہایت کام کی بکواس یا ادھر ادھر کی اور نہایت بے پر کی اڑانے والے ہیں۔ جن جوڑوں کا ہم ذکر کرنے والے ہیں، ان میں ایک تو مشہور و معروف چور اور پولیس کا جوڑا ہے جو اس بری طرح ٹوٹا پھوٹا ہوا ہے کہ یہ فرق ہی مشکل ہو گیا ہے کہ اس میں منفی کون ہے اور مثبت کون ۔ کیونکہ یہ دونوں آپس میں اتنے گڈمڈ ہو گئے ہیں۔

من تو شدم، تومن شدی، من جاں شدم تو تن شدی

تاکس نہ گوئد بعد ازیں من دیگرم تو دیگری

آپ جسے پکا چور سمجھیں گے، وہ خالص پولیس والا نکلے گا اور جسے پولیس والا سمجھیں گے، وہ… چلیے ایک لطیفہ سنیے۔ ایک فلم میں ایک دکاندار سے ہیرو کا معاملہ ہو گیا۔ ہیرو ابھی کھڑا تھا کہ ایک آدمی نے آ کر دکاندار کو کچھ پڑیاں دیں اور دکاندار نے اسے بہت سارے پیسے دیے۔ ہیرو سمجھ گیا۔ ارے یہ تو گانجا ہے، میں ابھی جا کر پولیس کو خبر کرتا ہوں کہ تم گانجا بیچتے ہو۔

دکاندار نے کہا، یہ جو شخص مجھے مال دے گیا۔ یہ پولیس والا ہی تھا۔ اب اس جوڑے کی اس بری طرح ٹوٹ پھوٹ پر یا منفی کے مثبت اور مثبت ہونے پر کیا کیا جائے کہ اب اس جوڑے کی مرمت بھی ممکن نہیں رہی ہے۔ لیکن اس وقت ہم ایک اور جوڑے کی بات کرنا چاہتے ہیں۔ یہ جوڑا ماہرین عملیات و تعویزات اور معاونین خصوصی کا ہے جو پہلے زمانے میں شاید جوڑا۔ یعنی منفی مثبت ہوا کرتے تھے لیکن اب یہ دونوں بھی۔

ترے دربار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے

بندہ و آقا ومحتاج وغنی ایک ہوئے

اصل میں یہ دونوں ’’کل‘‘ کے علمبردار اور فردوس گم گشتہ کے ایجنٹ ہوتے ہیں لیکن دونوں کا طریقہ واردات مختلف ہوتا ہے۔ ایک کا کاروبار نقد پرچلتا ہے، دوسرے کا قرض پر۔ عاملین کاملین تو اسی وقت تعویذ گنڈہ یا چھومنتر دے دیتے ہیں جب کہ لیڈر لوگ عرف معاون خصوصی کل، کل، کل یا گا، گے، گی سے کام چلاتے ہیں۔

من کہ امروزم بہشت نقد حاصل می شود

وعدہ فردائے زاہد راچرا باور کنم

لیکن عاملین کاملین اور لیڈروں میں باوجود اتنی یکسانیت اور مماثلت کے ایک فرق یہ بھی ہے کہ عاملین کاملین کا معاوضہ حقیر ہوتا ہے اور لیڈروں کا کثیر بلکہ لامحدود۔ جہاں تک ہماری معلومات ہیں غریب بیچارہ ’’ایں دم ‘‘کبھی آج نہیں ہوا ہے ،ہمیشہ کل ہی رہتا ہے۔ اپنے لباس میں آج کو بھیج دیتا ہے اور خود آگے بڑھ جاتا ہے۔ یوں سمجھیے کہ جیسے اپنی نظر کا تعاقب کیا جائے۔ جتنا آپ اس کی طرف بڑھیں، اتنی ہی وہ آگے بڑھ جاتی ہے، اس لیے تو بزرگوں نے کہاہے اور تاریخ میں کبھی نہیں ہوا ہے کہ کسی نے اپنی نظر پکڑی ہو بلکہ بعض لوگ تو اس کی مثال ناک سے دیتے ہیں کہ چاہے کوئی کتنا تیز دوڑے اپنی ناک سے آگے نہیں نکل سکتا۔ ناک ہمیشہ آگے رہے گی ہو بہو اس کم بخت ’’کل‘‘ کی طرح۔

اب نہ آئے گی جوانی نہ جوانی کی امنگ

راہ کیا دیکھیے روٹھے ہوئے مہمانوں کی

روٹھے ہوئے مہمان پھر بھی کبھی کبھی لوٹ آتے ہیں لیکن یہ ’’کل‘‘تو نہ کبھی تھی  نہ ہے اور نہ ہوگی۔یہ جو ’’کل‘‘ کے علمبردار اور فردوس گم گشتہ کے ایجنٹ ہوتے ہیں، یہ اپنے پہلو میں کچھ اور ساتھی بھی رکھتے ہیں جو اس قسم کے ’’لارے‘‘ الاپتے ہیں۔

ہم دیکھیں گے لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے

وہ دن جس کا وعدہ ہے جو لوح ازل پہ لکھا ہے

وہ دن توجس کا وعدہ ہے اس کی خبر تو سب سے معتبر ہستی نے دی ہے، وہ ضرور آئے گا۔ لیکن شاعر نے اس میں ڈنڈی یہ ماری ہے کہ وہ دن جو لوح ازل پہ لکھا ہے اور جس کا وعدہ ہے اس کا تعین نہیں ہوا ہے اور آپ تو بس ’’کل‘‘ کو لا رہے ہیں اور اس دنیا میں لا رہے ہیں۔

جب تاج اچھالے جائیں گے

جب تخت گرائے جائیں گے

اٹھے گا انا الحق کا نعرہ جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو، جب راج کرے گی خلق خدا۔ جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو۔ اصل مسئلہ ’’جب‘‘ کا نہیں کب کا ہے، اس دن کا تو سب کو پتہ ہے۔ لیکن آپ تو مجھے کسی اور دن پر ٹرخا رہے ہیں کہ برداشت کرو۔ ان آج والوں کو مزے کراؤ کیونکہ کل کل کل… ایک کجھور بیچنے والے کا واقعہ تو ہم نے آپ کو کہیں سنایا ہوا ہے۔ وہ زمین پر بیٹھا پبی کے میلے میں کجھور بیچ رہا تھا۔ چار آنے سیر کا نرخ تھا۔کسی نے بھیڑ میں اسے کھوٹا روپیہ دیا، اسے بعد میں پتہ چلا تو رونے چلانے اور بددعائیں دینے لگا ۔کسی نے کہا، فکر نہ کرو آخرت میں کہاں جائے گا۔اس پر اس دل جلے نے کہا، میں آخرت میں روپیہ لے کر کیا کروں گا، کھوٹا روپتہ دینے والے نے تو مجھے آج غرق کر دیا ہے۔ ایک روپیہ اس کی ایک دن کی کل آمدنی تھی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔